رشید قدوائی
جو لوگ یہ پیشن گوئی کررہے ہیں کہ کانگریس ختم ہورہی ہے یا اس جانب بڑھ رہی ہے، ان کو یہ معلوم ہونا چاہیے کہ کانگریس آج بھی سرگرمی کے ساتھ زندہ ہے۔ راجستھان، مدھیہ پردیش، چھتیس گڑھ، جھارکھنڈ، مہاراشٹر اور ہریانہ اسمبلی انتخابات کی طرح ہی پنجاب، اتراکھنڈ، گوا اور منی پور کے نتائج یہ اشارہ کرسکتے ہیں کہ رائے دہندگان بی جے پی کو کیسے آگاہ کررہے ہیں۔
کانگریس کے قلعہ میں ترنمول کانگریس کے ذریعہ کی جارہی نقب زنی یا تریپورہ، گوا، آسام اور دیگر مقامات پر اس کی دوراندیشانہ انتخابی کوششوں کے بارے میں بہت کچھ لکھا گیا ہے۔ کانگریس عہدیداروں اور کارکنان کو توڑنے میں مصروف ترنمول کانگریس تریپورہ، گوا، آسام اور دیگر ریاستوں میں بڑی دوراندیشی کے ساتھ انتخابی دوڑ میں شامل ہے۔ یہ بھی تشہیر کی جارہی ہے کہ ان لیڈروں کے جانے سے بڑی اور پرانی سیاسی پارٹی کانگریس کے حوصلہ پر منفی اثر پڑے گا۔ ویسے شمال مشرقی ریاستوں کی سیاست کا کم یا نہ کے برابر ہی نوٹس لیا جاتا ہے۔ زیادہ وقت نہیں گزرا ہے، جنتا دل یونائیٹڈ اور نیشنلسٹ کانگریس پارٹی نے بھی شمال مشرق میں اپنی پکڑ کا مظاہرہ کیا تھا۔ بعد میں بی جے پی نے سکم، منی پور، اروناچل پردیش وغیرہ میں ’آیا رام-گیارام‘ کے فن کو ہی ثابت کرنے دکھایا۔
یہ یاد رکھنا چاہیے کہ ممتابنرجی کی قیادت والی پارٹی کانگریس سے ہی ٹوٹ کر بنی ہے۔ یہ پرنب مکھرجی، سیتارام کیسری اور پی وی نرسمہاراؤ کا ہی کارنامہ تھا، جس نے ممتابنرجی کو کانگریس سے جانے کے لیے مجبور کردیا تھا۔ اس میں نہرو-گاندھی پریوار-راجیو، سونیا، راہل یا پرینکا کا کوئی کردار نہیں تھا۔ دہائیوں سے ممتا کے سونیا کے ساتھ اچھے تعلقات رہے ہیں۔ ممتا کے دفتر اور ان کی رہائش گاہ پر راجیو گاندھی کی تصویر آج بھی نمایاں طور پر آراستہ ہے۔
نظریہ کے معاملہ میں بھی ترنمول کا انتخابی منشور اہم معاشرتی-معاشی ایجنڈے پر کانگریس کے جیسا ہی محسوس ہوتا ہے۔ سال2011 یا مئی 2021میں ان کی جیت کو نہرو گاندھی پریوار اور کانگریس کی بھی حمایت حاصل ہوئی تھی۔ اس پس منظر میں یہ ایک کھلا راز ہے کہ سونیا، راہل اور پرینکا کو ممتا کے آگے بڑھنے پر کوئی اعتراض نہیں ہوگا، جب تک کہ اروند کجریوال جیسے دیگر دوراندیش لیڈروں کو کنٹرول میں رکھا جائے۔کجریوال پہلے دن سے دہلی، پنجاب، اتراکھنڈ، گوا، گجرات وغیرہ میں کانگریس کو نیچا دکھانے کے لیے تیار ہیں، یہاں گوا کو چھوڑ کر باقی سبھی ریاستیںترنمول کے لیے ممنوعہ علاقے ہی رہی ہیں۔
ہمیں یہ ذہن میں رکھنے کی ضرورت ہے کہ ابھی کانگریس اور غیر بی جے پی، غیر این ڈی اے کی کہانی 2024کے لوک سبھا انتخابات سے وابستہ ہے۔ کانگریس اپنے گھر اور سسٹم کو قائم رکھنے اور اپنی قیادت کے ایشو کو حل کرنے کے لیے جدوجہد کررہی ہے۔ اسے کیرالہ، پنجاب، چھتیس گڑھ، مہاراشٹر، راجستھان، مدھیہ پردیش، آسام، کرناٹک، اتراکھنڈ، ہماچل پردیش اور دیگر مقامات سے 100یا اس سے زیادہ لوک سبھا سیٹیں جیتنے کی امید ہے۔ جب کہ ممتابنرجی، شردپوار، اودھوٹھاکرے، لالو-تیجسوی، ایم کے اسٹالن، وی کمارسوامی، چندربابو نائیڈو، اکھلیش یادو اور دیگر کی قیادت والی غیر بی جے پی، غیر این ڈی اے پارٹیوں کو کل پارلیمانی سیٹوں میں سے 150یا اس سے زیادہ سیٹیں جیتنے کی ضرورت پڑے گی۔ اس بڑی تصویر سے سبھی واقف ہیں۔ کانگریس کی اعلیٰ قیادت ترنمول کی 50سے زیادہ لوک سبھا سیٹیں جیتنے کی خواہش کو سمجھتی ہے اور عوام میں اس سے ممتابنرجی کو غیراین ڈی اے، غیرکانگریسی پارٹیوں کے درمیان مساوی درجہ حاصل ہوجائے گا۔ جہاں تک کانگریس اور نہرو-گاندھی پریوار کا سوال ہے تو پارٹی کا اپنے دم پر 100سے زیادہ سیٹیں جیتنے کے بعد وزیراعظم کا عہدہ ایک ہدف بن جائے گا،یہ ایک الگ امکان ہے۔
اگر کانگریس پنجاب ہار جاتی ہے یا اتراکھنڈ میں اقتدار میں واپسی نہیں کرتی، یا گوا، منی پور یا اترپردیش میں کارگر مظاہرہ کرنے میں ناکام رہتی ہے تو یہ کہانی بہت بدل جائے گی۔ وہ منظرنامہ کانگریس میں تقسیم یا کانگریس سے ہجرت کی وجہ بن سکتا ہے۔ حال میں کانگریس کے جن لیڈروں کی وفادادی غیرمشتبہ رہی ہے، وہ بھی اب صبر کا دامن چھوڑتے نظر آرہے ہیں، جس سے اختلافات اور کاہلی پنپ رہی ہے۔ کانگریس نے پنجاب اور راجستھان میں اسی طرح کا بحران جھیلا ہے۔ کچھ ورچوئل اِن ہاؤس میٹنگوں میں بات اس حد تک پہنچی، جب پارٹی لیڈران نے ایک دوسرے کے خلاف نازیبا الفاظ استعمال کیے، یہاں تک کہ سونیا گاندھی نے بھی اسے روکھے پن سے دیکھا ہے۔
اٹھارہویں لوک سبھا میں 100سے زیادہ اعداد و شمار کے ساتھ موضوع بحث رہنے کے لیے کانگریس پر ’کچھ‘ کرنے کے لیے اندر اور باہر سے بہت دباؤ ہے۔ راہل گاندھی کی پارٹی سربراہ کے طور پر واپسی کی عدم خواہش حالات کو اور عجیب بنارہی ہے۔ پارٹی 2024کے پارلیمانی انتخابات کو متضاد انداز میں لڑنے کے لیے تیار ہے۔ جہاں ٹیم مودی وزیراعظم کی ذاتی ریٹنگ، بڑے ترقیاتی منصوبوں، کووڈ-19مینجمنٹ کے ساتھ ہی بڑی ٹیکہ کاری مہم، سفارتی محاذ پر کامیابی و رام مندر جیسے جذباتی ایشو کے استعمال کے لیے تیار ہے، وہیں کانگریس اور اس کے اہل اتحادی ریاستوں میں ان سایہ برداروں سے مقابل ہیں، الیکشن میں جن کے دبدبے کی امید ہے۔ اسی لیے اگر ممتابنرجی، تیجسوی یادو، اودھوٹھاکرے، شردپوار، ایم کے اسٹالن، نوین پٹنائک، وی کمارسوامی، چندربابونائیڈو، اکھلیش یادو پارلیمانی سیٹوں کی ایک بڑی تعداد پر قبضہ میں کامیاب ہوتے ہیں تو کانگریس کو راجستھان، ہریانہ، پنجاب، جھارکھنڈ، مدھیہ پردیش، چھتیس گڑھ، کرناٹک، ہماچل پردیش، اتراکھنڈ، آسام اور دیگر شمال مشرقی ریاستوں، گجرات اور مہاراشٹر کے کچھ حصوں میں بہتر مظاہرہ کرنا ہوگا، جہاں اس کا راست مقابلہ بی جے پی سے ہے۔
کانگریس نے بائیں بازو سمیت غیر این ڈی اے پارٹیوں کے ساتھ بھی بات چیت جاری رکھی ہے، تاکہ مختلف ریاستوں میں عظیم اتحاد قائم رہے۔ ایسے عظیم اتحاد کے لیے ضرورت پڑنے پر سونیاگاندھی کو آگے لایا جاسکتا ہے۔بہرحال، اگلے کچھ ماہ نہ صرف کانگریس کے لیے بلکہ پورے غیربی جے پی، غیر این ڈی اے اپوزیشن کے لیے اہم ہیں۔ اپنے گھر کو منظم رکھنے، قیادت کے ایشو کو حل کرنے، پنجاب میں اقتدار برقرار رکھنے اور اتراکھنڈ جیتنے کی کانگریس کی صلاحیت 2024میں ’آدھی سے آدھی‘ سیٹیں یعنی 136سے زیادہ سیٹوں کے ساتھ اپنا رول ادا کرسکتی ہے۔ کانگریس کے بغیر شردپوار، ممتا، اسٹالن اور دیگر کو متحد کرنے کی کوشش قومی سیاست میں بے سود اور بے معنی ہی رہے گی۔
(مضمون نگار سینئر صحافی اور مصنف ہیں)
(بشکریہ: ہندوستان)