جینتی لال بھنڈاری
ٹیکس کے لحاظ سے جنت سمجھے جانے والے ممالک میں بلیک منی جمع کرنے کا سلسلہ مسلسل بڑھتا جارہا ہے۔ حالاں کہ بلیک منی پر قابو پانے کے لیے پوری دنیا میں عالمی مالیاتی تنظیمیں اور حکومتیں کام بھی کررہی ہیں، سخت قوانین بنائے جارہے ہیں، اس ایشو پر تعاون کے لیے ممالک کے درمیان معاہدے ہورہے ہیں، لیکن مسئلہ کم ہونے کے بجائے بڑھتا جارہا ہے۔ گزشتہ دنوں گروپ(جی)-20کے سربراہ اجلاس میں ممبرممالک کے درمیان کم سے کم عالمی کارپوریٹ ٹیکس 15فیصد کیے جانے پر متفق ہونا ٹیکس چوری کے لیے دوست ممالک میں کالے دھن کے بڑھنے پر لگام لگانے کا اہم طریقہ بن سکتا ہے۔ سبھی ممالک میں ٹیکس کی کم سے کم شرح ایک جیسی یقینی ہوجانے سے ملٹی نیشنل کمپنیاں ایک ملک کو چھوڑ کر کم یا صفر ٹیکس شرح والے ممالک میں اپنا کاروبار اور اپنی آمدنی کو نہیں لے جاپائیں گی۔ اس سے کالے دھن پر بڑا کنٹرول ہوسکے گا۔
اس سال اکتوبر میں دنیا میں کالے دھن کے خلاصے کا سب سے بڑا معاملہ پینڈورا پیپرس لیک کے طور پر سامنے آیا۔ اس میں پوری دنیا کے بااثر لوگوں کے مالی لین دین کے تعلق سے بڑے انکشاف ہوئے۔ انٹرنیشنل کنسورٹیم آف انویسٹیگیٹو جرنلسٹ(آئی سی آئی جے) نے گہری تحقیقات کے بعد پینڈورا پیپرس رپورٹ تیار کی تھی۔ یہ رپورٹ تقریباً ایک کروڑ 20لاکھ دستاویزات کی تحقیق ہے، جسے 117ممالک کے 600تحقیقاتی صحافیوں کی مدد سے بنایا گیا ہے۔ اس تحقیق میں پایا گیا کہ ہندوستان سمیت دنیا کے 200سے زیادہ ممالک کے بڑے لیڈروں، دولت مندوں اور مشہور ہستیوں نے پیسہ بچانے اور اپنے کالے دھن کی خفیہ سرمایہ کاری کے لیے کس طرح برٹش ورجن آئی لینڈ، سیشیلس، ہانگ کانگ اور بلیز وغیرہ میں پیسہ رکھا ہے۔ اس رپورٹ میں 300سے زیادہ ہندوستانیوں کے نام بھی شامل ہیں۔
ایسے میں پینڈورا پیپرس کے تعلق سے ملٹی ایجنسی گروپ(ایم اے جی) نے اپنی مسلسل میٹنگیں منعقد کرکے جانچ شروع کردی ہے۔ اس ملٹی ایجنسی گروپ میں سینٹرل بورڈ آف ڈائریکٹ ٹیکسز(سی بی ڈی ٹی) کے چیف کی صدارت میں انفورسمنٹ ڈائریکٹوریٹ (ای ڈی)، ریزرو بینک اور فائنانشیل انٹلیجنس یونٹ کے افسران شامل ہیں۔ غور طلب ہے کہ 2017میں پیراڈائز پیپرس کے تحت ایک کروڑ 34لاکھ سے زیادہ خفیہ الیکٹرانک دستاویزات کے ذریعہ سے 70لاکھ قرض کے معاہدے، مالی تفصیلات، ای-میل اور ٹرسٹ ڈیڈ کا انکشاف کیا گیا تھا۔ ان میں 714ہندوستانیوں کے نام بھی ظاہر کیے گئے تھے۔ اس کے پہلے سال 2016میں پناما پیپرس کے تحت ایک کروڑ 15 لاکھ حساس مالی دستاویز سامنے آئے تھے، جن میں عالمی کارپوریٹوں کے منی لانڈرنگ سے متعلق ریکارڈ تھے۔ تب 500ہندوستانیوں کے ناموں کا انکشاف ہوا تھا۔
ٹیکس کی چوری اور بلیک منی کی لانڈرنگ سے منسلک معاملے بتاتے ہیں کہ کیسے دنیا کے کچھ سب سے زیادہ طاقتور لوگ اپنی املاک چھپانے کے لیے ایسے چھوٹے ممالک میں فرضی کمپنیوں کا استعمال کرتے ہیں۔ ٹیکس ہیون ملک ان ممالک کو کہا جاتا ہے جہاں نقلی کمپنیاں بنانا آسان ہوتا ہے اور بہت کم ٹیکس یا صفر ٹیکس لگتا ہے۔ ان ممالک میں ایسے قوانین ہوتے ہیں، جس سے کمپنی کے مالک کی پہچان کا پتا لگا پانا مشکل ہوتا ہے۔ بلیک منی وہ رقم ہوتی ہے، جس پر ٹیکس ڈپارٹمنٹ کی دین داری ہوتی ہے، لیکن اس کی معلومات حکومت کو نہیں دی جاتی ہے۔ بلیک منی کے ذرائع قانونی اور غیرقانونی کوئی بھی ہوسکتا ہے۔ مجرمانہ سرگرمیاں جیسے اغوا، اسمگلنگ یا جعلسازی وغیرہ کے ذریعہ سے حاصل کی گئی رقم بھی بلیک منی کہلاتی ہے۔ منشیات کے کاروبار، غیرقانونی ہتھیاروں کا کاروبار، جبراً وصولی، زرتاوان اور سائبر کرائم سے کمایا گیا پیسہ بھی ان نقلی کمپنیوں میں محفوظ کردیا جاتا ہے تاکہ یہ بلیک منی اپنے ملک میں وہائٹ منی میں تبدیل ہوجائے۔
آکسفیم انڈیا کی رپورٹ کے مطابق ٹیکس کی چوری کے لیے مفید ممالک میں پیسہ رکھنے سے دنیا میں حکومتوں کو ہر سال 427ارب ڈالر کے ٹیکس کا نقصان ہوتا ہے۔ سب سے زیادہ اثر ترقی پذیر ممالک پر ہوتا ہے۔ ترقی پذیر ممالک سے بے ایمانی کا پیسہ باہر جانے کی رفتار میں اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ اس کا راست اثر معیشت اور ترقی پر دیکھنے کو ملتا ہے۔ غیرممالک میں خفیہ طور پر رقم چھپا کر رکھے جانے کا راست اثر عام آدمی کی فلاح پر بھی پڑتا ہے۔
ہندوستان میں بلیک منی سے متعلق بحث دہائیوں پرانی ہے۔ غیرملکی بینکوں میں ہندوستانیوں کی بلیک منی سے متعلق سرکاری اعداد و شمار دستیاب نہیں ہیں۔ لیکن ماہرین معاشیات کے مطابق یہ تقریباً 73لاکھ کروڑ روپے ہوسکتا ہے۔ سوئس نیشنل بینک کی ایک رپورٹ کے مطابق 2020تک سوئس بینکوں میں ہندوستانی شہریوں اور کمپنیوں کی جمع رقم 20ہزار700کروڑ روپے سے زیادہ تھی۔ نیشنل کاؤنسل آف اپلائڈ اکنامک ریسرچ کے مطابق سال1980سے 2010کے درمیان ہندوستان کے باہر جمع ہونے والی بلیک منی 384ارب ڈالر سے لے کر 490ارب ڈالر کے درمیان تھا۔
اس میں کوئی دو رائے نہیں ہے کہ ملک میں بھی بلیک منی سے نمٹنے کے لیے اب سے پہلے انکم ڈکلیئریشن اسکیم، والینٹری ڈکلیئریشن اسکیم، ٹیکس کی شرح کم کرنے، 1991کے بعد کاروبار پر کنٹرول ہٹانے، ٹیکس قوانین میں تبدیلی جیسے کئی قدم اٹھائے گئے۔ حالیہ برسو ںمیں ایسے قانون بنائے گئے ہیں جو ٹیکس افسران کو یہ یقینی بنانے کی اجازت دیتے ہیں کہ ٹیکس دہندگان ٹیکس چوری نہیں کریں۔ اس میں ’اپنے صارفین کو جانئے‘(کے وائی سی) کا سسٹم منسلک کیا گیا جس میں کسی خاص علاقہ میں لین دین کرنے والوں کو اپنی پوری پہچان بتانی ہوتی ہے، تاکہ دیگر کام کے شعبوں کے ساتھ اس اطلاع کو شیئر کیا جاسکے۔ لیکن پھر بھی بلیک منی میں اضافہ اور ملک سے بلیک منی غیرممالک بھیجے جانے کے سلسلہ میں کمی نہیں آئی ہے۔ غیرملکی بینکوں میں جمع بلیک منی کے اکاؤنٹ ہولڈرس کی محض فہرست ملنے کی خبر کو بڑی کامیابی کے طور پر نہیں دیکھا جاسکتا ہے۔ کامیابی تبھی سمجھی جائے گی جب غیرممالک میں جمع زیادہ تر بلیک منی سرکاری اکاؤنٹس میں واپس آجائے گی۔
جس طرح سے پناما پیپرس اور پیراڈائز پیپرس کے انکشافات ہونے پر مرکزی حکومت نے ملک کی مشہور ہستیوں کے غیرممالک میں خفیہ مالیاتی اثاثوں کا انکشاف کرنے کے لیے ملٹی ایجنسی جانچ کرانے کے احکامات دیے تھے، اب اس مرتبہ بھی پینڈورا پیپرس کی بھی ملٹی ایجنسی جانچ یقینی بنائی گئی ہے۔ لیکن اب پینڈورا پیپرس لیک معاملہ میں جانچ کا کام پرانے اور عام پیٹرن والا نہیں رہنا چاہیے۔ چوں کہ یہ معاملات بااثر طبقہ سے تعلق رکھتے ہیں، اس لیے جانچ سے متعلق کارروائی سخت ہونی چاہیے۔ غیرملکوں میں سرمایہ کاری سے متعلق معیار کو توڑنے والوں کے لیے سخت قوانین بنائے جانے کی ضرورت ہے۔
بلیک منی کا مسئلہ راست طور پر بدعنوانی سے منسلک ہے۔ ظاہر ہے، جب تک بدعنوانی پر لگام نہیں لگے گی، بلیک منی کے مسئلہ سے نمٹ پانا ممکن نہیں ہے۔ ہندوستان 2020کے ٹرانس پیرنسی انٹرنیشنل کے بدعنوانی انڈیکس میں 86ویں مقام پر رہا۔ یقینی طور پر ابھی بدعنوانی بلیک منی اور غیرملکی بینکوں میں چوری سے پیسہ جمع کیے جانے پر کنٹرول کے لیے میلوں چلنا ضروری ہے۔ چوں کہ ہندوستان میں بدعنوانی اور بلیک منی کے کنٹرول کا سب سے بڑا چیلنج سیاسی فنڈنگ سے ہے، اس لیے سیاسی پارٹیوں کی فنڈنگ میں بلیک منی کے استعمال کو روکنے کے لیے سخت اقدامات اٹھانے ہوں گے۔ اب بدعنوانی پر کنٹرول کے لیے نوکرشاہی میں اصلاح، بدعنوانی مخالف قوانین پر عمل آوری میں سختی، عدالتوں میں فوری تصفیہ، انتظامی معاملات میں شفافیت سمیت بدعنوانی دور کرنے اور بلیک منی پر کنٹرول کے مختلف ٹھوس اقدامات کی ڈگر پر آگے بڑھنا ہوگا۔ امید کی جانی چاہیے کہ گروپ(جی)-20سربراہ اجلاس میں جو فیصلے کیے گئے ان سے کچھ تو بلیک منی کے بہاؤ میں کمی آئے گی۔
(بشکریہ: جن ستّا)