امام علی مقصود فلاحی
یری آنکھوں میں ابل کر اک سمندر آگیا،
لوٹ کر اس سال پھر جب چھ دسمبر آگیا،
تم سمجھتےہوکہ دنیامیں کوئی بابرنہیں،
پھر کہاں جاؤگے گر دنیا میں بابر آگیا
چھ دسمبر کے آتے ہی ہندوستانی مسلمان افسردگی کے بہاؤ میں بہنے لگتے ہیں، اندر سے ٹوٹے ہوئے اور باہر سے مغموم نظر آتے ہیں، کیوں یہی وہ دن ہے جس دن بابری مسجد کو شہید کرکے تمام مسلمانوں کو ذہنی طور پر ٹھیس پہنچایا جاتا ہے، انکے عقائد و نظریات سے کھلواڑ کیا جاتا ہے۔
جسکی تاریخ یہ ہوتی ہے کہ بابر بادشاہ ہندوستان پر حملہ کرنے سے پہلے فقیروں کے بھیس میں کابل سے جب یہاں آتا ہے تو فیض آباد میں ایک بلند ٹیلے پر اسکی ملاقات اس دور کے مقتدر بزرگ شاہ جلال الدین اور حضرت موسی عاشقان سے ہوتی ہے، یہ بزرگان دین بابر کی التجا پر اس کی امداد باطنی کیلئے دعا کرتے ہیں اور یہ کہتے ہیں کہ اگر اس کی تمام مرادیں پوری ہوجائیں تو وہ ایک مسجد تعمیر کروائیں۔
1528ء میں جب بابر نے ہندوستان فتح کیا تو اس نے اودھ میں اپنے گورنر میرباقی کے ذریعہ اس ویران ٹیلے پر ایک مسجد تعمیر کروائی جو بابری مسجد کے نام سے موسوم رہی۔
لیکن ہندوؤں کا کہنا یہ تھا کہ وہ جگہ جہاں بابری مسجد کی تعمیر ہوئی ہے وہ رام جنم بھومی ہے، رام کی پیدائش وہیں ہوئی ہے، اسی لئے وہاں پر مندر ہونا چاہئے نہ کہ مسجد، سن 1885 میں پہلی بار معاملہ عدالت میں پہنچا، مہنت رگھوبر داس نے فیض آباد عدالت میں بابری مسجد سے متصل ایک رام مندر کی تعمیر کی اجازت کیلئے عرضی دائر کی۔
سن 1949 ، 23 دسمبر میں تقریبا 50 ہندوؤں نے مسجد کے مرکزی مقام پر بھگوان رام کی مورتی رکھ دی، اس کے بعد اس مقام پر ہندو وں نے پوجا کرنا شروع کردی ، جبکہ مسلمانوں نے نماز پڑھنا بند کر دیا۔
پچیس ستمبر 1990 میں بی جے پی صدر لال کرشن اڈوانی نے گجرات کے سومناتھ سے اتر پردیش کے ایودھیا تک رتھ یاترا نکالی، جس کے بعد ملک بھر میں بڑے پیمانے پر فرقہ وارانہ فسادات ہوئے۔
پھر چھ دسمبر 1992 میں ہزاروں کی تعداد میں کار سیکوں نے ایودھیا پہنچ کر بابری مسجد شہید کردی ، جس کے بعد بڑے پیمانے پر فرقہ وارانہ فسادات ہوئے۔ شہید ہی نہیں کیا بلکہ ہندوستان کے سیکولر کردار، مذہبی رواداری کی روایت کو پامال کردیا، مسلمانوں کا جو بھرم تھا اس کو بھی ختم کر دیا۔
پھر بھی مسجد سالوں تک اپنی بوسیدہ دیواروں کے ساتھ معصومیت سے کھڑی رہی، گویا مسلمانو سے یہ گہار لگاتی رہی کہ مجھے آباد کردو، مسلمانو آؤ نماز پڑھ لو، میرے گنبد کو اذانوں سے شیراب کردو، میرے ممبر پر بیٹھ کر دین و اسلام کی بات کرلو، لیکن کمبخت مسلمان اپنی دنیا میں مست تھا، فرقہ پرستوں کی چاپلوسی میں مگن تھا، نیتاؤں کے تلوے چاٹنے میں گم تھا، جب اپنے محلے کی مسجد سے دور تھا، تو بابری مسجد کو کیا آباد کرتا۔
مگر کچھ لوگ ایسے بھی تھے جنکے دل میں بابری مسجد کی محبت تھی، وہ اپنے محلے کی مسجد کو بھی آباد کرتے تھے، جامع مسجد میں بھی نماز پڑھتے تھے، اپنے حق کے لئے آواز اٹھاتے تھے، مسلمانوں کے حقوق کی حفاظت اور مسلم پرسنل لاء کی بھی حفاظت میں مصروف رہتے تھے لیکن وہ چند گنے چنے اشخاص تھے، جب بھی وہ بابری مسجد کو بچانے کے لئے کوئی آواز اٹھاتے تھے تو انکی آواز کو دبا دیا جاتا تھا، کیونکہ وہ چند لوگ تھے، باقی تو فرقہ واریت میں پھنسے ہوئے تھے، کھلے سانڈ کی طرح بکھرے ہوئے تھے، قرآن کی آیت “اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھامے رکھو” کی عملی منکر تھے، شاید اسی کو دیکھتے ہوئے، مسجد کے حق میں سارے ثبوت مانتے ہوئے بھی،16 اکتوبر 2019 کو سپریم کورٹ میں بابری مسجد معاملہ کی سماعت مکمل ہوتی ہے اور فیصلہ محفوظ رکھ لیا جاتا ہے، سارے لوگ اس کشمکش میں رہتے ہیں اب کورٹ کس کے حق میں فیصلہ دے گا؟ مسجد کے حق میں فیصلہ ہوگا؟ یا پھر مندر کے حق میں فیصلہ سنائے گا، سارے لوگ خاموش رہتے ہیں، کسی کو کچھ پتہ نہیں ہوتا، کہ اب کیا ہونے والا ہے؟ ادھر وہ مسلم لیڈران جو مسجد کے حق لے لیے جد و جہد کر رہے تھے وہ بھی پریشان تھے کیا ہوگا، کہیں پھر خون خرابا تو نہیں ہوگا؟ اسی لئے مسلم لیڈران بھی یہ اعلان کر رہے تھے کہ کورٹ کا جو بھی فیصلہ آئے گا ہم اسے تسلیم کریں گے اور ہندوؤں کی جانب سے بھی یہ اعلان ہو رہا تھا کہ اب کوئی خون خرابا نہیں ہوگا، جو بھی فیصلہ آئے گا ہم اسے قبول کر لیں گے، دیکھتے دیکھتے 9 نومبر 2019 کو سپریم کورٹ کی طرف سے فیصلہ سنایا جاتا ہے کہ سارے ثبوت و گواہ تو بابری مسجد ہی کے حق میں ثابت ہوئے ہیں، لیکن بابری مسجد کے مقام پر اب رام مندر تعمیر کے لئے اراضی ٹرسٹ کو سونپ دی جائے اور حکومت اس ٹرسٹ کو تشکیل دے۔
اس کے علاوہ متبادل کے طور پر سنی وقف بورڈ کو کسی دوسرے مقام پر مسجد کی تعمیر کے لئے زمین دیدی جائے۔
پھر کیا ہوتا ہے مسلمانوں بیچارے مایوس ہوجاتے ہیں اور بابری مسجد کلی طور پر جام شہادت نوش کر لیتی ہے، در اصل اسکی شہادت 6 دسمبر ہی سے شروع ہوتی ہے، اسکے گنبد کو کھلے عام زمین بوس کردیا جاتا ہے اور مسلمانوں کے جذبات کو مجروح کرکے مسجد کو ویران کردیا جاتا ہے پھر وہیں سے معاملہ چلتے چلتے یہاں تک پہنچتا ہے کہ کلی طور پر مسجد مسمار ہوجاتی ہے۔
اسی لئے آج کے دن یعنی چھ دسمبر کو مسلمان مسجد کی شہادت کے ساتھ ساتھ اس ملک کی صدیوں قدیم مذہبی آہنگی کے ملیامیٹ ہونے کا غم مناتے ہیں، عدلیہ پر اپنے اٹوٹ ایقان کے متزلزل ہونے کا ماتم کرتے ہیں۔
بہر کیف بابری مسجد کو ہم تو بچا نہیں سکے، اس کی دوبارہ تعمیر کے لئے ہم یقیناًجدوجہد اور دعا کرتے رہیں گے۔
ساتھ ہی ساتھ اب ہماری یہ ذمہ داری بھی ہونی چاہئے کہ فی الحال جو مسجدیں ہیں ان کا تحفظ کیا جائے، انہیں آباد و شاداب کیا جائے، ویران ہونے سے اسے محفوظ رکھا جائے، انہیں غیروں کے ساتھ ساتھ اپنوں میں موجود مفاد پرستوں سے بھی بچایا جائے۔
قارئین! مسجدوں کے تحفظ کے لئے یہ ضروری ہے کہ انہیں آباد رکھا جائے، اور آباد رکھنے کا مطلب یہ ہے کہ اسمیں پابندی کے ساتھ نماز پڑھا جائے، یہ اللہ کے گھر ہیں، اسے اللہ ہی کا گھر رہنے دیا جائے۔
کسی مسلک کی ملکیت نہ بنایا جائے، مسلکی جھگڑوں، غفلتوں، نادانیوں اور مفاد پرستیوں کی وجہ سے ہماری مساجد کے جھگڑے پولیس اسٹیشنوں تک پہنچ جاتے ہیں، کبھی کبھی تو پولیس جوتوں سمیت بھی اللہ کے گھر میں داخل ہوجاتی ہے، اگر اس موقع پر اللہ کے گھر کا تقدس پامال ہوتا ہے تو اس کے ذمہ دار ہم ہی ہوں گے۔
اب سوال یہ ہے کہ کیا کسی بھی دن کو بلیک ڈے کہنا کیسا ہے؟ کیونکہ ڈے یعنی دن تو اللہ کی طرف سے عطا کردہ ایک نعمت ہے جس میں ہم اپنی روزی روٹی کماتے ہیں، خدا کی بندگی و پیروی کرتے ہیں، یہ دن تو نعمت ہے، کیا کسی نعمت کو سیاہ کہنا صحیح ہے؟
تو اسکا جواب یہ ہے کہ ہاں ہم کسی ایسے دن کو جس میں ہم سے کسی سخت مصیبتوں کا سامنا ہوا ہو اسے ہم سیاہ دن کہہ سکتے ہیں، اسی لئے 6 دسمبر کو بلیک ڈے یعنی سیاہ دن کہنے میں کوئی حرج نہیں ہونا چاہیے کیونکہ اس دن بابری مسجد کو شہید کیا گیا تھا جو کہ ہر مسلمان کے لیے ایک دل خراش بات ہے، فقط اسی بنیاد پر ہم 6 دسمبر کو black day یعنی سیاہ دن کے نام سے یاد کرسکتے ہیں۔
جیساکہ حضرت مولانا مفتی محمد عبد المصطفیٰ اعظمی علیہ الرحمہ اپنی مشہور زمانہ کتاب “سیرتِ مصطفی” میں تحریر فرمایا ہے کہ ابو طالب کے تین دن یا پانچ دن کے بعد حضرت خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ تعالی عنہا بھی دنیا سے رحلت فرما گئیں۔
جبکہ مکہ میں ابو طالب کے بعد سب سے زیادہ جس ہستی نے رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی نصرت و حمایت میں اپنا تن من دھن سب کچھ قربان کیا تھا وہ حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالی عنہا کی ذات گرامی تھی، جس وقت دنیا میں کوئی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا مخلص مشیر اور غمخوار نہ تھا، اس وقت حضرت بی بی خدیجہ رضی اللہ تعالی عنہا ہی تھیں کہ ہر پریشانی کے موقع پر پوری جاں نثاری کے ساتھ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی غمخواری اور دلداری کرتی رہتی تھیں اس لئے ابو طالب اور حضرت بی بی خدیجہ رضی اللہ عنہا دونوں کی وفات سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے مددگار اور غمخوار دونوں ہی دنیا سے اٹھ گئے جس کا آپ صلّی اللہ علیہ وسلم کے قلب پر اتنا عظیم صدمہ گزرا کہ جس سے آپ نے اس سال کا نام “عام الحزن” ( غم کا سال) رکھ دیا۔
(سیرتِ مص طفی، مکتبۃ المدینہ ص ١٤٣)
اس سے پتہ یہ چلا کہ جس دن مسلمانوں کو شدید تکلیف پہونچے اس کو black day یعنی سیاہ دن جیسے نام سے یاد کر سکتے ہیں۔
بابری مسجد کی ہم کو وہ شہادت یاد ہے،
اس پہ جو ڈھائی گئی وہ بھی قیامت یاد ہے،
مان لیں گے جائے پیدائش وہاں اک شرط پر،
رام کی تجھ کو جو تاریخِ ولادت یاد ہے،
قمرؔ منگلوری۔
متعلم: جرنلزم اینڈ ماس کمیونیکیشن۔
مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی