ہماری معیشت میں ’آگ‘ ہے، اسے قائم رکھیں

0

چیتن بھگت

معیشت میں آگ لگی ہوئی ہے، اچھی آگ! کئی شروعاتی اشارے بتارہے ہیں کہ ہندوستانی ’بدلے‘ کے جذبہ سے بھرے ہوئے ہیں۔ وہ خرچ کررہے ہیں، گھوم رہے ہیں اور وہ سب کچھ کررہے ہیں جو وبا سے برباد ہوئے سال میں نہیں کرپائے۔ ہندوستانی سیاحوں اور تیرتھ یاتریوں کی بھرمار ہے۔ مال مالک مجھے بتارہے ہیں کہ بھیڑ کووڈ کے پہلے سے بھی زیادہ ہے۔ ہندوستان کی سب سے بڑی گھریلو ایئرلائن میں کچھ خاص دنوں پر مسافروں کی تعداد وبا سے پہلے کے دنوں پر پہنچ گئی ہے۔ اب تک کا سب سے زیادہ جی ایس ٹی کلیکشن ہوا ہے۔ ریستوراں بھرے ہوئے ہیں۔ اسٹاک مارکیٹ اچھال پر ہے۔ مسافر گاڑیوں کی فروخت کورونا سے پہلے کی سطح پر آگئی ہے۔ ایسے دیگر کئی اشارے ہیں جو بتاتے ہیں کہ معیشت عروج پر ہے۔ ای ٹی اکنامسٹ کا حالیہ پول بتاتا ہے کہ جولائی-ستمبر2021کی سہ ماہی کے لیے جی ڈی پی نمو6.5فیصد-9.9فیصد(گزشتہ سال کے لوور بیس کے سبب بھی) رہے گی۔ موجودہ اکتوبر-دسمبر سہ ماہی کے لیے یہ اور بھی بہتر ہوسکتی ہے۔
معیشت میں سرگرمی اچھی خبر ہے، خاص طور پر برے دور کے بعد۔ حالاں کہ اضافہ کی یہ رفتار قائم رکھنا ضروری ہے۔ یہ محض کووڈ کے بعد کی واپسی بن کر نہ رہ جائے۔ ہمارے بڑے ہدف ہونے چاہئیں۔ ہمیں 5ٹریلین ڈالر کی معیشت بننے کا خواب سچ کرنے کے لیے اگلے پانچ سال تک یہ رفتار قائم رکھنی ہوگی۔ اس کے لیے ہمیں اگلے پانچ سال 9فیصد سالانہ شرح سے بڑھنا ہوگا۔ یہ مشکل ہے، ناممکن نہیں۔ پانچ ٹریلین جی ڈی پی سطح کا مطلب ہوگا 3300ڈالر فی شخص آمدنی۔ اس سے ہم انفرااسٹرکچر بنا پائیں گے اور ہمارے صحت اور تعلیمی شعبوں کی پائیداری میں اضافہ ہوگا۔9فیصد کے سالانہ اضافہ کے لیے صرف باتوں سے کام نہیں چلے گا، بلکہ ٹھوس اقدامات کرنے ہوں گے۔ یہ رہے 8آئیڈیا جو ہمیں یہ رفتار بنائے رکھ کر 5ٹریلین ڈالر جی ڈی پی حاصل کرنے میں مدد کریں گے:
.1ٹیکس اصلاحات کی جگہ ترقی کی اصلاحات: ٹیکس اصلاحات ضروری ہیں۔ حکومت نے اس کے لیے گزشتہ کچھ برسوں میں پالیسی میں تبدیلیاں کی ہیں۔ حالاں کہ حکومت کو فیصلہ لینا ہوگا کہ اگر ہندوستانی معیشت ایک کار ہوتی تو اس میں ابھی بہترین بریک کی ضرورت ہوگی یا بہترین ایکسیلیٹر (رفتار بڑھانے والا)کی؟ ٹیکس اصلاحات بریک کی طرح ہیں۔ یہ بریک نہیں، رفتار میں بہتری لانے کا وقت ہے۔
.2انڈین اسپیشل ایڈمنسٹریٹیوریجن(آئی ایس اے آر): تصور اور سوچ کا دائرہ وسیع کیجیے۔ آحر سرمایہ کار، ٹاپ مینجمنٹ اسکلس اور بزنس، سنگاپور، ہانگ کانگ اور دبئی کیوں چلے جاتے ہیں؟ یہ شہر-اسٹیٹ کم ٹیکس، صاف حکمرانی، بزنس کے لیے اچھی پالیسیاں اور اچھا کارپوریٹ قانون سسٹم دیتے ہیں۔ ہم اپنا ایسا شہر یعنی آئی ایس اے آر کیو ںنہیں بناسکتے؟ بندرگاہ والے دو تین شہروں کا آئی ایس اے آر کی طور پر تعین کیوں نہیں کردیتے، جہاں کچھ قوانین الگ ہوں۔ صرف اس طریقہ سے ہی اگلے پانچ برسوں میں جی ڈی پی میں ایک ٹریلین ڈالر کا اضافہ ہوجائے گا۔ ہم ابھی پورے ملک کو ترقی یافتہ نہیں بناسکتے۔ حالاں کہ ہم ترقی یافتہ ممالک کی سطح کے دو تین شہر بناسکتے ہیں۔ اگر اس سے ہندوستان کو بڑی ترقی ملتی ہے تو ایسا کیوں نہیں کرسکتے؟
