جشن یومِ اردو

0

آج یوم اردو ہے یعنی محبان اردو کے لیے ایک نہایت ہی اہم دن۔ علامہ اقبالؔ کے یوم پیدائش 9 نومبر کو یوم اردو کے طور پر منانے کی ابتدا برسوں پہلے ہوئی تھی۔ گزرتے برسوں کے ساتھ یوم اردو منانے والوں کا جوش بڑھتا جا رہا ہے اور کیوں نہ بڑھے، آج اردو کا شمار تیزی سے فروغ پانے والی دنیا کی اہم زبانوں میں ہوتا ہے۔Tomedes کی رپورٹ کہتی ہے کہ گزشتہ 50 سال میں دنیا کی 10 سب سے تیزی سے بڑھنے والی زبانوں میں انگریزی، پرتگالی، عربی کے بعد اردو کا نمبر آتا ہے۔ ہندوستان میں اردو پیدا ہوئی، اس لیے ہندوستان،پاکستان اور بنگلہ دیش کے لوگوںکی اس سے وابستگی اتنی بڑی بات نہیں جتنی اہم بات یہ ہے کہ امریکہ اور برطانیہ سمیت یوروپ کے دیگر ملکوں کے لوگ اصل زبان کے طور پر اسے اپنا رہے ہیں۔ 2011 کی مردم شماری کے مطابق، یونائٹیڈ کنگڈم کے 0.5 فیصد لوگوں کی اصل زبان اردو تھی، برطانیہ میں اردو کی مقبولیت کو دیکھتے ہوئے لگتا ہے کہ گزشتہ دس برس میں اس تعداد میں مزید اضافہ ہوا ہوگا مگر اردو اس مقام تک ایک دن میں نہیں پہنچی۔ جیسے کسی بولی کو وجود میں آنے میں برسہا برس لگ جاتے ہیں، اسی طرح بولی کے زبان بننے کا سفر بھی چند برسوں پر محیط نہیں ہوتا، زبان بنتے بنتے ہی بنتی ہے۔اردو کی خوش نصیبی یہ رہی کہ ابتدائی دنوں میں اسے پھولنے پھلنے کا پورا موقع ملا، شاندار ادب تخلیق کرنے والے لوگ اسے نصیب ہوئے اور بدنصیبی یہ رہی کہ اپنے ہی گھر میں اسے پرایا بنانے، اس کی شناخت مٹانے کی کوشش کی گئی۔
زبان کی تاریخ لکھنے والے لوگوں کا اردو کی تاریخ کے حوالے سے اپنا اپنا خیال ہے، ابتدائی دور کے ادبا و شعرا بھی اس حوالے سے موضوع بحث رہے ہیں کہ وہ اردو کے شاعر یا ادیب ہیں یا نہیں۔ مثلاً: امیر خسرو کو ہندی والے ہندی کا شاعر بتاتے ہیں اور اردو والے اردو کا لیکن اردو کو نہ اس سے فرق پڑا کہ اس کے ریختہ،ہندوستانی، ہندوی، اردوئے معلی، اردو وغیرہ مختلف نام ہیں اور نہ اس سے فرق پڑا کہ کسی ادیب یا شاعرکو اس سے وابستہ کیا جاتا ہے یا نہیں، وہ الہڑ دوشیزہ کی طرح ادائیں دکھاتی ہوئی، حسن پسند لوگوں کو لبھاتی ہوئی آگے بڑھتی رہی۔ انگریز ’پھوٹ ڈالو، حکومت کرو‘ پالیسی کے تحت ہندوستانیوں کو زبان کی بنیاد پر بھی تقسیم کرنا چاہتے تھے، چنانچہ 1800 میں کلکتہ میں فورٹ ولیم کالج قائم کیا تھا۔ ویسے اس کا بظاہر مقصد انگریزوں کو ہندوستانی زبانیں سکھانا بتایا گیا تھا اور یہاں سنسکرت، عربی، فارسی، اردو، ہندی، بنگلہ،انگریزی کی کتابوں کے ترجمے بھی ہوئے۔ میرامن دہلوی نے فارسی کتاب ’باغ و بہار‘ کا ترجمہ ’قصہ چہاردرویش‘ نام سے کیا۔ اس کتاب نے اردو کو کچھ نکھارا۔ اس کے بعد غالبؔ نے ’مراسلے کو مکالمہ‘ بنانے کی کامیاب کوشش کی۔ اس کوشش کو سرسید احمد خاں کی سہل پسندی کی تحریک نے وسعت دی۔ اردو کے ساتھ ایک اور اچھی بات یہ ہوئی کہ اس وقت سرکاری زبان فارسی تھی اور ایسٹ انڈیا کمپنی نے 1837 میں اس کی جگہ اردو کو سرکاری زبان بنا دیا۔ غالبؔنے اس وقت کے حالات اور متوقع حالات کے مطابق ہی شاعری کی تھی، اردو کے پاس علامہ اقبالؔ جیسے عالمی سطح کے شاعر تھے، اس کے باوجود ایک بڑی تحریک کی ضرورت تھی، یہ ضرورت 1935-36 کی ترقی پسند تحریک نے پوری کر دی۔ تمام اعتراضات کے باوجود اس تحریک نے اردو کو عالمی سطح کے شعرا و ادبا دیے ۔
ہندوستان کو آزادی تقسیم کے ساتھ ملی تو کئی لوگوں نے اردو کو بھی بانٹنے کی کوشش کی لیکن زبانیں تقسیم کی وجہ سے بٹتیں تو آج بنگلہ ، بنگلہ دیش کی قومی زبان نہیں ہوتی۔ ایسا نہیں ہے کہ اردو کے سارے کھلے دشمن ہی تھے، کچھ لوگوں کی اردو دشمنی کا انداز الگ تھا۔ وہ ایک طرف یہ راگ الاپا کرتے تھے کہ اردو ختم ہو رہی ہے، دوسری طرف یہ کہتے تھے کہ اس کا رسم الخط بدل دینے سے یہ زندہ رہے گی۔ بحث کی خاطر یہ بات مان لی جاتی کہ رسم الخط بدلنے سے یہ زندہ رہے گی مگر سوال یہ اٹھتا تھا کہ کیا الفاظ کا ذخیرہ کم ہو جانے یا متبادل الفاظ نہ رہنے سے بھی کوئی زبان معیاری اور بڑی زبان رہ سکتی ہے؟ ظاہر سی بات ہے، اس کا جواب ہے، نہیں! ایسی صورت میں سوال یہ تھا کہ اردو الفاظ ’نظر‘ اور ’نذر‘ کو جب دیوناگری یا رومن رسم الخط میں ایک ہی طرح سے لکھا جائے گا تو پھر ان لفظوں کا مطلب کیا رہ جائے گا، اردو میں ’سنبل‘، ’ منبر‘ لکھتے ہیں اور پڑھتے ہیں ’سمبل‘، ’ممبر‘ تو ان الفاظ کو دیوناگری یا رومن میں لکھتے وقت رسم الخط کو بنیاد بنایا جائے گا یا تلفظ کو۔ اسی لیے اردو کے رسم الخط سے چھیڑچھاڑ کی مخالفت کی گئی، اس شیریں زبان کی شناخت بچانے کی مہم چلائی گئی اور ہر برس جشن یوم اردو اس مہم کو نئی توانائی دیتا ہے۔ زبان صرف زبان نہیںہوتی، ثقافت بھی ہوتی ہے۔ اردو زندہ رہے گی تو اردو ثقافت بھی زندہ رہے گی، گنگا جمنی تہذیب اپنی اہمیت کا احساس دلاتی رہے گی، یہ بتاتی رہے گی کہ یہ اردو ہی ہے جس نے ’آداب‘ اور ’انقلاب‘ جیسے عالمی شہرت یافتہ الفاظ دیے۔ اردو فلموں میں بھی زندہ ہے مگر اپنی شناخت کے ساتھ نہیں، البتہ مدارس نے اسے اس کی شناخت کے مطابق زندہ رکھا ہوا ہے مگر اس کے فروغ کی ذمہ داری ہر اس شخص کی ہے جو اسے اپنی زبان مانتا ہے۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS