حکومت کی خودمختاری اور جمہوریت

0

ہندوستان جنت نشان میں جمہوریت اپنے تمام مروجہ اور مسلمہ اقدار کے علی الرغم ایک عجیب دوراہے پر کھڑی ہے، ایک جانب حزب اختلاف،حکومت پر جمہوریت کے قتل کا الزام لگارہاہے تو دوسری جانب حکومت جمہوریت کے پھل پھولنے، اس کی مکمل حفاظت کا عہد اور حزب اختلاف کو جمہوری طرز عمل اپنانے کی نصیحت کررہی ہے۔ سچ یہ ہے کہ دونوں ہی فریق دو انتہائوں پر کھڑے ہیں اور عوام کالانعام کی طرح کٹھ پتلی کا تماشا دیکھ رہے ہیں۔
آج ہی ماسواترنمول کانگریس، تمام حزب اختلاف نے حکومت کے خلاف ایک مارچ نکالا اور کہا کہ ملک میں جمہوریت کا قتل کیا جارہا ہے۔ اس مارچ کی قیادت کررہے کانگریس کے رہنما راہل گاندھی نے کہا کہ حزب اختلاف کو پارلیمنٹ میں مسائل اٹھانے کی اجازت نہیں دی جارہی ہے، ان کی آوازوں کو کچل دیاگیا ہے نیز یہ کہ ایوان کو میوزیم بنا دیاگیا ہے۔
حزب اختلاف نے یہ مارچ راجیہ سبھا کے 12اراکین کی معطلی منسوخ کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے نکالا تھا۔ حزب اختلاف کا کہنا ہے کہ معطل کیے جانے والے ارکان پارلیمنٹ نے کچھ غلط نہیں کیا تھا، ان کی معطلی ہندوستان کے لوگوں کی آوازکو کچلنے کی علامت ہے۔ ارکان کو معطل کرکے حکومت نے اہم مسائل پر عوام کی آواز کو دبانے کا کام کیا ہے۔اس ’’جمہوریت مارچ‘‘ کے قائد راہل گاندھی نے وزیراعظم نریندر مودی اور راجیہ سبھا کے چیئر مین ایم وینکیا نائیڈوکو کٹھ پتلی قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ معطلی راجیہ سبھا کے چیئرمین یا وزیر اعظم نے نہیں کی ہے بلکہ کسانوں کی آمدنی پر نظریں جمائے بیٹھی مخصوص طاقت نے اس کا حکم صادر کیا تھا اور ان لوگوں نے صرف اس حکم کا نفاذ کیا ہے۔راہل گاندھی نے اس موقع پر کسی کا نام نہیں لیا لیکن بین السطور وہ جو پیغام دینا چاہتے ہیں، اس سے کم و بیش ہر شخص واقف ہے۔ کسانوں کے مسلسل احتجاج اور تحریک کے بعد واپس لیے جانے والے زرعی قوانین کے پس پشت بھی اسی طاقت کا ہاتھ بتایاگیاتھا۔
اب حقیقت کیا ہے یہ تو وزیراعظم نریندر مودی اور راہل گاندھی ہی بہتر بتا پائیں گے لیکن اس معطلی کے بعد سے ہندوستان کی ’’جمہوریت‘‘کے حوالے سے کئی ایک خدشات سر ابھارنے لگے ہیں اور ایسا محسوس ہورہاہے کہ حکمراں اور حزب اختلاف کے تصادم کے درمیان ملک کا جمہوری اقدار اور جمہوری طرز عمل مفاد کی قربان گاہ پر چڑھایا جارہاہے۔اس کے ساتھ ہی حکومت کی خودمختاری پر بھی شبہات کھڑے ہورہے ہیں۔
یہ درست ہے کہ رواں سرمائی اجلاس کے آغاز میں 29نومبر کوجن 12ارکان راجیہ سبھا کو معطل کیا گیا تھا، انہوں نے گزشتہ اگست کے بارانی اجلاس میں زرعی قوانین، لیبرقوانین اوراس قبیل کے دیگر قوانین کے سلسلے میں حکومت سے تلخ و ترش سوالات کیے تھے جن کا حکومت نے کوئی جواب نہیں دیا۔ اس کے برخلاف انہیں ’’غیر پارلیمانی ‘‘ طرز عمل کی فرد جرم عائد کرتے ہوئے پارلیمنٹ کے پورے سرمائی اجلاس کے لیے معطل کر دیا گیا۔ اس معطلی کو حزب اختلاف ’’غیرجمہوری اور ایوان بالا کے تمام قواعد و ضوابط کی خلاف ورزی‘‘ قرار دے رہا ہے۔
اگر راہل گاندھی کی بات درست ہے کہ ارکان راجیہ سبھا کی معطلی کسی خاص قوت کے اشارے پر کی گئی ہے تو یہ نہ صرف ملک میں کسی نادیدہ متوازی حکومت کے وجود کا پتہ دے رہی ہے بلکہ جمہوریت، انتخابی عمل، منتخب حکومت، عوام کی حاکمیت ، ملک کے مقتدر اعلیٰ آئین کی بے توقیری کا ثبوت بھی ہے اور آنے والے دنوں میں جمہوریت کے ساتھ ساتھ ملک کی وحدت و سالمیت کے لیے بھی کھلے چیلنج کی حیثیت رکھتا ہے۔
ہوسکتا ہے حکومت بغض اور عناد قرار دے کر حزب اختلاف کے ان الزامات کو مسترد کردے لیکن اسے ا ن سوالات کا جواب ضرور دینا چاہیے جو ایک منتخب حکومت کی خودمختاری اور ملک کی جمہوریت اور حکومت کے جمہوری طرز عمل کے سلسلے میں اٹھائے جارہے ہیں۔یہ سوالات نہ صرف حزب اختلاف اٹھا رہا ہے بلکہ یہ سوالات عام لوگوں کے ذہن میں بھی گردش کررہے ہیں کہ حکومت یکے بعد دیگرے ایسے اقدامات کیوں اٹھارہی ہے جس کے ثمرات ملک کے ایک مخصوص طبقہ تک ہی محدود رہنے والے ہیں۔مختلف مدات میں عوام سے کھربوں کا ٹیکس نچوڑنے کے باوجود حکومتی خزانہ پر کون سا ایسا بار آپڑا ہے کہ اسے عوامی ملکیت فروخت کرکے رقوم اکٹھی کرنی پڑرہی ہیں؟ زرعی قوانین تو خیر سے واپس لے لیے گئے لیکن سرمایہ کشی اورمختلف عوامی شعبہ جات کی مکمل نجکاری کی کیا وجوہات ہیں؟ مخصوص سرمایہ داروں پر حکومتی مہربانیوں کے درپردہ کون سے عوامل کار فرمار ہیں؟ اس کے خلاف آواز اٹھانے والوں کی زبان بندی کیوں کی جارہی ہے؟ جمہوری نظام حکمرانی میں ایک منتخب حکومت کے طرز عمل کا جو معیار مقرر ہے، اس پر یہ حکومت کھری کیوں نہیں اترپارہی ہے؟
ان سوالات کا جواب دے کر حکومت نہ صرف اپنی خودمختاری پر اٹھنے والی انگلی مروڑ سکتی ہے بلکہ ملکی جمہوریت کے حوالے سے پیدا ہونے والے خدشات کا بھی باب بندکرسکتی ہے۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS