محمد حنیف خان
انسانی زندگی نے مختلف ادوارمیں جہاں ترقیات کے اعلیٰ مدارج طے کیے وہیں اس نے بہت سے بحران کا بھی سامنا کیا،جس قوم اور معاشرے نے اس طرح کے بحرانوں کا پامردی اور استقلال کے ساتھ مقابلہ کیا وہ نہ صرف سرخرو ہوئیں بلکہ انہوں نے ترقی کی ایک نئی عبارت مستقبل میں رقم کی۔گزشتہ ایک صدی میں کووڈ 19سے زیادہ وسیع اور آفاقی کسی بحران سے انسانی زندگی دوچار نہیں ہوئی۔مختلف اقوام و ملل اور ممالک نے اس کا اپنے اپنے وسائل اور عزم و حزم سے مقابلہ کیا۔ہندوستان نے بھی اپنی بساط بھر کوششیں کیں جو آج بھی جاری ہیں۔حکومت نے جو بھی کوشش کی اس کی تعریف کی جانی چاہیے اگرچہ عوام کو اس سے کہیں زیادہ کی امید تھی۔در اصل جب بھی اس طرح کا کوئی موقع آتا ہے تو اس میں دو طرح کے لوگ ہوتے ہیں ایک انسانیت دوست اور ایک انسانیت دشمن۔انسانیت دوست افراد انسانی خدمت کے ذریعہ طمانیت قلبی حاصل کرتے ہیں جبکہ انسانیت دشمن ان ایام کو بھی مواقع میں تبدیل کردیتے ہیں جو ہندوستان میں بھی ہوا اور ہورہا ہے۔ اس کے برعکس مجموعی طور پر حکومت اور عوام نے اس بحران کا بہت پامردی سے مقابلہ کیا جس میں اس کو بڑی بڑی قربانیاں بھی دینی پڑی ہیں۔اب حالات مستقل بہتری کی طرف جا رہے ہیں۔جو خوش آئند ہے لیکن اس دوران کچھ ایسی بھی باتیں ہوئی ہیں جنہوں نے حساس دل رکھنے والوں کی توجہ اپنی طرف مبذول کرائی ہے۔
کسی بھی ملک و قوم کی ترقی صرف کاروبار میں مضمر نہیں ہے بلکہ مستقبل کی سرمایہ کاری ہی اصلی کاروبار ہے۔ ہندوستان کاروبار کی سطح پر تو کووڈ 19کے منفی اثرات سے باہر نکل رہا ہے لیکن ایک دوسرے محاذ پر وہ بری طرح سے ناکامی کا شکار دکھائی دے رہا ہے،جس کے نہایت منفی اثرات مستقبل میں سامنے آئیں گے۔ملک و قوم کا وجود حال کے بجائے مستقبل پر ہوتا ہے۔جو قومیں جتنی بیدار ہوتی ہیں وہ اسی اعتبار سے مستقبل پر توجہ دیتی ہیں اور ان کے لیے سرمایہ کاری کرتی ہیں، یہ سرمایہ کاری مادی اور غیر مادی دونوں سطح پر ہو سکتی ہے۔مادی سطح پر سرمایہ کاری اور اس کے فوائد و نقصانات ہمارے سامنے ہیں۔اس وقت مہنگائی کا جو عالم ہے اس نے ہر ایک کی پیشانی کو شکن آلود کر دیا ہے۔امیر و غریب سب پریشان ہیں،مگر کوئی کچھ کر نہیں سکتا ہے کیونکہ اس سے متعلق فیصلے،نفاذ اور مانیٹرنگ عوام کے بجائے حکومت کے ہاتھوں میں ہے،سب کی نگاہیں حکومت کی طرف لگی ہوئی ہیں مگر وہ بالکل خاموش ہے اور اگر کوئی اس سے متعلق سوال کرتا ہے تو آمدنی میں اضافے کی بات کہہ کر جواب دیا جاتا ہے کہ ایسے میں مہنگائی کو بھی برداشت کرنا پڑے گا۔عوام مجبور ہیں وہ سننے کے علاوہ کچھ نہیں کر سکتے ہیںکیونکہ انہوں نے ہی اس حکومت کو منتخب کیا تھا جس نے عام انتخابات میں اسی مہنگائی کو سب سے بڑا مسئلہ بنایا تھا مگر آج وہی عوام کو راحت دیتی ہوئی نہیں نظر آتی ہے۔ اس مہنگائی کو بھی کسی نہ کسی سطح پر برداشت کیا جا سکتاہے مگر حکومت نے مستقبل سے جس طرح اغماص برت رکھا ہے اور اس کو لائق اعتنا تصور نہیں کیا ہے، اس سے صرف نظرنہیں کیا جا سکتا ہے۔
2020کی دوسری ششماہی کے آغاز کے ساتھ ہی حالات بہتری کی طرف گامزن ہوگئے جس کے بعد حکومتی اداروں کے ساتھ ہی کاروباری ادارے بھی کھلنے لگے اور دھیرے دھیرے ہر شعبہ مصروف کار نظر آنے لگا۔جس کا مقصد صرف یہ تھا کہ بحرانی دور میں جو نقصان ہوچکا ہے، اس سے ملک باہر نکل سکے اورملک کو مزید نقصان سے بچایا جا سکے۔اب تو حالات یہاں تک پہنچ گئے کہ سنیما ہالوں کو بھی ان کی پوری صلاحیت کے ساتھ کھولنے کی اجازت دے دی گئی ہے لیکن ملک میں ایک شعبہ ایسا بھی ہے جسے آج بھی اپنی پوری صلاحیت کے ساتھ کام کر نے کی اجازت نہیں دی گئی ہے۔پہلے دن سے اس شعبے اور ملک کے مستقبل کے ساتھ کھلواڑ کیا جا رہا ہے۔تعلیم کا شعبہ ایک ایسا شعبہ ہے جس پر کسی بھی ملک کی بنیاد ہو تی ہے مگر افسوس کی بات یہ ہے کہ شراب کی دکانوں اور سنیما ہالوں کو تو کھول دیا گیا مگر تعلیمی اداروں کو نہیں کھولا گیا،جس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ تعلیم کو کتنی اہمیت اس ملک میں دی جا رہی ہے۔ اسکولوں کو ضرور کھول دیا گیا مگر اعلیٰ تعلیمی اداروں /دانش گاہوں کی درسگاہیں آج بھی خالی پڑی ہیں،حکومت نے متبادل کے طور پر آن لائن کلاس کا انتظام کیا تھا مگر یہ تو حکومت کو بھی معلوم ہوگاکہ آن لائن نظام صرف متبادل ہے حقیقی نہیں ہے کیونکہ اس نظام میں نہ تو تربیت کا کوئی انتظام ہوسکتا ہے اور نہ رہنمائی کے لیے اس میں کوئی جگہ ہے۔یہ اصل نظام کی جگہ کسی بھی صورت میں نہیں لے سکتا ہے۔اس کی حقیقت ان طلبا سے بہتر کوئی نہیں جان سکتا ہے جنہوں نے وبائی ایام میں ماسٹرس میں داخلہ لیا تھا اور بغیر ایک دن بھی درسگاہ کی دہلیز پار کیے ان کو ماسٹرس کی ڈگری مل گئی ہے۔
کاغذی سطح پر وبائی ایام میں بھی تعلیمی نظام ٹھپ نہیں ہوا بلکہ وہ کسی نہ کسی صورت میں اپنا کام کرتا رہا مگر یہ حقیقت ہے کہ اس نظام نے بچوں کو کاغذات کے سوا کچھ نہیں دیا جسے وہ ملازمت کے لیے اپنی آنے والی زندگی میں پیش کریں گے۔اب تعلیمی نظام کو پٹری پر آنا چاہیے اور درسگاہوں کو طلبا و اساتذہ کے لیے کھولنا چاہیے۔اگر حکومت ایسا نہیں کرتی ہے تو وہ صرف طلبا کے ساتھ ہی نہیں ملک کے ساتھ کھلواڑ کا مرتکب ہوگی۔یہ ایسا جرم ہوگا جس کے بدعواقب مستقبل میں نہ صرف دکھائی دیں گے بلکہ اس سے ملک کو بڑی دشواریوں کا سامنا کرنا پڑے گا۔
تعلیم سے متعلق جب حکومت کی پالیسی اور عمل کا جائزہ لیا جاتا ہے، نئی تعلیمی پالیسی کے نفاذ کے باوجود کسی طرح کا کوئی خوشگوار احساس نہیں ہوتا ہے۔کیونکہ وہ اس محاذ پر عملی اقدام کے بجائے کاغذی کارروائی کرتی ہوئی زیادہ نظر آتی ہے۔خواہ وہ جیو انسٹیٹیوٹ کو انسٹی ٹیوٹ آف ایمیننس کا درجہ دیا جانا ہو یا پھر نصاب میں تاریخی پھیر بدل ہو۔ حکومت نے ریلائنس فاؤنڈیشن کے مجوزہ انسٹی ٹیوٹ کو اس کے قیام سے قبل ہی سینٹر آف ایمیننس کا درجہ دے دیا تھا۔شاید دنیا کی یہ پہلی یونیورسٹی ہو جسے قیام سے پہلے ہی اتنا بڑا درجہ مل گیا۔بالکل اسی طرح کا عمل حکومت نے کووڈ19کے دوران دانش گاہوں کے ساتھ کیا ہے۔تقریباً ایک ماہ قبل نیشنل انسٹی ٹیوٹ رینکنگ فریم ورک (این آئی آر ایف )کی فہرست جاری ہوئی ہے۔جس میں ملک کی سو یونیورسٹیوں کی درجہ بندی کی گئی ہے۔ اس درجہ بندی کے پانچ معیار ہیں جن میں طلبا و اساتذہ کی تعلیمی سرگرمیاں سر فہرست ہیں،ریسرچ ورک اور دیگر غیر تعلیمی سرگرمیاں کھیل کود وغیرہ کی بنیاد پر درجہ بندی ہوتی ہے۔ایک سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب دانش گاہیں طلبا سے خالی تھیں،سمینار اور دیگر سرگرمیاں بھی بند تھیں تو یہ درجہ بندی کیوں اور کیسے کی گئی؟حکومت اس کے اپنے طریقے سے جواب دے سکتی ہے،عدالتوں میں ان جوابات کو قبول بھی کیا جا سکتا ہے لیکن کسی بھی چیز کا جو اخلاقی پہلو ہوتا ہے جس پر کسی طرح کا قانون نافذ نہیں ہوتا ہے حکومت اس کا کیا کرے گی؟ اس کا جواب حکومت کے پاس نہیں ہے کیونکہ زمینی سطح پر نظام تعلیم بالکل منہدم ہے،جو بھی ہو رہا ہے سب کاغذی سطح پر ہے یا آن لائن ہے جو حقیقت میں زمین پر نہیں ہے،جس کے فوائد بھی بے انتہا محدود ہیں۔
حکومت کو معلوم ہونا چاہیے کہ تعلیم شراب اور سنیما سے زیادہ اہم ہے،جو قوم شراب اور سنیما کو زیادہ اہمیت دے گی اس کے مستقبل کے بارے میں بتانے کی ضرورت نہیں ہے۔یہاں مسئلہ قوم کے سربرآوردہ افراد /اعیان حکومت بلکہ ریاست کے فیصلے کا ہے،اس کی ترجیحی فہرست میں اگر تعلیم کا درجہ شراب اور سنیما کے بعد ہے تو قیادت کو خود سوچنا چاہیے کہ وہ آنے والی نسلوں کو کیا دینا چاہتی ہے اور ان کو کیسا دیکھنا چاہتی ہے۔یقینا انسانی زندگی کو اس کی بھی ضرورت پڑ سکتی ہے مگر تعلیم پر خود ریاست جب اسے فوقیت دینے لگے تو سوال ضروری ہو جاتا ہے۔
علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے لے کر جامعہ ملیہ،جے این یو اور ملک کی دیگر یونیورسٹیوں کے طلبا درسگاہ اور ہاسٹل کھولنے کے لیے جد و جہد کر رہے ہیں،وہ تحریک چلا رہے ہیں، مظاہرے کر رہے ہیں مگر حکومت کے کان پر جوں نہیں رینگ رہی ہے۔ ریاست اور اعیان ریاست کو معلوم ہونا چاہیے کہ یہ طلبا عیش و عشرت کے لیے سڑکوں پر نہیں ہیں بلکہ وہ اپنا اور ملک کا مستقبل تابناک کرنے کے لیے جد وجہد کر رہے ہیں۔مختلف امتحانات خود حکومتی ادارے کرا رہے ہیں جن کے لیے ا ن کو تیاری کی ضرورت ہے جو گھر کے بجائے ہاسٹلوں میں ہی بہتر طور پر ہوسکتی ہے۔اسی طرح ریسرچ کے لیے طلبا کو لائبریری کی ضرورت ہے ہر مواد آن لائن دستیاب نہیں ہے۔حکومت کو طلبا کی اس طرح کی دشواریوں کو بھی نظر میں رکھنا چاہیے۔اب جبکہ حکومت نے سنیما ہالوں کو اپنی پوری صلاحیت کے ساتھ کھولنے کی اجازت دے دی ہے، جہاں کرسیوں سے کرسیاں ملا کر تین گھنٹے ناظرین ایک ساتھ بیٹھ کر فلمیں دیکھیں گے،ایسی صورت میں بغیر کسی رد و قدح کے یونیورسٹیوں کی درس گاہوں، لائبریریوں اور ہاسٹلوں کو بھی کھول دینا چاہیے تاکہ طلبا اپنا مستقبل سنوار سکیں۔اگر ایسا نہیں ہوا تو پوری نسل تماشے دکھائے گی اور دیکھے گی جس کی ذمہ داری صرف اور صرف حکومت پر ہوگی لیکن اس وقت اس غلطی کی اصلاح کاوقت حکومت اور عوام دونوں کے پاس نہیں ہوگا۔اس لیے ان دونوں کو طلبا کا ساتھ دینا چاہیے۔
[email protected]