محمدمدثرحسین اشرفی پورنوی، مہاراشٹر
جو اسلام کا نام سننابھی گوارانہیں کرتے تھے جب انہوں نے رسول کائناتؐ کے اخلاق کریمہ کو دیکھا توسوچنے پرمجبورہوئے کہ اس سے قبل ہم نے ایسابہتراخلاق کاپیکرکبھی نہیں دیکھا، فوراً ان کے دل میں اسلام کی حقانیت نے اپنی جگہ بنالی۔آپؐ کے اخلاقِ حسنہ کورب تبارک وتعالیٰ عظیم فرمارہاہے ’’ بیشک آپ عظیم الشان خْلق کے مالک ہیں‘‘( القلم4-) ۔حضرت ام المؤمنین عائشہ صدیقہ ؓ سے جب کسی نے خْلقِ مصطفویؐ کے بارے میں پوچھا توآپؓ نے مختصراورجامع جواب دیا’’حضورکاخلق قرآن تھا‘‘ یعنی جن محاسن اوصاف اورمکارم اخلاق کواپنانے کاقرآن نے حکم دیاہے حضورؐان سے کمال درجہ متصف تھے اورجن لغوباتوں اورفضول کاموں سے بچنے کی ترغیب دی ہے، حضورؐان سے پوری طرح منزّہ ومبرّاتھے۔کسی اور نے جب یہی سوال کیا توام المؤمنینؓ نے فرمایاسورہ المؤمنون کی پہلی دس آیتیں پڑھ لو ان میں ہی حضورکے خْلق کی صحیح تصویرہے (ضیاء القرآن)۔
حضرت انسؓ فرماتے ہیں کہ میں نے نبی کریمؐ کی دس سال خدمت کی،کبھی مجھے تف نہ فرمایا اورنہ یہ کہ تم نے یہ کیوں کیا اوریہ کہ کیوں نہ کیا۔حضرت زیدبن حارثہ کاواقعہ اعلان نبوت سے قبل کاہے ۔ ان کی عمر آٹھ سال کی تھی جب وہ اپنی والدہ کے ہمراہ اپنے نانیہال جارہے تھے کہ راستہ میں لٹیروں نے انہیں اپنی گرفت میں لے لیا (اس دورمیں بچوں کوچوری کرکے فروخت کیاجاتاتھا) ۔لٹیرے انہیں فروخت کرنے کے لئے بازارمیں لے گئے، حسن اتفاق کہ انہیںام المؤمنین حضرت خدیجہ ؐکے بھتیجے نے خریدا اوراپنی پھوپھی کی خدمت کے لئے مقررکیا۔جب رسول اللّٰہ کی شادی حضرت خدیجہؐ سے ہوئی توام المؤمنین نے حضرت زیدبن حارثہ کوسرکاردوعالمؐ کی خدمت میں پیش کردیا۔ آپؐ نے انہیں آزاد کرتے ہوئے اپنے پاس رہنے یا اپنے والدین کے پاس چلے جانے کا اختیار دیدیا لیکن حضرت زیدؓ نے آپؐ کے پاس رہنے کو ترجیح دی۔ بعد میں جب ان کے والد اور چچا انہیں تلاش کرتے ہوئے مکہ پہنچے اور آپؐ سے اجازت لے کر انہیں اپنے ساتھ لے جانا چاہا توحضرت زیدؓ نے حضورؐ کی صحبت میں رہنے کو ترجیح دی اور اپنے گھر واپس جانے سے انکار کردیا۔
سرکاردوعالمؐ کی بارگاہ میں آنے والاکیساہی سخت مزاج کیوں نہ ہوآپؐ اس اندازسے اس کے ساتھ پیش آتے کہ آنے والے آپؐ کے اخلاق حسنہ سے ضرورمتاثرہوتے۔آج مسلمانوں میں اخلاق کافقدان نظرآرہاہے۔ اگر کسی کے پاس دوپیسے آجائیں توغریبوں کونہ صرف یہ حقارت کی نظرسے دیکھتے ہیں بلکہ ان سے ہم کلام ہونااپنی توہین سمجھتے ہیں۔اگرہم کلام ہوبھی جائیں توبدخْلقی سے پیش آتے ہیں
غورکریں کہ حضرت زیدبن حارثہؓ کورسول اللّٰہ کی بارگاہ کرم سے کیسی محبت ملی، کیساپیارملاکہ انہوں نے اپنے گھرجانے سے صاف انکارکردیا۔یہ اخلاق حسنہ ہی کی برکت ہے کہ پورے عالم میں نوراسلام پھیل گیا۔سرکاردوعالمؐ کی بارگاہ میں آنے والاکیساہی سخت مزاج کیوں نہ ہوآپؐ اس اندازسے اس کے ساتھ پیش آتے کہ آنے والے آپؐ کے اخلاق حسنہ سے ضرورمتاثرہوتے۔آج مسلمانوں میں اخلاق کافقدان نظرآرہاہے۔ اگر کسی کے پاس دوپیسے آجائیں توغریبوں کونہ صرف یہ حقارت کی نظرسے دیکھتے ہیں بلکہ ان سے ہم کلام ہونااپنی توہین سمجھتے ہیں۔اگرہم کلام ہوبھی جائیں توبدخْلقی سے پیش آتے ہیں۔ اس صورت حال میں اس بات کی اشدضرورت ہے کہ حسن اخلاق کوزندگی میں لایاجائے، خندہ پیشانی کامظاہرہ کیاجائے اورعفو ودرگزرکاجذبہ پیداکیاجائے۔ qq