رضوان انصاری
حال میں جاری گلوبل ہنگر انڈیکس میں ہندوستان کی حالت خراب بتائی گئی ہے۔ 116 ممالک کی فہرست میں پہلے 100میں ہندوستان کو جگہ نہیں ملنا حالات کی سنگینی کو بتانے کے لیے کافی ہے۔ گلوبل ہنگر انڈیکس میں ہندوستان اس مرتبہ 101ویں مقام پر ہے۔ حیرانی کی بات تو یہ ہے کہ اس انڈیکس میں ہم اپنے پڑوسی ممالک پاکستان(92)، بنگلہ دیش(76) اور میانمار(71) سے بھی پیچھے ہیں۔ رپورٹ میں ہندوستان میں بھوک کی سطح کو ’سنگین‘ بتایا گیا ہے۔ حالاں کہ حقائق پر غور کریں تو 2020 میں ہندوستان 94ویں پائیدان پر تھا، اب 7پائیدان اور نیچے کھسک گیا۔ ظاہر ہے، بھکمری سے نمٹنے میں ہماری کوششوں میں خامیاں ہیں اور ہم اس سمت میں ویسے قدم نہیں اٹھا رہے ہیں جو بے حد ضروری ہے۔ غور کرنے والی بات یہ ہے کہ 2020کی فہرست میں کل ملک 107تھے۔ اس حساب سے گزشتہ سال ہندوستان سے خراب مظاہرہ کرنے والے ممالک کی تعداد 13تھی، جب کہ اس مرتبہ 15ہے۔ یعنی ہندوستان کو دو پائیدان کا فائدہ ہی ہوا ہے۔ لیکن منفی پہلو یہ ہے کہ 2020میں 93ویں ملک ہم سے بہتر تھے، جب کہ اس مرتبہ 100ممالک ہم سے اچھے ہیں۔
اس انڈیکس میں بھوک کی حالت کی بنیاد پر ممالک کو صفر سے 100نمبر دیے گئے ہیں۔ 10سے کم نمبر کا مطلب ہے کہ ملک میں بھوک کا مسئلہ بے حد کم ہے۔ اسی طرح 20سے 34.9نمبر کا مطلب بھوک کا سنگین بحران اور 35 سے49.9نمبر کا مطلب ہے کہ حالات چیلنجنگ ہیں۔ اس مرتبہ ہندوستان کو 27.5نمبر ملے ہیں یعنی بحران سنگین ہے۔ اب سوال ہے کہ آخر ایسی صورت حال کیوں ہے؟ دراصل یہ انڈیکس چار پیمانوں پر تیار کیا جاتا ہے۔ یہ ہیں-تغذیہ کی کمی، لمبائی کے حساب سے کم وزن والے بچے، عمر کے مطابق کم لمبائی والے بچے اور بچوں کی شرح اموات (پانچ سال سے کم عمر کے بچوں کی شرح اموات)۔ رپورٹ کے مطابق تو ہندوستان میں 17.3فیصد بچے لمبائی کے تناسب میں کم وزن کے مسئلہ سے نبردآزما ہیں اور یہ اعداد و شمار دنیا کے سبھی ممالک میں سب سے زیادہ ہیں۔ وہیں، 34.7فیصد بچے بونے پن کے شکار ہیں۔ حالاں کہ بچوں کی شرح اموات میں ہندوستان کی حالت اچھی بتائی گئی ہے۔ لیکن غذائیت کی سطح پر ہندوستان کی کافی تنقید ہوئی ہے۔
اگر بھکمری انڈیکس سے ہٹ کر بھی بات کریں تو ہندوستان کی حالت کوئی بہتر نہیں سمجھی جارہی ہے۔ گلوبل نیوٹریشن رپورٹ-2020کے دعوؤں پر یقین کریں تو ہندوستان دنیا کے ان 88ممالک میں شامل ہے جو اگلے چار سال یعنی 2025تک عالمی غذائیت کے اہداف کو حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکیں گے۔ یعنی بچوں میں کم وزن اور ان کی جسمانی نشوونما میں رکاوٹ جیسے تضادات سے ہمیں ابھی طویل عرصہ تک نبردآزما ہونا پڑے گا۔ اگر حکومت ہند کے نیشنل فیملی ہیلتھ سروے-5پر غور کریں تو ہندوستان میں بچوں میں تغذیہ کی کمی کی حالت سنگین ہے۔ نصف سے زیادہ ریاستوں میں بچوں میں بونے پن اور عمر کے ساتھ وزن میں کمی جیسے مسائل میں اضافہ ہوا ہے۔ حیران کن بات یہ ہے کہ یہ مسئلہ گجرات، مہاراشٹر، مغربی بنگال، تلنگانہ، آسام اور کیرالہ جیسی ریاستوں میں ہے۔ ظاہر ہے، حکومتیں بچوں کو ضرورت کے مطابق غذائیت سے بھرپور غذا مہیا کراپانے میں ناکام رہی ہیں۔ یہ المیہ ہی ہے کہ ہم خوراک اور دودھ کی پیداوار میں سرفہرست ہیں، سرکاری گوداموں میں اناج سڑرہا ہے، پھر بھی دنیا کے سب سے زیادہ تغذیہ کی کمی کے شکار بچے ہندوستان میں ہیں۔ حالاں کہ بچوں میں تغذیہ کی کمی کے مسئلہ سے نمٹنے کے لیے اسکولوں میں مڈڈے اور غذائیت کا ماہ جیسی کوششیں دیکھنے کو ملی ہیں۔ اب مڈڈے نیوٹریشن اسکیم کا نام تبدیل کرکے پردھان منتری پوشن شکتی نرمان(پی ایم-پوشن) رکھنے جیسی قواعد تغذیہ کی کمی سے نمٹنے کے لیے حکومت کی بے قراری کی تصدیق کرتی ہے۔
بھکمری جیسے انڈیکسوں میں پیچھے رہ جانے پر اپنی ناکامی چھپانے کے لیے حکومتوں میں اکثر بڑھتی آبادی کو قصوروار قرار دے کر بری الذمہ ہونے کا رجحان دیکھا جاتا ہے۔ ویسے بھی ملک کے کئی مسائل کا ٹھیکرا بڑھتی آبادی پر پھوڑ دیا جاتا ہے۔ لیکن اس بھکمری انڈیکس نے ان سبھی بے بنیاد دعوؤں کی پول کھول دی ہے۔ ابھی ہندوستان کی آبادی تقریباً ایک ارب 35کروڑ ہے، جب کہ چین کی آبادی تقریباً ایک ارب اکتالیس کروڑ۔ مگر دنیا کی سب سے بڑی آبادی والا یہ ملک اس انڈیکس میں سب سے بہتر مظاہرہ کرنے والے ممالک کی جماعت میں شامل ہے۔ چین کو سرفہرست 18ممالک میں جگہ ملی ہے۔ لیکن تشویش کی بات ہے کہ ہندوستان نیچے سے 18ممالک میں شامل ہے۔
ہندوستان میں بھوک کی سنگین صورت حال کے پیچھے وجہ فلاحی اسکیموں میں وسیع پیمانہ پر بدعنوانی اور خانہ پری جیسی دقتیں ہیں۔ 2018میں وزارت تعلیم(اس وقت ہیومن ریسورس ڈیولپمنٹ منسٹری) کی ایک رپورٹ سے پتاچلا کہ بہار اور اترپردیش میں تقریباً آدھے بچوں کو مڈڈے میل نہیں مل پاتا ہے۔ بہار میں پرائمری سطح پر 39فیصد اور اعلیٰ پرائمری اسکولوں میں 44فیصد، جب کہ اترپردیش میں بالترتیب 41اور 47فیصد بچے مڈڈے میل سے محروم رہ جاتے ہیں۔ قومی سطح پر بھی تقریباً آدھے بچوں کو مڈڈے میل نصیب نہیں ہونے کی بات کہی گئی۔
دراصل تغذیہ کی کمی کی اس خوفناک تصویر کو بدلنے کے لیے سنجیدہ کوششوں کی ضرورت ہے۔ مثلاً آئی سی ڈی ایس(غذائیت)، پی ڈی ایس(خوراک)، منریگا (روزگار) وغیرہ اسکیموں پر ٹھوس طریقہ سے عمل کی ضرورت ہے۔ تغذیہ کی کمی ایک پیچیدہ مسئلہ ہے اور اس کا راست تعلق تغذیہ کی کمی کے شکار بچوں کے کنبوں کی معاش سے بھی ہے۔ جب تک غریب کنبوں کے پاس معاش کا کوئی ذریعہ نہیں ہے، تب تک تغذیہ کی کمی کے مسئلہ سے لڑپانا ممکن نہیں ہے۔ لہٰذا تغذیہ کی کمی کی پہچان والے کنبوں کو پبلک ڈسٹری بیوشن سسٹم اور منریگا کے تحت سماجی تحفظ مہیا کرانا چاہیے۔ حکومت بھلے 80کروڑ لوگوں کو مفت اناج دینے کا دعویٰ کررہی ہو، لیکن اس کی جانچ ضروری ہے کہ واقعی میں یہ ضرورت مندوں تک پہنچ بھی رہا ہے یا نہیں۔ ایسی اسکیموں میں وسیع پیمانہ پر بدعنوانی کے سبب لوگوں تک اناج نہ پہنچنا کوئی نئی بات نہیں ہے۔ اسکولوں میں طلبا کی فرضی حاضری لگا کر ان کے نام پر مڈڈے میل کی رقم میں گول مال کی خبریں کوئی نئی بات نہیں ہیں۔ اس لیے اگر اسکولوں میں طلبا کا بایومیٹرک حاضری سسٹم نافذ کردیا جائے تو مڈڈے میل اسکیم میں بدعنوانی پر کافی حد تک لگام لگائی جاسکتی ہے۔ حالاں کہ کچھ ریاستوں میں اس کی شروعات بھی ہوچکی ہے۔ اس کے علاوہ غذائیت کی بحالی کے مراکز(nutritional rehabilitation centers) اور ہیلتھ سینٹرس کو مضبوط کرنے کے لیے صحت خدمات پر خرچ بڑھانے کی ضرورت ہے۔ ہندوستان صحت خدمات پر ابھی بھی اپنی جی ڈی پی کا محض 3فیصد ہی خرچ کرتا ہے، جب کہ امریکہ16.9فیصد، جرمنی11.2فیصد، جاپان 10.9فیصد خرچ کرتا ہے۔
تغذیہ کی کمی کے مسئلہ کا تعلق غریبی اور بے روزگاری جیسے مسائل سے بھی جڑا ہے۔ اگر لوگوں کو روزگار ملے، ان کی آمدنی میں اضافہ ہو تو اس سے معیار زندگی میں بہتری ہوگی۔ لوگ بچوں کو اچھی تعلیم بھی دے پائیں گے۔ کم عمر میں ہونے والی شادیوں کو روک کر بچوں کو تغذیہ کی کمی کا شکار ہونے سے بچایا جاسکے گا۔ ان طریقوں کے ساتھ ساتھ جو سب سے ضروری ہے، وہ یہ کہ تغذیہ کی کمی سے جنگ کے لیے حکومت مضبوط قوت ارادی کا مظاہرہ کرے۔ یہ قوت ارادی کی کمی کا ہی نتیجہ ہے کہ سب سے بڑی آبادی ہونے کے باوجود چین سرفہرست 20ممالک میں جگہ بنانے میں کامیاب ہوگیا اور ہم 100سے بھی نیچے ہیں۔
(بشکریہ: جن ستّا)