عمیرکوٹی ندوی
موجودہ حالات بڑی اہمیت کے حامل ہیں،ہر ایک کے لئے ہیں۔یہ کسی ملک ، علاقہ اور حدود سے تعلق نہیں رکھتے بلکہ حدود، خطہ ہی نہیں قوم ، زبان اور رنگ ونسل کی حد بندیوں سے بھی آزاد ہیں۔ زمانہ بڑی تیزی سے لوگوں کے درمیان گردش کر رہا ہے۔کسی کی قسمت پلٹ رہی ہے اور وہ عروج کی طرف جاتا دکھ رہا ہے تو کوئی اچانک زوال کی طرف جانے لگتا ہے۔ حالات کی گردش کو سماجی زندگی کے تمام شعبوں میں کھلی آنکھوں سے لوگ دیکھ رہے ہیں، ہرجگہ دیکھ رہے ہیں۔ لوگوں کی انفرادی زندگیاں تو حالات کے زیر اثر نشیب وفراز سے دوچار ہو ہی رہی ہیں،اجتماعی زندگیاں کہیں زیادہ تیزی سے اس کا شکار ہو رہی ہیں۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہ وقت کچھ ایسا ہی ہے جس کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ ’’یہ تو دن ہیں جن کو ہم لوگوں میں الٹ پھیر کرتے رہتے ہیں۔ اور یہ اس لئے ہوتا ہے کہ اللہ دیکھ لے کہ کون حقیقتاً مومن ہیں۔ اور وہ چاہتا ہے کہ تم میں سے ان لوگوںکو چھانٹ لے جو واقعی (راستی کے) گواہ ہیں۔ اللہ ظالموں کو پسند نہیں کرتا‘‘(آل عمران140-)۔ یہ اللہ کا طریقہ ہے کہ وہ انسانوں کے درمیان حالات میں الٹ پھیر کرتا رہتا ہے، کسی کی طاقت چھینتا ہے تو کسی کو طاقت دیتا ہے۔ کسی کو دئے گئے مواقع لے لیتا ہے تو کسی کو عمل کا موقع دیتا ہے۔کسی کو خوشیاں نصیب ہوتی ہیں تو کسی کی خوشیاں کافور ہوتی ہوئی نظر آتی ہیں۔ عروج وزوال انسانی زندگی کا حصہ ہے۔
ہاں یہ انسان ہی ہے جو عروج وزوال کو ہی حقیقی سمجھ لیتا ہے۔ عروج کی صورت میں وہ خود کو ہرقید وبند سے آزاد تصورکرنے لگتا ہے۔دولت ملتی ہے تو وہ خود کو دوسروں سے برتر سمجھ بیٹھتا ہے، لوگوں پر فخر کرتا ،اتراتا پھرتا ہے۔ تعنے وتشنے دیتا نہیں تھکتا ہے’’اور اسے خوب نفع حاصل ہوا یہ کچھ پاکر ایک دن وہ اپنے ہمسائے سے بات کرتے ہوئے بولا:میں تجھ سے زیادہ مالدار ہوں اور تجھ سے زیادہ طاقتور نفری رکھتا ہوں‘‘(الکہف34-)۔وہ اپنی اکڑ میں یہ تک سمجھ بیٹھتا ہے کہ’’میں نہیں سمجھتا کہ یہ دولت کبھی فنا ہوجائے گی‘‘ (الکہف35-)۔ وہ بھول جاتا ہے کہ اس کے اترانے، تعنے وتشنے کرنے اور دوسروں کا دل دکھا کر تکلیف پہنچانے کے نتیجہ میں انسانوں کا پیدا کرنے والا کتنی سخت گرفت کرتا ہے۔’’ہوا یہ کہ اس کا سارا ثمرہ(پھل) مارا گیا اور وہ اپنے انگوروں کے باغ کو ٹٹیوں پر الٹا پڑا دیکھ کر اپنی لگائی ہوئی لاگت پر ہاتھ ملتا رہ گیا‘‘(الکہف42-)۔’’نہ ہوا اللہ کو چھوڑ کر اس کے پاس کوئی جتھا کہ اس کی مدد کرتا، اور نہ کرسکا وہ آپ ہی اس آفت کا مقابلہ‘‘(الکہف43-)۔ طاقت ہاتھ آجاتی ہے تو اس کی چال بدل جاتی ہے، وہ زمین پر اکڑتا پھرتا ہے، اپنے ہی جیسے لوگوں پر چڑھ دوڑتا ہے، ان کی سانس تک روک دینا چاہتا ہے۔طاقت، جاہ ومنصب ، دولت وشہرت کسی بھی قسم کا اختیار اور بالادستی انسان کے مزاج کو بگاڑ کر رکھ دیتی ہے۔ ایک انسان دوسرے انسان کو ہمیشہ ہمیش کے لئے اپنے زیر دست رکھنے کی کوشش میں اپنی توانائی صرف کرتا ہے۔ حالانکہ انسانوں کے خالق نے اپنے بندوں میں سے کچھ کو جن نعمتوں اور وسائل سے نوازا ہے اس کا تقاضہ ہرگز ہرگز یہ نہیں ہے کہ وہ ان کا منفی استعمال کریں لیکن عموماً عملاہو یہی رہا ہے۔
ایسی صورت میں ’الٹ پھیر‘ کا اللہ کا قانون حرکت میں آتا ہے۔ اگریہ الٰہی قانون حرکت میں نہ آئے تو دنیا ظلم وجور سے بھر جائے، زبر دست ہمیشہ ز بردست اور زیر دست ہمیشہ زیردست رہے۔اگر دنیا میں یہی ہوتا رہے تو پھر اللہ کے نظام انصاف کا تقاضہ کیوں کر پورا ہو سکتا ہے۔ اس تقاضہ کی تکمیل کے لئے ضروری ہے کہ اللہ کی ’الٹ پھیر‘ کی سنت دنیا میں جاری ہو اور اس تعلق سے قانون الٰہی حرکت میں آئے ۔جب یہ سنت جاری ہوتی ہے اور قانون حرکت میں آتا ہے تو پھر ظلم وزیادتی اور استحصال و لوٹ گھسوٹ پر مبنی انسانوں کے بنائے نظام اور روش کو تہہ وبالا کرکے رکھ دیتا ہے۔ اس وقت دنیا کھلی آنکھوں دیکھ رہی ہے کہ یہ قانون کس تیزی کے ساتھ حرکت کر رہا ہے۔اسے دیکھ کرانسانی عقلوں کی چولیں ہل رہی ہیں۔ دنیا حیرت زدہ ہے کہ کس طرح انسان کے اپنے بنائے وسائل بے اثر ہو جاتے ہیں، کوشش کے باوجودجسے دبایا جارہا تھاوہ اٹھ کھڑا ہوتا ہے۔ جسے حقیر جان کر نظر انداز کیا گیا اور کچلا گیا وہ بیش قیمت بن گیا۔ یہ کسی ایک خطہ اور علاقہ تک محدود نہیں ہے ، لوگ پوری دنیا میں ہر کہیں یہی منظر دیکھ رہے ہیں۔ دنیا میں اللہ کی یہ سنت اجتماعی طور پر بھی جاری ہوتی ہے اور انفرادی طور پر بھی، یہ قانون ملک، علاقہ، خطہ ، چھوٹی بڑی آبادی پر بھی نافذ ہوتا ہے اور لوگوں کی فرداً فرداً زندگی پر بھی نافذ ہوتا ہے۔ اس کے نتیجہ میں اپنے پیدا کرنے والے کی نافرمانی کرنے والے اور اپنے ہی جیسے لوگوں کو اپنی غلامی میں لینے پر آمادہ لوگ اللہ کے غضب کا نشانہ بن رہے ہیں۔ اس سے بھی اہم بات یہ ہے کہ ایسے لوگ دوسروں کے لئے عبرت کا سامان بن رہے ہیں لیکن انسان ہے کہ وہ عبرت حاصل کرنے کو تیار نہیں ہے۔
یہ سمجھنا ہوگا کہ اللہ کا ’الٹ پھیر‘ کاقانون اس وقت حرکت میں آچکا ہے اور یقینی طور پر وہ اپنے انجام کو پہنچ کر ہی رکے گا۔حالات کا سخت سے سخت تر ہوتے چلے جانا، ایک ایک کرکے ہر اس تکیہ کا کھینچ لیا جانا جس کا اپنے پاس قرآن مجید رکھنے والے لوگ سہارا لئے بیٹھے تھے، اس کا واضح ثبوت ہے۔ کل تک خواب خرگوش میں مبتلا یہ لوگ اپنی بڑی تعداد پر فخر کرتے ہوئے بے فکر ہوئے پھرتے تھے، پر اب عقل مندوں کے ہوش اڑے جارہے ہیں۔۔
دنیا عبرت حاصل کرے نہ کرے ، وہ لوگ جن کے پاس اپنے پیدا کرنے والے کی طرف سے عطا کردہ ہدایت نامہ قرآن مجید ہے وہ اللہ کی اس سنت اور قانون کے اولین مخاطب ہیں ۔ انہیں موجودہ حالات کے تناظر میں اس پہلو پر لازمی طور پر غور کرنے کی ضرورت ہے ۔ انہیں یہ سمجھنا ہوگا کہ اللہ کا ’الٹ پھیر‘ کاقانون اس وقت حرکت میں آچکا ہے اور یقینی طور پر وہ اپنے انجام کو پہنچ کر ہی رکے گا۔حالات کا سخت سے سخت تر ہوتے چلے جانا، ایک ایک کرکے ہر اس تکیہ کا کھینچ لیا جانا جس کا اپنے پاس قرآن مجید رکھنے والے لوگ سہارا لئے بیٹھے تھے، اس کا واضح ثبوت ہے۔ کل تک خواب خرگوش میں مبتلا یہ لوگ اپنی بڑی تعداد پر فخر کرتے ہوئے بے فکر ہوئے پھرتے تھے، پر اب عقل مندوں کے ہوش اڑے جارہے ہیں پر بے عقلے ابھی بھی اپنی ہی دنیا میں مست ہیں اور وہی لااوبالی روش پر بڑھے چلے جارہے ہیں۔ ’الٹ پھیر‘ کے اللہ کے قانون کا یہ پہلو’’ کون حقیقتاً مومن ہیں۔ اور وہ چاہتا ہے کہ تم میں سے ان لوگوںکو چھانٹ لے جو واقعی (راستی کے) گواہ ہیں۔ اللہ ظالموں کو پسند نہیں کرتا‘‘یقینا ان لوگوں کی توجہ چاہتا ہے جو خود کو ایمان والے اور مسلمان کہتے نہیں تھکتے۔یہاں انہیں تین قسموں میں بانٹا جارہا ہے۔ عمومی طور پر اہل ایمان کا زمرہ۔ ان میں سے کام کے یعنی اعلا پائے کے لوگوں کا زمرہ جنہیں اللہ عظیم کام کے لئے چن لیتا ہے ۔اور تیسرا وہ زمرہ جسے اللہ پسند نہیں کرتا ۔ حالات اہل ایمان سے تقاضہ کررہے ہیں کہ وہ خود اپنا جائزہ لیں ، دیکھیں کہ وہ اپنی ایمانی کیفیت، درجہ، عمل، افکار ونظریات، تصورات وخیالات، عزائم وترجیحات کی بنیاد پر کہاں ہیں۔ خدا نہ خواستہ کہیں رفتہ رفتہ وہ غیرشعوری طور پر اس زمرہ کا حصہ تو نہیں بن رہے ہیں یا بن گئے ہیں جنہیں اللہ ’’پسند نہیں کرتا‘‘۔ یاد رکھیں جسے اللہ پسند نہ کرے اسے ’الٹ پھیر‘ کا اللہ کا قانون بخشتا نہیں ہے ،فنا سے اس کی ملاقات کرا دیتا ہے۔ اس لئے کہ اللہ کا ایک قانون قوم کے بدلنے یعنی ایک قوم کو بدل کر اس کی جگہ دوسری قوم کے لانے کا بھی ہے اور ’الٹ پھیر‘ کے قانون کے ساتھ ساتھ وہ بھی دنیا میں جاری رہتا ہے۔اس وقت دنیا میں اس قانون کے بھی جاری ہونے کا مشاہدہ لوگ کھلی آنکھوں کر رہے ہیں۔ اس لئے اہل ایمان کے لئے ضروری ہے کہ وہ پہلے زمرہ سے دوسرے زمرے میں خود کو منتقل کرنے کی کوشش کریں جسے اللہ عظیم کام کے لئے چن لیتا ہے۔ورنہ تیسرا زمرہ تو یقینی طور پر فنا کی طرف جاتا ہے اور یہ اللہ کی سنت ہے۔ اعلا پائے کے لوگ جنہیں اللہ عظیم کام کے لئے چن لیتا ہے، تو جو لوگ اس زمرہ میں شامل ہونے کی کوشش کرتے ہیں وہ حالات سے گھبراتے نہیں ہیں ،اس لئے کہ ان کے لئے تو یہ خوش خبری ہے کہ ’’غم نہ کرو!اللہ ہمارے ساتھ ہے‘‘(التوبہ40-)۔
q qq