اپنی امنگوں اورآرزوئوں کی تکمیل کیلئے حکومتوں نے جب جب آئینی دائرہ سے باہر نکلنے کی کوشش کی ہے، انہیں عدلیہ کی گو ش مالی کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ آزاد ہندوستان میں اس طرح کی کئی ایک مثالیں ہیں جب خود کو آئینی پابندیوں سے ماورا سمجھنے والی حکومت کو عدالت کے سامنے سرتسلیم خم کرنا پڑا۔پیگاسس جاسوسی معاملہ میں عدالت عظمیٰ کے تازہ فیصلہ اوراس کے ریمارکس نے جہاں حکومت کو اس کے حدود و فرائض بتائے ہیں،وہیں جمہور پسندوں میں تازگی کی ایک لہر دوڑا دی ہے۔عدالت نے پیگاسس جاسوسی کیس میں سابق جج جسٹس آر وی رویندرن، سابق(انڈین پولیس سروس) ( آئی پی ایس) افسران آلوک جوشی اور سندیپ اوبرائے کی سربراہی میں سائبر اور فارنسک ماہرین ڈاکٹر نوین کمار، ڈاکٹر اشونی گمستے اور ڈاکٹر پی چرہن پر مشتمل تین رکنی ٹیکنیکل کمیٹی تشکیل دی ہے اوراسے معاملہ کی تفتیش کرکے 8 ہفتوں کے اندر عبوری رپورٹ پیش کرنے کی ہدایت دی ہے۔ کمیٹی کی تشکیل کا مطلب یہ ہے کہ پیگاسس جاسوسی معاملے میں مرکزی حکومت کا ٹال مٹول والا رویہ اور حزب اختلاف کے سوالوں سے دامن بچانے کی کوشش ذمہ داریوں سے فرارٹھہری ہے اور اب عدالت کے حکم کے بعد مرکزی حکومت کواس معاملے میںہر سوال کا جواب دینا ہوگا۔
اسرائیل ساختہ پیگاسس سافٹ ویئر کے ذریعہ ملک کے ممتاز شہریوں کی نگرانی اور ان کے فون کال کی مانیٹرنگ کے سلسلے میں ایڈیٹرز گلڈ آف انڈیا، این جی او کامن کاز، سینئر صحافی این رام اور دیگر کی جانب سے آزادانہ تحقیقات کے مطالبہ پر مشتمل عرضیوں پریہ چوتھی سماعت تھی جس میں عدالت نے کمیٹی تشکیل دی ہے۔ پیگاسس اسرائیل میں بنایا گیا ایک ایسا سافٹ ویئر ہے، جس سے کسی کو بھی اس کی اطلاع کے بغیر اس کے فون میں ڈال کر اس کی گفتگو اوراس کی دیگر سرگرمیوں کو مانیٹر کیا جاسکتا ہے۔ مرکز کی مودی حکومت پر ملک کے کئی ممتاز شہریوں، صحافیوں، وکلا، سماجی کارکنان حتیٰ کہ سپریم کورٹ کے کئی بڑے عہدیداروںکی جاسوسی کیلئے اس سافٹ ویئر کے استعمال کا الزام ہے۔ بتایاجاتا ہے کہ پیگاسس بنانے والا این ایس او گروپ اپنا سافٹ ویئر صرف حکومتوں کو فروخت کرتا ہے۔ اس لیے حکومت ہند سے یہ سوال بھی پوچھا گیا کہ کیا اس نے یہ سافٹ ویئر خریدا ہے، کیونکہ حکومت کی خریداری کے بغیر اسے ملک میں استعمال نہیں کیا جا سکتا ہے۔لیکن حکومت نے کبھی ا س کا کوئی واضح جواب نہیں دیاتھا۔حتیٰ کہ گزشتہ ستمبر کے مہینہ میں اس مقدمہ کی تیسری سماعت کے دوران حکومت نے قومی سلامتی کا حوالہ دیتے ہوئے اس معاملے پر تفصیلی حلف نامہ داخل کرنے سے بھی انکار کر دیاتھا۔
چوتھی سماعت کے دوران سپریم کورٹ کے چیف جسٹس این وی رمن، جسٹس سوریہ کانت اور ہیما کوہلی کی بنچ نے جو ریمارکس دیے ہیں وہ حکومت کے بڑھتے حوصلوں کیلئے کسی تازیانہ سے کم نہیں ہے۔ بنچ نے کہا کہ ہم اطلاعاتی انقلاب کے ایسے دور میں ہیں، جہاں لوگوں کی پوری زندگی کو کلاؤڈ یا ڈیجیٹل فائل میں رکھا جاتا ہے۔ ہمیں یہ سمجھنا ہوگا کہ ٹیکنالوجی لوگوں کے معیار زندگی کو بہتر بنانے کیلئے ایک مفید ذریعہ ہے، لیکن اسے کسی فرد کے مقدس نجی دائرے کو سبوتاژ کرنے کیلئے بھی استعمال کیا جا سکتا ہے۔پرائیویسی صرف صحافیوں یا سماجی کارکنوں کیلئے تشویش کا معاملہ نہیںہے۔ایک مہذب جمہوری معاشرے کے ارکان پرائیویسی کے تحفظ کی ایک جائز توقع رکھتے ہیں۔ ہندوستان کے ہر شہری کو پرائیویسی کی خلاف ورزی سے بچانا چاہیے۔ عدالت نے یہ بھی کہا کہ ہماری کوشش خود کو سیاست کا شکار بنائے بغیر آئینی امنگوں اور قانون کی حکمرانی کو برقرار رکھنے کی ہے۔ عدالت نے مرکز کو کٹہرے میں کھڑا کرتے ہوئے یہ بھی کہا کہ قومی سلامتی اور قومی تحفظ کے خدشات کا معاملہ اٹھانے پر حکومت کو ہر بار چھوٹ نہیں دی جاسکتی ہے، اس لیے عدالت پیگاسس جاسوسی کیس کی تحقیقات کیلئے ماہرین کی کمیٹی بنارہی ہے۔
عدالت کی بنائی گئی کمیٹی تحقیقات میں کیا حقائق سامنے لاتی ہے، اس سے قطع نظر عدالت کا یہ فیصلہ اور ریمارکس بتارہے ہیں کہ عدلیہ تمام ترمشکلات کے باوجود جمہوریت، انسانی وقار اور پرائیویسی کے بنیادی حقوق کے تحفظ کیلئے انتہائی سنجیدہ ہے اور حکومت کو احتساب اور مواخذہ سے گزارنے کا اپنا فرض ادا کررہی ہے۔ حکومت کی مطلق العنانی اور خود کو احتساب سے بالاتر سمجھتے ہوئے کام کرنے کی اگر مکمل آزادی دے دی جائے تو کچھ عجب نہیں کہ معاشرے سے جمہوریت، مساوات، بنیادی اور انسانی حقوق کا خاتمہ ہی ہوجائے۔ اس لیے جمہوری نظام حکومت میں چیک اینڈ بیلنس کا انتظام کیاگیا ہے تاکہ حکومتوں کی آمریت اور مطلق العنانی کو بروقت لگام دی جاسکے۔ چیک اینڈ بیلنس کے اس نظام میں عدلیہ بنیادی حیثیت رکھتی ہے اور کسی ملک و معاشرہ میں جمہوریت کی بقا اور فروغ کیلئے عدلیہ کایہی کردار مطلوب ہوتا ہے۔
[email protected]
’پیگاسس‘ پر عدلیہ کا مستحسن کردار
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS