صبیح احمد
اقوام متحدہ کے قیام کے 76 برس مکمل ہو گئے ہیں۔ اس عالمی ادارہ کا قیام دوسری عالمی جنگ کے اختتام پر 24 اکتوبر 1945 کو عمل میں آیا تھا جس کا بنیادی مقصد آنے والی نسلوں کو جنگ کی لعنت سے محفوظ رکھنا تھا لیکن ان 76 برسو ں میں یہ ادارہ اپنے مقصدکو حاصل کرنے میں کامیاب ہو ا ہے یا نہیں، اس کا کوئی ٹھوس جواب دینا فی الحال مشکل ہے۔ ایسا ہر گز نہیں ہے کہ اپنے قیام کے بعد سے اب تک ادارہ کی جھولی میں کوئی کامیابی آئی ہی نہیں، دنیا میں قیام امن اور دیگر شعبوں کے حوالے سے اس نے کئی کامیابیاں حاصل کی ہیں لیکن اس بات سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا کہ اس عالمی ادارہ سے جتنی توقع کی جاتی رہی ہے، اس پر کھرا اترنے میں اسے ابھی تک کوئی نمایاں کامیابی نہیں مل سکی ہے۔ اس کے قیام سے اب تک گزشتہ تقریباً 7 دہائیوں میں ڈھائی سو جنگیں ہو چکی ہے اور جن میں کروڑوں افراد اپنی جانیں گنوا چکے ہیں۔ کامیابی کے حوالے سے اکثر یہ بات کہی جاتی ہے کہ اقوام متحدہ کے قیام سے قبل دنیا 2 عالمی جنگیں دیکھ چکی تھی لیکن اس کے قیام کے بعد تیسری عالمی جنگ تاحال نہیں ہوئی ہے۔ ابھی یہ یقینی طور پر نہیں کہا جا سکتا ہے کہ آیا تیسری عالمی جنگ اقوام متحدہ کی وجہ سے نہیں ہوئی ہے یا اس کے نہ ہونے کی وجہ ایٹم بم کی تباہی کا باہمی خوف ہے، یا یہ دونوں عوامل کارفرما ہیں یا کوئی اور وجہ ہے۔
اقوام متحدہ دراصل ایک بین حکومتی تنظیم ہے جس کا اہم مقصد دنیا میں امن و سکیورٹی برقرار رکھنا، ملکوں کے درمیان دوستانہ تعلقات استوار کرنا، بین الاقوامی تعاون کی راہ ہموار کرنا اور ملکوں کی سرگرمیوں میں توازن کے لیے بطور ایک مرکز کام کرنا ہے۔ یہ دنیا کی سب سے بڑی اور مشہور بین الاقوامی تنظیم ہے۔ اقوام متحدہ کا ہیڈکوارٹرس نیویارک شہر میں ایک بین الاقوامی خطہ میں واقع ہے اور اس کے دیگر اہم دفاتر جنیوا، نیروبی، ویانا اور دی ہیگ میں ہیں۔ اقوام متحدہ میں انگریزی، چینی، فرانسیسی، روسی، ہسپانوی اور عربی کو سرکاری زبانوں کا درجہ حاصل ہے۔ اس سے قبل اسی قسم کی عالمی تنظیم لیگ آف دی نیشنز کی ناکامی کے بعد اقوام متحدہ کا وجود عمل میںآیا تھا۔ اقوام متحدہ کے چارٹر کو 25 اپریل 1945 میں امریکہ کے مغربی ساحلی شہر سان فرانسسکو میں حتمی شکل دی گئی تھی جس پر 50 ممالک کے نمائندوں نے 26 جون کو دستخط کیے اور بالآخر 24 اکتوبر 1945 کو اقوام متحدہ عملاً قائم ہوگیا۔ اقوام متحدہ کا بنیادی مشن بین الاقوامی امن و سلامتی قائم رکھنا ہے جس کے حصول کے لیے تنازعات کو پیدا ہونے سے روکنا اور ہونے کی صورت میں محدود کرنے کے اقدامات کرنا اور کسی تنازع میں فریقین کو امن قائم کرنے اور امن کو برقرار رکھنے کے لیے حالات کو بہتر بنانے میں مدد فراہم کرنے کے اقدامات کرنا ہوتا ہے۔ اقوام متحدہ کے اعداد و شمار کے مطابق وہ اب تک ایسے 172 معاہدے طے کرا چکا ہے جن کے ذریعہ 4 کروڑ مہاجرین کی دیگر ممالک میں پر امن آباد کاری میں مدد دی گئی۔ ایک ارب سے زائد لوگوں کو پینے کا صاف پانی اور 80 ممالک کے کروڑوں لوگوں کو خوراک فراہم کی ہے۔ اس نے مختلف ممالک کو ان کے انتخابات میں مدد دی ہے، بچوں کو ویکسین فراہم کی ہے، لاکھوں خواتین کو زچگی کی صحت میں مدد دی ہے۔ اس کے علاوہ اقوام متحدہ کی ایک اپنی رپورٹ کے مطابق یونیورسل ڈکلیریشن آف ہیومن رائٹس نے (یو ڈی ایچ آر) نے 80 سے زیادہ بین الاقوامی انسانی حقوق کے معاہدوں اور اعلانات، علاقائی انسانی حقوق کے کنونشنوں، داخلی انسانی حقوق کے بلوں اور آئینی دفعات کی منظوری میں بنیادی یا رہنما کردار ادا کیا جو کہ مل کر انسانی حقوق کے فروغ اور تحفظ کے لیے ایک جامع قانونی طور پر پابند عالمی اور علاقائی سطح پر ایک نظام تشکیل دیتے ہیں۔ اقوام متحدہ اور اس کی ایجنسیوں نے ایچ آئی وی/ایڈز، ایبولا، ہیضہ، انفلوئنزا، پیلا بخار، میننجائٹس اور کووڈ 19 جیسی بیماریوں کے خلاف عالمی کوششوں کو مربوط کرنے میں کامیابی حاصل کی ہے اور دنیا کے بیشتر حصوں سے چیچک اور پولیو کے خاتمہ میں مدد کی ہے۔ اقوام متحدہ کی 10 ایجنسیوں اور اہلکاروں کو امن کے لیے نوبل انعامات مل چکے ہیں۔
حالانکہ اقوام متحدہ کا بنیادی مینڈیٹ دنیا میں امن قائم رکھنا ہے لیکن امریکہ اور سوویت روس کے درمیان جاری سردجنگ نے تنظیم کو بے حد نقصان پہنچایا۔ اس دوران وہ صرف ان تنازعات میں مداخلت کر سکی جو سرد جنگ کے دائرے سے باہر تھے۔ بہر حال سرد جنگ کے بعد امن قائم رکھنے کے اپنے فرائض میں اقوام متحدہ نے انقلابی توسیع کی۔ 5 برسوں کے دوران اتنے زیادہ مشنوں میں اپنی بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کیا کہ جو گزشتہ 4 دہائیوں میں نہیں کر سکی تھی۔ 1088 سے 2000 کے درمیان سکیورٹی کونسل نے دوگنی سے زیادہ قراردادوں کو منظوری دی اور امن و سلامتی کے حوالے سے بجٹ میں 10 گنا سے زیادہ اضافہ ہوا۔ اگرچہ اقوام متحدہ کی وجہ سے اس وقت دنیا بھر میں بہت سارے کام ہو رہے ہیں لیکن یہ ادارہ دنیا میں ہونے والے کئی اہم انسانی المیوں کو روکنے میں ناکام رہا ہے۔ اس وقت بھی یمن میں ایک بہت بڑا انسانی المیہ جنم لے چکا ہے لیکن اقوام متحدہ کوئی کارروائی کرنے سے قاصر نظر آتا ہے۔ اس کی بنیادی وجہ اقوام متحدہ کی تشکیل اور اس کی ہیئت میں چند ایک بنیادی نقائص بتائے جاتے ہیں۔ مثلاً اقوام متحدہ کے پاس ماہرین کا ایک بڑا ذخیرہ ہے لیکن سلامتی کے معاملات میں حتمی فیصلہ سلامتی کونسل کرتی ہے جہاں 5 مستقل ارکان کے پاس ویٹو پاور ہے جو بعض اوقات عدل کے بجائے اپنے ریاستی مفادات کی حفاظت کے لیے اس طاقت کو استعمال کرتے ہیں۔ 1946 کے بعد سے ہونے والی جنگوں میں 3 ایس جنگیں ہیں جن میں بہت بڑی تعداد میں لوگ ہلاک ہوئے۔ جزیرہ نما کوریا کی جنگ (1950 کی دہائی کے اوائل میں)، ویتنام کی جنگ (1960-1970 کے آس پاس کا دور)، اور ایران اور عراق کے درمیان طویل جنگ (1980 کی دہائی) اور افغانستان پر سوویت یونین کی مداخلت اور اس کے خلاف سی آئی اے کی خفیہ جنگ (1980 کی دہائی)۔ اکیسویں صدی میں افغانستان پر امریکی حملہ، مشرق وسطیٰ، خاص طور پر عراق پر امریکی چڑھائی اور افغانستان، عراق اور شام میں خانہ جنگی ان ممالک میں بہت بڑی تعداد میں لوگوں کی ہلاکت کا سبب بنیں۔ ریاستوں کے درمیان جنگوں کے علاوہ جنگ کی ایک اور قسم میں بھی بہت زیادہ ہلاکتیں ریکارڈ کی گئیں۔ یہ تھی داعش، طالبان یا القاعدہ جیسی غیر ریاستی عسکری تنظیموں سے جنگ۔ ایسی غیر ریاستی تنظیموں سے نمٹنے کے لیے اقوام متحدہ کے پاس واضح حکمت عملی موجود نہیں ہے۔
اب اس عالمی ادارہ میں اصلاحات کی ضرورت بہت شدت سے محسوس کی جا رہی ہے۔ وقت اور حالات کا تقاضہ ہے کہ اس کے بنیادی ڈھانچہ اور دائرہ کار میں خاطر خواہ تبدیلی کر کے اسے عصری تقاضوں سے ہم آہنگ کیا جائے۔ ترجیحی بنیاد پر سب سے پہلی تبدیلی ادارہ کی نمایاں شاخ سکیورٹی کونسل میں کرنے کی ضرورت ہے۔ اقوام متحدہ کے قیام کے وقت اس کے 6 بنیادی ادارے بھی وجود میں آئے یعنی جنرل اسمبلی، اکنامک اینڈ سوشل کونسل، سکیورٹی کونسل، انٹرنیشنل کورٹ آف جسٹس، ٹرسٹی شپ کونسل، سیکریٹریٹ۔ اقوام متحدہ کے تمام 193 رکن ممالک جنرل اسمبلی کے ارکان ہیں۔ اس میں فیصلے سادہ اکثریت یا بعض اوقات اہم معاملات میں دو تہائی اکثریت سے لیے جاتے ہیں۔ اس کا اجلاس ہر برس ستمبر میں ہوتا ہے۔ سلامتی کونسل کے 15 ارکان ہیں۔ ان میں 5 مستقل ارکان ہیں (چین امریکہ، روس، برطانیہ اور فرانس)۔ باقی ارکان کو ایک علاقائی ترتیب کے مطابق جنرل اسمبلی منتخب کرتی ہے۔ سکیورٹی کونسل میں فیصلے اکثریتی ووٹ کی بنیاد پر ہوتے ہیں، تاہم مستقل ارکان میں سے اگر کوئی ایک بھی مخالفت کر دے تو اسے ویٹو سمجھا جاتا ہے،خواہ باقی تمام ارکان اس فیصلہ کے حامی ہوں۔ یہی وجہ ہے کہ کسی بھی معاملے پر خواہ وہ کتنا بھی اہم کیوں نہ ہو،اقوام متحدہ کے تمام اراکین کی خواہش اور مرضی کے برخلاف اگر سکیورٹی کونسل کا کوئی بھی رکن کسی فیصلہ کو ویٹو کر دیتا ہے تو فیصلہ نامنظور سمجھا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ اب ادارہ کے اراکین کی تعداد میں کئی گنا اضافہ ہو گیا ہے، اس کے تناسب میں سکیورٹی کونسل کے اراکین کی تعداد میں بھی اضافہ ضروری ہے۔
[email protected]