.3چین سے باہر نکلنے کا پیکیج: جو بھی وجوہات ہوں، چین اب بھی زیرو-کووڈ، بند سرحدیں، لاک ڈاؤن پالیسیاں اپنائے ہوئے ہے۔ اس سے عالمی فراہمی سے متعلق مسائل آرہے ہیں۔ یہ ہندوستان کے لیے اچھا موقع ہے کہ وہ عالمی کاروباروں کو پیداوار کے لیے یہاں لائے۔ ہم لوگوں کو چین سے یہاں آنے کے لیے پیکیج دے سکتے ہیں۔ ٹیکس راحتیں، سستی زمین، بندرگاہ کے فائدے، سب کچھ دینے کے متبادل ہونے چاہیے۔ واضح رہے، چین کے مکمل طور پر کھلنے پر یہ موقع ہاتھ سے نکل جائے گا۔ اس پر جلدی کام کرنا ہوگا۔
.4عدالتی اصلاحات: یہ سبھی مانتے ہیں کہ ہندوستانی قانون اچھے ہیں اور ایک اچھا عدالتی نظام یہاں موجود ہے۔ مسئلہ صرف یہ ہے کہ یہ آہستہ خرام ہے۔ تکنیک چیزوں میں تیزی لاتی ہے، جس کی یہاں ضرورت ہے۔ تکنیک ہندوستان کے تقریباً ہر علاقہ میں پہنچ چکی ہے، لیکن اس نے ہمارا قانونی سسٹم تیز نہیں کیا ہے۔ عدالتی دستاویز اپ لوڈ ہونا اور ویڈیو کال پر سنوائی اچھے شروعاتی قدم ہیں۔ حالاں کہ، ہم تکنیک کے معاملہ میں اور زیادہ ماڈرن ہوسکتے ہیں اور تیز قانونی نظام پاسکتے ہیں۔
.5جی ایس ٹی کو منطقی بنانا: پوری دنیا میں جی ایس ٹی کے تحت سبھی پروڈکٹس اور سروسز کے لیے ایک ہی شرح نافذ کی جاتی ہے۔ ہمارے یہاں ابھی بھی کئی سلیب اور رعایتیں ہیں۔ ہم انہیں جتنا جلدی ریشنلائزڈ کرلیں گے، اتنا اچھا ہوگا۔
.6کرنسی لبرلائزیشن: شاید 1990کی دہائی کی شروعات میںبقایا ادائیگی کے بحران کے برے تجربہ کے سبب ہم پوری طرح تبدیل ہونے والی کرنسی سے ڈرتے ہیں۔ ہندوستانی روپیہ اب بہت لبرل ہے، لیکن اس میں ابھی بھی بہت سے ایسے کنٹرول ہیں، جو اس کے عالمی انضمام میں رکاوٹ پیدا کرتے ہیں۔ ماضی کی بقایا ادائیگیوں کی حالت اب ہونے کا خدشہ نہیں ہے۔ ہمیں پیسے کو اور زیادہ کھولنے کی ضرورت ہے۔
.7ٹورزم اور ہاسپٹیلٹی(ہوٹل انڈسٹری) پیکیج: گزشتہ دو برسوں سے یہ صنعت بری طرح متاثر رہی ہے۔ ہمیں اس صنعت کی کچھ حقیقی حوصلہ افزائی کرنے کی ضرورت ہے، تاکہ یہ مضبوط واپسی کرسکے۔ یہ نوکریاں پیدا کرنے والا بڑا سیکٹر بھی ہے، جو ان کی حوصلہ افزائی کرنے کا اضافی سبب ہے۔
.8عالمی اور این آر آئی ٹیکسیشن: ہندوستان کے امیر سرمایہ داروں کے غیرممالک میں رہنے اور این آر آئی بننے کے پیچھے ایک سبب یہ بھی ہے کہ اس سے انہیں عالمی ٹیکس کی ادائیگی نہیں کرنی پڑتی، جو ہندوستان میں رہائش پذیر ہونے پر نافذ ہوتے ہیں۔ کیا ہم نہیں چاہتے کہ یہ امیر ہندوستان میں رہیں؟ دوسرے ممالک ان کا سرمایہ اور مہارت کا فائدہ کیوں اٹھائیں، جب ہم انہیں یہاں رکھ کر اربوں کی سرمایہ کاری اور ڈھیروں نوکریاں پاسکتے ہیں؟ شاید عالمی ٹیکس کی ٹیکس پالیسی پر دوبارہ غور کرنے کی ضرورت ہے کہ ہم عالمی ٹیکس سے کتنا ٹیکس اکٹھا کرتے ہیں اور اس کی نسبتاً ہمیں ملک میں سرمایہ داروں کے رہنے سے کتنا فائدہ ہوگا؟
یہ خیالات مدد کرسکتے ہیں۔ حالاں کہ سارا کھیل ہماری ذہنیت کا ہے۔ ہمیں اپنی کار میں کیا چاہیے، بہتر بریک یا بہتر ایکسیلیٹر؟ طویل عرصہ میں دونوں ضروری ہیں، لیکن ابھی ہندوستان کے لیے وقت ہے کہ وہ رفتار میں اضافہ کرکے تیزی سے آگے بڑھے۔
(مضمون نگار انگریزی کے ناول نگار ہیں)
(بشکریہ: دینک بھاسکر)

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS