بہت دیر کی مہرباں آتے آتے۔۔۔!

0

عباس دھالیوال

گزشتہ تقریباً ایک سال سے کسان جن تین زرعی قوانین پر دہلی کی سرحدوں پر احتجاج کر رہے تھے، انہیں وزیر اعظم نریندر مودی نے پارلیمنٹ کے سرمائی اجلاس میں رد کرنے کا اعلان کر دیا ہے۔ وزیر اعظم کے اعلان کو ملک کے عام لوگ خوش آئند قرار دے رہے ہیں ، کسانوں نے اس کا خیر مقدم کیا ہے تو ان میں تذبذب بھی برقرار ہے۔ کسانوں کی تنظیم نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ جب تک قوانین کو پارلیمنٹ میں باقاعدہ منسوخ نہیں کیا جائے گا، ایم ایس پی پر ٹھوس قانون نہیں بنایا جائے گا، احتجاج جاری رہے گا جبکہ اس سے قبل زرعی قوانین پر کسانوں کایہ موقف رہا ہے کہ مرکزی حکومت کی جانب سے زرعی اصلاحات کے نام پر متعارف کروائے جانے والے ان قوانین کی منظوری کے بعد زراعت کے شعبے میں نجی سیکٹر کے افراد اور کمپنیوں کے داخلے کا راستہ کھل جائے گا جس سے ان کی آمدنی متاثر ہو گی، حالانکہ احتجاج کے دوران مرکزی حکومت اور کسانوں کے درمیان بات چیت کا سلسلہ بھی جاری رہا لیکن مذاکرات میں کوئی خاص پیش رفت نہیں ہو سکی تھی۔ حکومت کا یہی کہنا تھا کہ ان قوانین سے زراعت کا شعبہ ترقی کرے گا۔
اب جبکہ وزیر اعظم نریندر مودی کی جانب سے زرعی اصلاحات کے قوانین کو منسوخ کرنے کا اعلان کر دیا گیا ہے تو کسان تنظیمیں اسے ایک بڑی فتح کے طور پر دیکھ رہی ہیں لیکن کچھ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ حکومت کے اس فیصلے کی اصل وجہ پنجاب اور اترپردیش میں ہونے والے انتخابات ہیں۔ ان دونوں ریاستوں میں کسانوں کی بڑی تعداد ہے جو ان قوانین سے خوش نہیں ہے۔ گزشتہ سال جب یہ متنازع زرعی قوانین متعارف کروائے گئے تھے تو زراعت کے شعبے میں نجی سرمایہ کاری کے داخل ہونے کا امکان بڑھ گیا تھا۔ ان قوانین میں پہلے تو فارمرس پروڈیوس ٹریڈ اینڈ کامرس (پروموشن اینڈ فیسی لیٹیشن) ایکٹ، 2020کے مطابق کسان اے پی ایم سی یعنی ایگری کلچر پروڈیوس مارکیٹ کمیٹی کے ذریعہ مطلع شدہ منڈیوں کے باہر اپنی پیداوار دوسری ریاستوں کو ٹیکس ادا کیے بغیر فروخت کر سکتے تھے جبکہ دوسرے قانون فارمرس (اِمپاورمنٹ اینڈ پروڈکشن) اگریمنٹ آن پرائس ایشورنس اینڈ فارم سروسز ایکٹ، 2020 کے مطابق کسان کانٹریکٹ فارمنگ یعنی معاہدہ کاشتکاری کر سکتے ہیں اور براہ راست اس کی مارکیٹنگ بھی کر سکتے ہیں۔ تیسرے قانون اِسینشیل کموڈیٹیز (ایمنڈمنٹ) ایکٹ، 2020 کے تحت پیداوار، ذخیرہ اندوزی، اناج، دال، کھانے کے تیل اور پیاز کو غیر معمولی حالات میں فروخت کے علاوہ کنٹرول سے باہر کر دیا گیا ہے۔ اس سے قبل حکومت کا یہی موقف تھا کہ نئے قانون کی مدد سے کسانوں کو مزید متبادل ملیں گے اور ان کو قیمت بھی اچھی ملے گی۔ اس کے علاوہ زرعی منڈیوں، پروسیسنگ اور بنیادی ڈھانچے میں نجی سرمایہ کاری کی حوصلہ افزائی کی جائے گی لیکن اس کے بر عکس کسانوں کا موقف یہ تھا کہ نئے قانون سے ان کا موجودہ تحفظ بھی ختم ہو جائے گا۔
وزیر اعظم نریندر مودی نے تین متنازع زرعی قوانین کو منسوخ کرتے ہوئے اپنے خطاب میں کہا کہ زرعی اصلاحات کا دیرینہ مطالبہ پورا کرنے اور کسانوں کی فلاح و بہبود کے لیے وہ نیک نیتی کے ساتھ یہ تینوں زرعی قوانین لائے تھے لیکن کسانوں کے ایک طبقے نے اس کی مخالفت کی اور یہ ہمارے عزم کی کمی تھی کہ ہم ان کسانوں کو ان قوانین کے فوائد کے بارے میں قائل نہیں کرسکے۔ وزیر اعظم مودی نے کہا کہ ان تینوں قوانین کو منسوخ کرنے کا عمل پارلیمنٹ کے سرمائی اجلاس میں پورا کیا جائے گا۔ اس کے ساتھ ہی وزیر اعظم نے کم از کم امدادی قیمت (ایم ایس پی) اور زیرو بجٹ فارمنگ کی سفارش کرنے کے لیے ایک کثیر جہتی کمیٹی کے قیام کا بھی اعلان کیاہے اور کسانوں سے اپیل کی ہے کہ وہ احتجاج چھوڑ کر اپنے اپنے گھروں کو واپس چلے جائیں۔ قابل ذکر ہے کہ احتجاج کے دوران 700 سے زیادہ کسانوں کی موت ہو چکی ہے۔ گزشتہ ایک سال میں بی جے پی کے کئی لیڈروں اور وزراکی طرف سے کسانوں کو غدار وطن، ملک دشمن، خالصتانی، دہشت گرد، دشمنوں کا آلہ کار، شرپسند اور پتہ نہیں کن کن خطابات سے نوازا گیا ہے۔
سیاسی ماہرین کے مطابق تو تینوں قوانین کی تنسیخ کے اعلان کے پیچھے دراصل کئی سیاسی وجوہات کارفرماں ہیں جن میں بڑی وجہ اترپردیش، اتراکھنڈ اور پنجاب میں آنے والے سال میں ہونے والے اسمبلی انتخابات ہیں۔ زرعی قوانین واپس لینے کے اعلان کے ساتھ ہی حزب اختلاف کے مختلف لیڈروں کے بیانات سامنے آنے لگے ہیں۔ کانگریس صدر سونیا گاندھی نے اسے کسانوں کی جیت قرار دیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ 700 سے زائد کسان پریواروں جن کے ممبران نے انصاف کے لیے اس جدوجہد میں اپنی جانیں قربان کیں۔ آج سچ، انصاف اور آہنسا کی جیت ہوئی ہے۔سونیا گاندھی نے کہا کہ جمہوریت میں کوئی بھی فیصلہ ہر حصے دار اور حزب مخالف پارٹی کے ساتھ صلاح مشورے کے بعد لیا جانا چاہیے۔ مجھے امید ہے کہ مودی سرکار نے مستقبل کے لیے کم از کم کوئی سبق لیا ہوگا۔ انہوں نے مزید کہا کہ حکومت میں بیٹھے لوگوں کی طرف سے کسان مزدور مخالف سازش آج ناکام ہو گئی ہے اور تانا شاہ حاکموں کے غرور کی ہار ہوئی ہے جبکہ اس سلسلے میں اسدالدین اویسی کا کہنا ہے کہ زرعی قوانین پہلے پہل سے ہی غیر قانونی تھے، سرکار کے غرور کی وجہ سے کسانوں کو سڑکوں پر اترنا پڑا۔ اگر سرکار طفلانہ ضد نہ پکڑتی تو 700سے زائد کسانوں کی جان نہ جاتی۔ مغربی بنگال کی وزیر اعلیٰ ممتا بنرجی نے کہا کہ ہر ایک کسان کو جس نے سنگھرش کیا، میری طرف سے مبارک باد۔ یہ آپ کی جیت ہے۔ اس لڑائی میں اپنے فیملی ممبران کو کھونے والے سبھی لوگوں کے ساتھ میری ہمدردیاں ہیں۔ کانگریس لیڈر راہل گاندھی کا کہنا ہے کہ دیش کے اَن داتا نے ستیہ گرہ سے غرور کا سر جھکا دیا۔ بے انصافی کے خلاف یہ جیت مبارک ہو۔ ادھر گورنر ستیہ پال ملک کا کہنا ہے کہ میری طرف سے کسانوں کو مبارک باد، کیوں کہ انہوں نے بہت شانتی کے ساتھ اس آندولن کو چلا تے ہوئے ایک تاریخ رقم کی ہے اور ان زرعی قوانین کو منسوخ کرکے وزیر اعظم نے اپنی اعلیٰ ظرفی ظاہر کی ہے۔ملک نے یہ بھی کہا کہ ’دیر آید درست آید،‘جبکہ کسانوں کے رہنما راکیش ٹکیت کا کہنا ہے کہ آندولن تب تک واپس نہیں ہوگا جب تک زرعی قوانین کو پارلیمنٹ میں رد نہیں کیا جائے گا۔ سرکار ایم ایس پی کے ساتھ ساتھ کسانوں کے دوسرے ایشوز پر بھی بات چیت کرے۔ کسان رہنما جوگندر سنگھ اگراہاں اور کسان رہنما بلبیر سنگھ راجیوال کا کہنا ہے کہ وزیراعظم کا اعلان دیر بعد لیا گیا ایک درست فیصلہ ہے لیکن سرکار نے اگر ضدچھوڑ کر پہلے ہی یہ قوانین واپس لے لیے ہوتے تو بہت سے کسانوں کی جانیں بچائی جا سکتی تھیں،جبکہ قانون کے ماہرین کا کہنا ہے کہ زرعی قوانین کو پارلیمنٹ میں ہی منسوخ کیا جا سکتا ہے۔ سابقہ مرکزی قانونی سکریٹری پی کے ملہوترہ کا کہنا ہے کہ قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے قانون بنانے کی طرح ان کو منسوخ کرنے کے لیے بھی پارلیمنٹ کے پاس طاقت ہے۔tlq
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS