شبہات کے دائرے میں چین!

0

چین ایک پراسرار ملک ہے۔ وہ رشتوں کی پروا کیے بغیر کب کیا قدم اٹھائے گا، یہ کہنا ہمیشہ سے مشکل رہا ہے۔ چین نے بار بار یہ ثابت کیا ہے کہ اس کے لیے اگر کوئی چیز اہم ہے تو وہ ذاتی مفاد ہے۔1962 میں اس نے ہندوستان پر حملہ اس وقت کیا تھا جب ہندوستانی ’ہندی چینی،بھائی بھائی‘ کو سچ مان چکے تھے اور یہ سوچ بھی نہیں سکتے تھے کہ چین دغا دے گا، اس کے بعد بھی اس کے فوجی دراندازی کرتے رہے۔ 2017 میں ڈوکلام کا معاملہ اس وقت سامنے آیا جب ہندوستان اور چین کے رشتے میں ایسی کسی بات کا اندیشہ نہیں تھا۔ 2020 میں وادی گلوان میں چین نے ایک بار پھر اپنی حقیقت اس وقت بتائی جب وہ خود کورونا وائرس سے متاثر تھا اور اس وبا کے دائرۂ اثر میں ہندوستان سمیت دنیا بھر کے ممالک تھے،اس لیے چین سے مذاکرات کے ساتھ جوابی تیاری رکھنا ضروری ہے، کیونکہ چین مسلسل مشتبہ حرکتیں کر رہا ہے۔ ’لائیو منٹ‘ کی رپورٹ کے مطابق، شمالی لداخ سیکٹر کے سامنے والے لائن آف ایکچوئل کنٹرول سے متصل علاقوں میں پیپلز لبریشن آرمی انفرااسٹرکچر کا کام بڑے پیمانے پر کر رہی ہے۔ ان علاقوں میں نئی شاہراہیں بنوائی جا رہی ہیں، انہیں سڑکوں سے جوڑا جا رہا ہے۔ شاہراہوں کو چوڑا کیا جا رہا ہے، رہائش گاہیں بھی بنوائی جا رہی ہیں۔ اس نے ان علاقوں میں میزائل رجمنٹ سمیت ہتھیاروں کی تعیناتی بھی کی ہے۔ یہی نہیں، نئی ہوائی پٹیاں بنائی جا رہی ہیں، چینی فضائیہ اور برّی افواج کے لیے ایسے انفرااسٹرکچر بنائے جا رہے ہیں جو امریکہ یا کسی اور ملک کے سیٹیلائٹ سے پوشیدہ رہیں۔ سوال یہ ہے کہ اتنی تیاری کی اصل وجہ کیا ہے؟ کیا چین کوئی بڑا منصوبہ بنا رہا ہے یا وجہ کچھ اور ہے؟ ہندوستان کی طرف سے بجا طور پر تشویش کا اظہار کیا گیا ہے اور ظاہر ہے، ہندوستان نے تشویش کا اظہار کیا ہے تو حالات سے بے خبر نہیں۔ اس کے باوجود ہندوستان ٹکراؤ سے بچنے کی ہر ممکن کوشش کر رہا ہیتو عالمی حالات کے مدنظر یہ صحیح ہے۔
ہندوستان نے غالباً خیرسگالی کے طور پر ہی 2022 میں ونٹر اولمپکس اور پیرالمپکس کی چینی میزبانی کی حمایت کی ہے۔ یہ بات الگ ہے کہ اسے بھی چین نے عالمی سیاست سے جوڑ دیا ہے، کیونکہ چینی کمیونسٹ پارٹی کے ترجمان ’گلوبل ٹائمز‘ نے لکھا ہے، ’ہندوستان کی حمایت سے پتہ چلتا ہے کہ وہ امریکہ کا فطری اتحادی نہیں ہے۔‘ اس نے یہ بھی لکھا ہے کہ چین سے کئی مسئلوں کی وجہ سے ہی ہندوستان حالیہ برسوں میں امریکہ کے قریب ہوا ہے جبکہ یہ بات سچ نہیں ہے۔ سوویت یونین کے بکھراؤ کے بعد دنیا کے حالات بدلے ہیں، نہ روس اور امریکہ کی پوزیشن 26 دسمبر، 1991 سے پہلے والی ہے اور نہ ہی دنیا کے حالات اس سے پہلے والے ہیں تو دیگر ملکوں کی طرح ہندوستان کا بھی امریکہ اور روس سے ایک ساتھ مستحکم رشتہ رکھنا کوئی حیرت کی بات نہیں مگر ہندوستان کا خوف چین کو ستا رہا ہے، ’کواڈ‘ نے اسے پریشان کر رکھا ہے۔ چین جانتا ہے کہ امریکہ، ہندوستان، جاپان اور آسٹریلیا کے اتحاد کا مطلب کیا ہے۔ وہ ہر اس بات پر توجہ دے رہا ہے جو اسے ہندوستان کے مقابلے مضبوط بنا سکے۔ غالباً اسی لیے چین کا جن دو جگہوںپر تنازع ہے، ان میں وہ بھوٹان کو 495 مربع کلومیٹر کی جگہ دے کر اور خود 269 مربع کلومیٹر کی جگہ لے کر تنازع ختم کرنا چاہتا ہے مگر سوال یہ اٹھتا ہے کہ چین اس فراخ دلی کا مظاہرہ کیوں کر رہا ہے؟ وہ اس فراخ دلی کا مظاہرہ اس لیے کر رہاہے، کیونکہ 269 مربع کلومیٹر کی جگہ ہندوستان، چین، بھوٹان کے ٹرائی جنکشن کے پاس ہے جبکہ دوسری 495 مربع کلومیٹر کی جگہ بھوٹان کے شمال میں جکارلنگ اور پاسم لنگ کی وادیوں میں ہے۔ اس سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے کہ چین کا منصوبہ کیا ہے اور مستقبل کے لیے وہ کیسی تیاری کرکے رکھنا چاہتا ہے۔ دراصل چین ایک ایسا ملک ہے جو صرف اسی بات پر دھیان نہیں دیتا کہ اس کے کسی ملک سے تعلقات کیسے ہیں، وہ اس پر بھی توجہ دیتا ہے کہ عالمی حالات کیا ہیں اور ان حالات میں مفاد کے حصول کے لیے اسے کیا کرنا چاہیے۔ 1962 میں 16 اکتوبر کو کیوبن میزائل کرائسس شروع ہوا تھا، سوویت یونین اور امریکہ کے درمیان ایٹمی جنگ کا خدشہ پیدا ہوگیا تھا اور اس بات کا بھی خدشہ پیدا ہو گیا تھا کہ جنگ کے وسعت اختیار کرنے پر امریکہ اور سوویت یونین کے اتحادی ملکوں کو بھی اس کا حصہ بننا پڑے گا مگر تین دن بعد 20 اکتوبر کو چین نے ہندوستان کے خلاف جنگ چھیڑ دی تھی تاکہ ہندوستانی علاقوں پر قبضے کی دیرینہ خواہش پوری کر سکے مگر کیوبن میزائل کرائسس ختم ہو گیا، چین کی امیدوں پر پانی پھر گیا اور یہ جنگ اس بات کی مثال بن گئی کہ چین کے لیے اہم دوستی نہیں، مفاد کا حصول ہے اور اسی لیے دنیا کے حالات بدلتے ہی اپنا اصل چہرہ دکھانے سے وہ چوکتا نہیں ہے، چنانچہ وطن عزیز ہندوستان کو چین کی ہر متوقع جارحیت کا مقابلہ کرنے کے لیے تیار رہنا چاہیے اور یہ تیاری دنیا کے بدلتے حالات کی مناسبت سے کرنی چاہیے۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS