محمد حنیف خان
انسانی زندگی ترقی سے عبارت ہے، اگر اس میں نمو نہیں ہے تو اس کو ترقی پذیر یا ترقی یافتہ معاشرہ نہیں کہا جاسکتاہے، اسی لیے دنیا کے سبھی ممالک اور اقوام ترقی کے لیے ہمیشہ کوشاں رہی ہیں، جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ انسان زمین سے آسمان تک پہنچ گیا، اپنی کمندوں سے اس نے سبھی کچھ زیر کر لیا لیکن اس ترقی کے جلو میں جو تباہی اس کے لیے آئی اس سے بھی صرف نظر نہیں کیا جا سکتا ہے۔ جس طرح ترقی کی ایک دو شکلیں نہیں ہیں، وہ زندگی کے ہر شعبے پر محیط ہے اسی طرح تباہی کی بھی صرف ایک شکل نہیں ہے وہ وقت، معاشرہ اور حالات کے ساتھ اپنی شکل بدلتی رہتی ہے۔ سردست جو تباہی آئی ہے وہ انسانوں کے ساتھ چرند و پرند سب کو اپنی زد میں لیے ہوئے ہے۔ اس وقت کیرالہ سے لے کر اتراکھنڈ اور اترپردیش تک ہر طرف اس کے نقوش بکھرے ہوئے ہیں، اس میں سب سے زیادہ پریشان کسان ہیں۔
ساحلی ریاست کیرالہ اور پہاڑی ریاست اتراکھنڈ جغرافیائی لحاظ سے نہایت حساس رہی ہیں، ان دونوں ریاستوں میں وقتاً فوقتاً قدرتی آفات کا قہر دیکھا جاتا رہا ہے۔ بارش اور سمندری و پہاڑی پانی نے ان دونوں ریاستوں میں خوب تباہی مچائی ہے۔ ان دونوں ریاستوں کی یہ حالت اس لیے ہوئی ہے کیونکہ ترقی پر نظر نے سیاسی و سماجی مہم جو افراد کو اندھا کردیا تھا، کسی نے اس جانب توجہ ہی نہیں دی کہ قدرت کے عطیات کا حد سے زیادہ استعمال اور اس کے ساتھ غیر فطری عمل سے کتنی بڑی پریشانی کا سامنا کرنا پڑ سکتاہے۔ جبکہ ہونا یہ چاہیے تھا کہ ترقیاتی منصوبوں کی خاکہ سازی میں اس پہلو پر نظر رکھی جاتی مگر ایسا نہیں ہوا جس کا خمیازہ انسانی جانوں کی تباہی کی صورت میں بھگتنا پڑ رہا ہے۔ اس میں بھی شہری علاقوں سے زیادہ دیہی علاقوں کے لوگ پریشان ہیں کیونکہ یہاں قدرتی آفت نے وسیع پیمانے پر قہر کا مظاہرہ کیا ہے۔ دیہی عوام کی کھیتی کو بچانے کے لیے حکومتوں کے پاس کوئی منصوبہ نہیں ہے۔ جس طرح قدرتی آفات نے ان دونوں ریاستوں کے کسانوں کو تباہ و برباد کیا ہے، وہ حکومتوں کے لیے لمحہ فکریہ ہے۔
اتراکھنڈ میں قدرتی آفات کی شدت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ وزیراعظم نریندر مودی نے خود وزیراعلیٰ سے فون کے ذریعہ رابطہ کرکے ہر ممکن مدد کی یقین دہانی کرائی ہے۔ بیرونی دنیا حکومت کے اعداد و شمار سے تباہی سے متعلق واقف ہوتی ہے لیکن یہ اصلی صورت حال نہیں ہوتی ہے، اصل حالت اور بحرانی کیفیت کا اندازہ ان ریاستوں کے عوام سے گفتگو اور وہاں کی زمینی حالت دیکھ کر ہی لگایا جا سکتا ہے، جس کا موقع ہر کسی کے پاس نہیں ہوتا۔
مذکورہ دونوں ریاستوں کی طرح ہی اترپردیش کی بھی حالت ہے اگرچہ یہاں انسانی جانوں کا اتلاف نہیں ہوا ہے مگر یہاں یہ دھان کی کٹائی کا وقت تھا جب بارش اور ندیوں کے پانی نے کسانوں پر شب خون ماردیا ہے۔ کھیتی کسانی یوں بھی اب منافع کا سودا نہیں ہے، اس پر ڈیژل کی مہنگائی نے مزید خسارے کا سودا بنا دیا۔ ڈیژل کی مہنگائی نے جتائی اور بوائی سے لے کر آبپاشی اور کٹائی تک کو مہنگا کردیا ہے، جس میں مرکزی یا ریاستی حکومتوں نے کسانوں کو کسی بھی طرح کی رعایت نہیں دی ہے۔ صرف اتنا کیا ہے کہ سرکاری خرید کی قیمت میں چند ٹکوں کا اضافہ کردیا ہے جس کا فائدہ صرف سرکاری خرید مراکز پر فروخت سے ہی اٹھایا جا سکتا ہے، جہاں فروخت کرنا بھی کاردارد ہے، کیونکہ پہلے کاغذات(کھتونی، آدھارکارڈ و دیگر کاغذات) آن لائن کرنا پڑتاہے، اس کے بعد ہی وہاں پیداوار کی فروخت ممکن ہوسکتی ہے جبکہ حقیقی صورت حال یہ ہے کہ5 فیصد کسان بھی اس نظام سے مستفید نہیں ہوپاتے ہیں۔ 95فیصد کسانوں کو اپنی پیداوار منڈیوں میں یا اس کے گھر پر خریداری کرنے والے کاروباریوں کے ہاتھوں ہی فروخت کرنی پڑتی ہے جن کے لیے کوئی ضابطہ نہیں ہے، وہ جس قیمت پر چاہیں کسانوں کی پیداوار کی خریداری کریں، کوئی روک ٹوک کرنے والا نہیں ہے۔ ایسے میں جب کسانوں پر اتنی بڑی مصیبت آئی ہے اور ان کی پکی فصل کھیتوں میں تہہ آب ہوچکی ہے تو بھلا وہ کہاں جائیں اور کس سے فریاد کریں؟ خون پسینہ ایک کرکے انہوں نے فصل تیار کی تھی، اب جب کٹائی کا وقت آیا تو قدرتی آفت نے اس کو آگھیرا۔ اترپردیش کا نشیبی علاقہ تو زیر آب ہے ہی میدانی علاقہ خصوصاً سنت کبیر نگر، بہرائچ گونڈہ، بلرامپور،سدھارتھ نگر وغیرہ جہاں دھان کی کھیتی سب سے اہم تھی، وہاں کے کسان اپنی فصل کو اس طرح تباہ دیکھ کر پریشان ہیں، ان کی سمجھ میں نہیں آرہا کہ ان کے بچے کیا کھائیں گے اور دوسری فصل کا وقت آنے تک ان کے گھر کے اخراجات کیسے پورے ہوں گے۔ ان کے قرضہ جات کی ادائیگی کیسے ہوگی۔ کیا سبیل ہوگی جس سے ان کی زندگی کی گاڑی آگے بڑھے گی کیونکہ انہوں نے اپنا سب کچھ فصل کی تیاری میں لگا دیا تھا اور اب وہاں سے یافت کی کوئی صورت نہیں بچی ہے۔
حکومت اترپردیش نے کسانوں کی اسی دِگرگوں حالت کے پیش نظر دو حکم نامے جاری کیے ہیں، اول سرکاری خریداری مراکز پر اب کسان50کوئنٹل کے بجائے100 کوئنٹل تک دھان بغیر ایس ڈی ایم کی تصدیق کے فروخت کر سکیں گے۔ پہلے کسانوں کو100کوئنٹل اناج کی فروخت کے لیے ایس ڈی ایم کی تصدیق کی ضرورت پڑتی تھی جس کے لیے اس کو تحصیل کی خاک چھاننی پڑتی تھی مگر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کتنے ایسے کسان ہوں گے جن کے پاس اس تباہی میں100کوئنٹل دھان ہوگا؟ اترپردیش میں آج بھی چھوٹے اور منجھولے کسانوں کی ہی اکثریت ہے اس کے باوجود حکومت نے یہ حکم نامہ جاری کیا ہے، حالانکہ اس کو کوئی ایسا راستہ اختیار کرنا چاہیے تھا جس سے چھوٹے چھوٹے کسانوں کے نقصانات کی تلافی ہوتی اور ان کے لیے زندگی کے گزربسر کی کوئی راہ نکلتی۔ اسی طرح دوسرا حکم نامہ اس نے یہ جاری کیاہے کہ وہ کسان جنہوں نے اپنی فصلوں کا بیمہ کرا رکھا تھا وہ فوراً متعلقہ حکام سے رابطہ کریں تاکہ ان کے نقصانات کی تلافی کی جا سکے۔ یہاں پہلے والے سوال سے بھی بڑا اور اہم سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کتنے فیصد ایسے کسان ہیں جنہوں نے اپنی فصلوں کا بیمہ کرا رکھا ہے۔ میرا بھی فیملی بیک گراؤنڈ دیہات اور کسان ہی ہے، مجھے ایسا محسوس ہوتاہے کہ پوری ایک تحصیل میں شاید چند کسان ایسے نکلیں گے جنہوں نے فصل بیمہ کرا رکھا ہو۔ یہ بھی وہ کسان ہوں گے جو خود کفیل گروپ/تنظیموں سے وابستہ ہوں گے۔ چونکہ اس طرح کے گروپ سے جڑاؤ سے سرکاری اسکیموں سے فائدے کے مواقع زیادہ ہوتے ہیں، اس لیے اس میں بھی اکثریت بڑے کسانوں کی ہی ہوتی ہے، ایسے میں حکومت کے اس حکم نامے کا فائدہ بھی چھوٹے اور منجھولے کسانوں کے بجائے بڑے کسان ہی اٹھا سکیں گے۔ حکومت کو ان کے ساتھ ہی ان چھوٹے چھوٹے کسانوں کی فکر کرنی چاہیے جن کے پاس ایک ایکڑ سے بھی کم زرعی زمین ہے، جن کی پیداوار کھانے سے زیادہ نہیں ہوتی ہے، اس قدرتی آفت نے سب سے زیادہ ایسے ہی کسانوں کو پریشان کررکھا ہے۔
حکومت کے ساتھ ہی ہر شخص اس بات سے واقف ہے کہ گوگل سے روٹی ڈاؤن لوڈ نہیں کی جاسکتی ہے، ایسے میں اگر کسان تباہ ہوگئے، ان کے پاس کھانے کے لیے کچھ نہیں رہ گیا تو پورے ملک میں بھکمری آجائے گی، اس لیے کسانوں کے ساتھ حکومت کو نرم رویہ اختیار کرتے ہوئے قدرتی آفت سے ہونے والے نقصانات کی تلافی کے لیے کمر بستہ ہوجانا چاہیے۔ اس کو ایسے منصوبے وضع کرنا چاہیے جس سے کسان آج کی طرح خود کو بے یارومددگار نہ محسوس کریں۔ اگر انہوں نے خود کو بے یارومددگار محسوس کیا اور کھیتی ان کے بچوں کا پیٹ بھی نہ بھر سکی تو بڑی بڑی گاڑیوں سے چلنے والے اور اے سی میں بیٹھ کر کاروبار کرنے والے سب کے پیٹ خالی ہوجائیں گے، اس لیے ایسے حالات بننے سے پہلے حکومت کو میدان میں آجانا چاہیے تاکہ ملک کے انّ داتا کا بھروسہ کھیتی اور حکومت دونوں پر برقرار رہے، یہ ملک کا پیٹ بھرنے کے لیے نہایت ضروری ہے یوں بھی ہم پیٹ بھرنے کے انڈیکس میں بہت نیچے جا چکے ہیں۔ ملک کو ایسی ترقی کی ضرورت ہے جس میں یہاں کے ہر طبقے کا پیٹ بھر سکے، اگر عوام کا پیٹ خالی ہے اور وہ بھوکے پیٹ سونے پر مجبور ہیں تو اس کو ترقی کا نام بالکل بھی نہیں دیا جاسکتا ہے، اس لیے حکومت کو حقیقی ترقی کی جانب قدم بڑھانا چاہیے جس سے ہر ایک کا پیٹ بھرسکے۔
[email protected]