ایک بے قصور آدمی کی ہلاکت بھی افسوسناک ہوتی ہے، افسردگی کی وجہ بنتی ہے جبکہ ناگالینڈ میں 4 دسمبر کو 14 شہری اور ایک سیکورٹی جوان ہلاک ہوگئے تو ان کی ہلاکت پر افسوس کا اظہار کیا جانا فطری ہے اور ان ہلاکتوں کے خلاف اشتعال بھی ناقابل فہم نہیں ہے مگر انسان دوست لوگ برے وقت میں بھی ہوش نہیں کھوتے، اس لیے یہ دیکھنا بھی ضروری ہے کہ کیا فوج نے دانستہ طور پر گولیاں چلاکر شہریوں کو موت کے گھاٹ اتارا یا اس سے کوئی چوک ہوئی ہے۔ اس سلسلے میں ملک کے وزیر داخلہ امت شاہ نے یہ بتایا ہے کہ اصل میں ہوا کیا۔ ان کے مطابق، ’ہندوستانی فوج کو ناگالینڈ کے مون ضلع کے ترو علاقے کے پاس انتہا پسندوں کی آمد ورفت کی اطلاع ملی تھی۔ اس کی بنیاد پر فوج کے 21 پیراکمانڈو کے ایک دستے نے 4 دسمبر کی شام کو مشتبہ علاقے میں ایمبُش لگایا تھا۔ ایمبش کے دوران ایک گاڑی ، ایمبش کے مقام کے قریب پہنچی۔ اسے رکوانے کا اشارہ اور کوشش کی گئی۔ رکنے کے بجائے گاڑی کے ذریعے اس جگہ سے تیزی سے نکلنے کی کوشش کی گئی۔ اس کے بعد اس شبہ پر کہ گاڑی میں مشتبہ باغی جا رہے تھے، گاڑی پر گولی چلائی گئی۔‘ شاہ کے مطابق، گاڑی میں 8 لوگ تھے۔ ان میں سے 6 کی موت ہوگئی۔ 2 لوگ زخمی ہوگئے۔ فوج نے انہیں پاس کے ہیلتھ سینٹر میں داخل کیا۔ بعد میں یہ معاملہ غلط شناخت کا نکلا۔ وزیر داخلہ نے یہ بھی کہا ہے کہ دیگر اموات کی وجہ فوجیوں کا اپنی حفاظت کے لیے گولی چلانا ہے، کیونکہ مقامی لوگوں نے انہیں گھیر لیا تھا، اس دوران ایک سیکورٹی جوان کو بھی جان گنوانی پڑی۔ امت شاہ کی یہ بات اطمینان دلانے والی ہے کہ ’صورت حال تناؤ بھری مگر قابو میں ہے۔‘
فوج ملک اور اس کی سرحدوں کی نگہبانی کے لیے ہوتی ہے، چنانچہ نہ وہ یہ برداشت کر سکتی ہے کہ اس کی موجودگی میں انتہا پسند یا دہشت گرد آگے بڑھیں اور نہ ہی یہ برداشت کر سکتی ہے کہ علیحدگی پسند ملک میں مذموم منصوبوں کو انجام دینے کی کوشش کریں، اس لیے سرحد پر اس کی سختی ناقابل فہم نہیں مگر اس سے کہیں کوئی بھول ہو جاتی ہے تو اسے سمجھنے کی کوشش کی جانی چاہیے۔ امت شاہ کے بیان کی روشنی میں یہ بات کہی جائے گی کہ ناگالینڈ میں فوج سے بھول ہوئی ہے، یہ بھول افسوسناک ہے مگر ہندوستانی فوج پر گفتگو کرتے وقت کچھ باتوں کو نظرانداز نہیں کیا جانا چاہیے۔ پہلی بات یہ کہ فسادات میں بھی اس نے یہی دکھایا ہے، وہ فسادیوں سے سختی سے نمٹے گی اور امن پسند لوگوں کا اعتماد بحال کرے گی۔ یہی وجہ ہے کہ جب فساد کہیں کنٹرول میں نہیں آتا، مقامی انتظامیہ کی کارکردگیوں سے لوگ مایوس ہو جاتے ہیں تو وہ حکومت سے فوج بھیجنے کی مانگ کرتے ہیں۔ ممبئی کے فساد میں بھی لوگوں نے یہ مانگ کی تھی، کیونکہ لوگوں کا یہ اعتماد جیتنے میں ہندوستانی فوج کامیاب ہے کہ وہ کسی سے تفریق نہیں کرتی، اس کے لیے اہمیت کی حامل بات فرض کی ادائیگی ہے۔ ناگالینڈ کے واقعے پر غور کرتے وقت اس پہلو کو بھی نظرانداز نہیں کیا جانا چاہیے کہ فوجی بھی آدمی ہی ہوتے ہیں، ان سے بھی بھول ہو سکتی ہے اور بھول کی نوعیت بڑی بھی ہو سکتی ہے۔ اس کے باوجود اگر کوئی یہ کہتا ہے کہ اسے حکومت کی بات پر یقین نہیں ہے، فوج نے دانستہ طور پر گولیاں چلائی ہیں تو اس کے لیے یہ بات باعث اطمینان ہوگی کہ ناگالینڈ کی حکومت نے معاملے کی تفتیش کے لیے اسپیشل انوسٹی گیشن ٹیم(SIT) کی تشکیل کر دی ہے، اسے تفتیش کے لیے ایک ماہ کا وقت دیا گیا ہے ۔ اس نے تفتیش شروع کر دی ہے۔ اس کے علاوہ سیکورٹی فورسز کے خلاف ایف آئی آر بھی درج کردی گئی ہے۔دوسری طرف ناگالینڈ کے وزیراعلیٰ نیفیو ریو نے مرکزی حکومت سے یہ مطالبہ کیا ہے کہ وہ ناگالینڈ سے آرمڈ فورسز (اسپیشل پاور) ایکٹ ہٹائے۔ ان کی منطق یہ ہے کہ یہ ایکٹ ناگالینڈ کو بدامنی والا علاقہ قرار دیتے ہوئے نافذ کیا گیا تھا مگر اس وقت یہاں امن ہے۔ وزیراعلیٰ ریو کا یہ بھی کہنا ہے کہ ’یہ ایک بے رحم قانون ہے جو سب سے بڑی جمہوریت ہندوستان کی شبیہ داغدار کرتا ہے اور اس قانون کی وجہ سے دنیا ہماری مذمت کرتی ہے۔‘ مرکزی حکومت نے اس سلسلے میں ناگالینڈ کے وزیراعلیٰ کو یہ یقین دہانی نہیں کرائی ہے کہ وہ آرمڈ فورسز (اسپیشل پاور) ایکٹ وہاں سے ہٹا دے گی۔ اصل میں یہ ایکٹ صرف ناگالینڈمیں ہی نافذ نہیں۔ پھر یہ کہ ناگالینڈ ایک سرحدی ریاست ہے، اس سلسلے میں اچانک کوئی فیصلہ مرکزی حکومت نہیں لے سکتی، خاص کر ایسی صورت میں جب ایک طرف چین کی توسیع پسندی سے وہ واقف ہے اور دوسری طرف پاکستان کی مذموم حرکتوں سے بھی وہ ناواقف نہیں، البتہ شاہ نے یہ یقین ضرور دلایا ہے کہ ناگالینڈمیں جو واقعہ ہوا، وہ آئندہ نہیں ہوگا اور اپنی فوج کی مثبت شبیہ کو دیکھتے ہوئے یہ امید رکھی جانی چاہیے کہ وہ آئندہ کوئی افسوسناک بھول نہیں کرے گی۔
[email protected]
ناگالینڈ کا واقعہ افسوسناک
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS