وزیراعظم نے رکھا مان، کسان دیش کا ابھیمان

0

تقریباً ایک سال تک چلی کسان تحریک کا ’مان‘ رکھتے ہوئے مرکزی حکومت نے آخرکار نئے زرعی قوانین واپس لے لیے۔ گزشتہ جمعہ کو وزیراعظم نریندر مودی نے قوم کے نام خطاب میں جلد ہی ان قوانین کو رد کرنے کا آئینی عمل شروع کرنے کا اعلان کیا۔ چوں کہ پارلیمنٹ سے پاس کسی قانون کی واپسی کے لیے بھی پارلیمنٹ میں ہی قانون پاس کروانا ہوتا ہے، اس لیے 29نومبر سے شروع ہورہے پارلیمنٹ کے سرمائی اجلاس میں قانون واپسی کے عمل کو انجام دیا جاسکتا ہے۔
قانون واپسی کے اعلان کے ساتھ ہی جیت کا کریڈٹ اور ہار کے الزام کی ’روایت‘ کا سلسلہ بھی شروع ہوگیا۔ تقریباً ایک سال تک کسانوں نے جس مضبوطی و استقامت کے ساتھ اس تحریک کو غیرسیاسی رکھنے کا اپنا عزم نبھایا، اس میں ملک کی سیاسی جماعتوں نے اس فیصلہ کے آتے ہی دراندازی کرلی۔ اپوزیشن نے اسے پانچ ریاستوں بالخصوص اترپردیش میں ہونے جارہے اسمبلی انتخابات میں حکومت کو سیاسی نقصان کے ڈر سے جوڑتے ہوئے کسانوں کی جیت اور حکومت کے تکبر کی ہار بتایا۔ گزشتہ سات سال کی طرح اس مرتبہ بھی لفظی حملوں کے تیر وزیراعظم کو ہی ہدف بناکر چھوڑے گئے۔ یہ بھی دلچسپ ہے کہ اس فیصلہ کو جمہوریت کی فتح قرار دینے والا اپوزیشن اس موقع پر یہ بھی بھول گیا کہ جمہوریت میں لیے گئے فیصلے اجتماعی ہوتے ہیں اور اس لیے اس کے لیے کوئی ایک شخص نہیں، بلکہ پوری کابینہ مجموعی طور پر ذمہ دار ہوتی ہے۔
بہرحال، اپوزیشن کے چھوڑے تیروں کے جواب میں حکومت اور بی جے پی بھی وزیراعظم کے وقار کے بچاؤ میں آگے آئی۔ وزیراعظم کے خطاب کو ہی بنیاد بناتے ہوئے ان کی کابینہ کے ساتھیوں اور بی جے پی نے گرونانک دیو کے پرکاش پرو پر آئے اس فیصلہ کو ہم آہنگی کی روشنی پھیلانے والا ایسا فیصلہ بتایا جس نے وزیراعظم کی سیاسی لیڈر والی شبیہ کو مزید پختہ کیا ہے۔ دلیل یہ دی گئی کہ اس تاریخی پہل کو ہارجیت کے چشمے سے نہیں، بلکہ ملک اور کسانوں کے مفاد کے نظریہ سے دیکھے جانے کی ضرورت ہے۔
قانون واپسی کا اعلان کرتے ہوئے وزیراعظم نے کہا کہ شاید کسانوں کے مفاد میں کی جارہی ان کی ’تپسیا‘ میں کچھ کمی رہ گئی جس کے سبب وہ کچھ کسان بھائیوں کو سمجھا نہیں پائے۔ واضح طور پر دیکھا جائے تو حکومت جو تین زرعی قوانین لائی تھی، ان کے ذریعہ منڈیوں کے ساتھ ہی پرائیویٹ کمپنیوں کو بھی کسانوں کے ساتھ کانٹریکٹ فارمنگ، اناج کی خریداری، ذخیرہ اور فروخت کرنے کا حق ملنے والا تھا۔ قوانین کے ذریعہ حکومت کسانوں کو اپنی فصل اپنی مرضی سے، اپنی پسند کے بازار میں فروخت کرنے کا حق دینا چاہتی تھی، لیکن کسانو ںکو اس بات کا ڈر تھا کہ نئے قانون انہیں بازار کی منمانی کا شکار بنادیں گے۔ سب سے زیادہ خدشہ اس ایم ایس پی کے ختم ہوجانے کے تعلق سے تھا، جس کا پورے قانون میں کہیں کوئی ذکر نہیں تھا۔ کسانوں کے خدشات دور کرنے کے لیے حکومت کی جانب سے وزیرداخلہ اور وزیر زراعت کی سطح کے 12مذاکرات کیے گئے، لیکن تمام کوششوں کے باجود کسان قانون واپسی کے اپنے مطالبہ پر بضد رہے۔ ایک وقت ایسا بھی آیا کہ خود وزیراعظم نے ان قوانین کو دو سال تک ٹالنے کی پیشکش کی۔ پھر معاملہ سپریم کورٹ بھی پہنچا لیکن تعطل قائم رہا۔
آخرکار کسانوں کی منشا کو سمجھتے ہوئے وزیراعظم نے قوم کے مفاد کو اوپر رکھنا مناسب سمجھا اور ایک ایسا فیصلہ لیا جس میں نہ ان کا ذاتی اور نہ ہی پارٹی کا کوئی مفاد آڑے آیا۔ اس حقیقت کو بھی کیسے نظرانداز کیا جاسکتا ہے کہ وزیراعظم نے یہ فیصلہ ایسے وقت میں لیا ہے جب پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں اور ملک کی کئی ریاستوں میں ان کی حکومت اکثریت میں ہے۔ یعنی حکومت پر اپنے ہی بنائے اور کئی پارٹیوں کی حمایت سے پاس ہوئے قانون کو واپس لینے کا کسی طرح کا کوئی آئینی دباؤ نہیں تھا۔ اس کے باوجود ایسا فیصلہ کرنا جمہوری اقدار کے لیے ان کے ضمیر میں یقین کامل اور ملک کے اتحاد و سالمیت کے تحفظ کو سب سے اوپر ماننے کا ہی ثبوت ہے۔
بات کسانوں کی ہی کریں تو آزاد ہندوستان میں ممکنہ کسانوں کے مفاد میں کسی حکومت نے اتنے کام نہیں کیے ہوںگے، جتنے اس حکومت کی دونوں مدت کارمیں ہوئے ہیں۔ جس طرح حکومت نے سب کا ساتھ، سب کا وکاس اور سب کا وشواس کے اپنے قول کو عملی جامہ پہناتے ہوئے معاشرہ کے سبھی طبقوں تک پہنچنے کی کوششیں کی ہیں، اسی طرح کسانوںکے بھی ہر طبقہ کی فلاح کے منصوبوں کو عملی شکل دی ہے۔
بوائی سے قبل اور کٹائی کے بعد تک قدرتی آفات سے فصلوں کے نقصان کی تلافی کے لیے پردھان منتری فصل بیمہ یوجنا، بزرگ کسانوں کے لیے پنشن والی پردھان منتری کسان مان دھن یوجنا، سبھی کسانوں کو سالانہ 6ہزار روپے کی معاشی مدد والی پردھان منتری کسان سمّان ندھی یوجنا، کسانوں کو کھیتی میں سینچائی کے لیے سولر پمپ مہیا کروانے والی کسان اورجا سرکشا اور اتتھان مہاابھیان یعنی KUSUM اسکیم، فصل کے دائرہ میں کسانوں کے لیے زرعی کام کو آسان بنانے والے بیج سے بازار یوجنا، تین لاکھ تک کا قرض لینے کے پروسیس میں کوئی فیس نہیں، چھوٹے کسانوں کی سہولت کے لیے جدید زرعی مشینری کو کرایہ پر منگوانے کے لیے موبائل ایپ، غیریوریا کھادوں کی سبسڈی میں اضافہ اور ڈائریکٹ بینیفٹ ٹرانسفر کے تحت کسانوں کے کھاتوں میں70 ہزار کروڑ کی کھاد سبسڈی دی گئی ہے۔ اس کے ساتھ ہی حکومت نے کھیتی کو فائدہ کا کاروبار بنانے کے لیے ہر کھیت میں 24گھنٹے بجلی پہنچانے، سال 2030تک 2.6کروڑ ہیکٹیئر بنجر زمین کو کھیتی کے لائق بنانے، کھیتی کو منافع کا کاروبار بنانے کے لیے آرٹی فیشیل انٹلیجنس تکنیک کا استعمال جیسے اہداف بھی طے کیے ہیں۔
جس سرکاری خریداری اور ایم ایس پی کے تعلق سے تحریک چلارہے کسانوں کو خدشہ لاحق ہے، اس میں بھی اس حکومت کی مدت کار میں مسلسل اضافہ ہوا ہے۔ لوک سبھا میں مہیا کرائی گئی معلومات کے مطابق 2013-14 کے مقابلہ میں 2019-20میں گیہوں خرید 87فیصد اور دھان کی خریداری میں دوگنا اضافہ رہا ہے۔ 2020-21میں دھان اور گیہوں کا ایم ایس پی بھی 2013-14کے مقابلہ بالترتیب 42اور 41فیصد تک بڑھا ہے۔
آخر میں ایک اور اہم حقیقت کا ذکر بھی ضروری ہے کیوں کہ اس کے بغیر ملک میں کھیتی-کسانی کی ہر بات ادھوری ہے۔ زراعت آج بھی ہمارے 70فیصد سے زیادہ دیہی کنبوں کے معاش کا اہم ذریعہ ہے۔ ان میں 80فیصد سے زیادہ وہ چھوٹے اور معمولی کسان ہیں، جن کے لیے وزیراعظم کے مطابق نئے زرعی قوانین گیم چینجر ثابت ہوسکتے تھے۔ زرعی قوانین کی واپسی کے بعد اب ان کا مستقبل پھر جوں کی توں حالت میں پہنچ گیا ہے۔ مستقبل کے تعلق سے یہ سوال بھی کھڑا ہوگیا ہے کہ اس تجربہ کے بعد کیا آنے والی کوئی حکومت زرعی سیکٹر میں کسی بڑی اصلاح، کسانوں کو ان کا واجب حق اور ان کی فصل کو مناسب قیمت دلانے والی ایسی اہم پہل کرنے کی ہمت دکھا پائے گی؟
(کالم نگار سہارا نیوز نیٹ ورک کے
سی ای او اور ایڈیٹر اِن چیف ہیں)

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS