وجے پرکاش سریواستو
ملک کا شیئربازار مسلسل نئی اونچائیاں چھو رہا ہے۔ کوئی بھی اگر شیئروں کی آج کی قیمتوں کا موازنہ ایک ماہ پہلے کی قیمتوں سے کرے تو متحیر ہوجانا فطری ہے۔ اب بہت سے لوگ افسوس کررہے ہوں گے کہ وہ شیئر بازار سے اب تک دور کیوں رہے۔ افسوس کرنے والے دوسرے طبقہ میں وہ لوگ بھی ہیں جو شیئروں میں سرمایہ کاری کرتے رہے ہیں لیکن جنہوں نے بازار چڑھنے کے اس دور میں نئی خریداری یہ سوچ کر نہیں کی کیوں کہ انہیں لگ رہا ہوگا کہ شیئر مہنگے ہوچکے ہیں اور خریدنے کے بعد قیمتیں کہیں کم نہ ہوجائیں۔ وہ جو سوچ رہے تھے، ہوا اس کے برعکس۔ جس 500روپے کے شیئر کو خریدنے میں لوگ جھجھک رہ تھے، وہی ہزار روپے سے بھی اوپر نکل گیا۔ بی ایس ای انڈیکس اب 60ہزار کے اوپر ہے جو لاک ڈاؤن کے وقت 26ہزار سے نیچے آگیا تھا۔ اس دور میں جن لوگوں نے خطرہ مول لے کر منتخب شیئروں میں خریداری کرلی تھی، انہیں کس طرح کا فائدہ ہوا ہوگا، اس کا اندازہ آسانی سے لگایا جاسکتا ہے۔
یہ تو طے تھا کہ جیسے جیسے کورونا بحران کم ہوگا اور عام حالات بحال ہوں گے، ان کا اثر شیئر بازار پر بھی نظر آئے گا۔ لیکن کسی کو یہ بھی امید نہیں تھی کہ بازار میں اس طرح کا اُچھال آسکتا ہے۔ اس لیے اب ایسے خدشات بھی ظاہر کیے جانے لگے ہیں کہ یہ تیزی کتنے دن رہ پائے گی۔ کہیں بازار میں اب زبردست کمی کا دور تو نہیں آنے والا ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ بازار نے اِدھر گراوٹ کے دن نہیں دیکھے۔ کئی مرتبہ جب کمی آنی شروع ہوئی تو یہ کئی دنوں تک حاوی رہی اور تجزیہ کاروں کو محسوس ہوا کہ بازار اب گراوٹ کے دور میں جارہا ہے۔ لیکن دو-چار دن بعد ہی تیزی واپس لوٹ آئی اور بازار پھر اونچائیاں چھونے لگا۔
یہ سوال اٹھنا فطری ہے کہ شیئر بازار میں اس طرح کی تیزی کا رُخ کیوں قائم ہے؟ ایک جواب تو اس میں مخفی ہے کہ کورونا کے اعدادوشمار کم ہورہے ہیں، بازار کھل گئے ہیں اور صنعتی سرگرمیاں پرانی سطح پر لوٹ رہی ہیں۔ اسی سے وابستہ یہ بھی حقائق ہیں کہ ملک کی بڑی آبادی کو کورونا سے حفاظتی ٹیکہ لگ چکا ہے۔ پھر معیشت کے محاذ پر بھی اچھی خبریں آرہی ہیں۔ بے روزگاری کے اعداد و شمار میں کمی آئی ہے۔ عالمی ریٹنگ ایجنسی موڈیز نے ہندوستان کی ساورین ریٹنگ منفی سے تبدیل کرکے مستحکم کرنے کا اعلان کیا اور امید ظاہر کی جارہی ہے کہ وسط مدت میں ہندوستان کی مجموی ملکی پیداوار (جی ڈی پی) کی شرح نمو اوسطاً 6فیصد کے آس پاس رہے گی۔ یہ اشارے ملک اور اس کی معیشت کے لیے سازگار ہوسکتے ہیں لیکن اتنے بھی نہیں کہ کچھ ہفتوں میں کچھ کمپنیوں کے شیئروں کی قیمتیں200سے 400یا2ہزار سے 4ہزار ہوجائیں۔ انڈین شیئر مارکیٹ کے تعلق سے اس وقت دو طرح کی قیاس آرائیاں کی جارہی ہیں۔ ایک تو یہ کہ موجودہ اضافہ ٹکنے والا نہیں ہے اور دوسری یہ کہ بازار ابھی اور اٹھ کر نئی اونچائیوں کو چھوئے گا۔ بعد والے امکانات کو دیکھنے والے نسبتاً زیادہ ہیں۔
شیئر بازار میں سرمایہ کاری مختلف نقطہ نظر سے کیے جانے کے امکانات موجود ہیں۔ جیسے لوگ شیئروں میں تھوڑے وقت کے لیے سودا کرتے ہیں، مطلب شیئر کو اپنے پاس زیادہ وقت تک نہیں رکھتے۔ ایک ہی دن کے اندر شیئروں کی خرید و فروخت کرنے والوں کا بھی ایک طبقہ ہے۔ جب کہ طویل مدتی نقطہ نظر میں شیئر لمبی مدت کے لیے خریدے جاتے ہیں جو ایک دہائی سے بھی زیادہ کی ہوسکتی ہے۔ کوئی کتنے وقت کے لیے سرمایہ کاری کرتا ہے، یہ اس کی پسند اور حکمت عملی پر منحصر ہے۔ لیکن کسی بھی شیئر یا مقررہ مدت کے لیے سرمایہ کاری کرتے وقت اس سے وابستہ خطرات(رِسک) کو ذہن میں رکھنا ضروری سمجھا جاتا ہے۔ بازار میں روزانہ اُتار چڑھاؤ ہوتے رہتے ہیں۔ ایک طبقہ انہی کے درمیان فائدہ کمانے کی کوشش کرتا ہے تو دوسرا طبقہ ان تبدیلیوں کی پروا نہیں کرتا کیوں کہ اس طبقہ کی امیدیں مستقبل پر منحصر ہوتی ہیں۔
سرمایہ کاری کی زبان میں جوکھم(رِسک) لفظ کا ذکر بارہا آتا ہے۔ مختلف اکنامی کلاس کے لیے رِسک بھی کم یا زیادہ ہوا کرتا ہے۔ ایلیٹ کلاس میں زمین جائیدار، سونا-چاندی، فکسڈ ڈپازٹ، میوچوئل فنڈ، شیئر وغیرہ کو شامل کیا جاتا ہے۔ مختلف ایلیٹ کلاس طبقات کا موازنہ کریں تو سب سے زیادہ خطرہ شیئروں میں سرمایہ کاری سے جڑا ہے، لیکن سب سے زیادہ فائدہ کے امکانات بھی شیئر بازار میں نظر آتے ہیں۔ شیئر بازار کے کئی ماہرین کہہ رہے ہیں کہ ایک وقت کے بعد انڈیکس لاکھ کے اعداد و شمار کو بھی چھو لے گا۔ جن لوگوں کو اس میں شبہ نظر آتا ہو انہیں وہ یاد دلاتے ہیں کہ کبھی انڈیکس ہزار پر ہوا کرتا تھا اور آج کہاں ہے۔
شیئر بازار کی مستقبل کی کارکردگی سے متعلق یقینی طور پر کچھ بھی کہہ پانا مشکل ہوتا ہے۔ بازار کا تکنیکی تجزیہ اس میں کچھ مدد ضرور کرسکتا ہے، لیکن ان تجزیات کی بنیاد پر کی گئی پیشین گوئی ہمیشہ سٹیک ثابت ہوگی، یہ نہیں کہا جاسکتا۔ اس لیے جو لوگ رِسک نہیں لینا چاہتے، شیئر بازار ان کے لیے نہیں ہے۔ جو لوگ شیئر بازار کی بڑھتی چال کو دیکھ کر اس میں اینٹری کرنا چاہتے ہیں، انہیں بازار کے رُخ کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ افہام و تفہیم میں اضافہ کے لیے اطلاعات کی کمی نہیں ہے۔ فائنانشیل نیوزپیپرس اور میگزین ہیں، معاشی خبروں کے چینل ہیں، دیگر ذرائع بھی ہیں۔ ہاں، لیکن معلومات صرف مستند ذرائع سے ہی حاصل کی جانی چاہیے۔ بھلے ہی آپ بڑی سرمایہ کاری کرنے کے قابل ہوں، تو بھی تھوڑی تھوڑی کرکے ہی سرمایہ کاری کریں۔ ایسی کمپنیوں میں سرمایہ کاری کو ترجیح دیں جو طویل عرصہ سے بازار میں ہیں اور جن کے پروڈکٹس یا سروسز کی ڈیمانڈ میں تسلسل ہے۔ جس شیئر میں آپ نے پیسہ لگایا ہو اس کی قیمت میں تھوڑی کمی آجائے یا قیمت میں اضافہ بھی ہوجائے تو اس سے نکلنے کی نہ سوچنے لگیں۔ اس طرح کی تبدیلیاں تو روزمرہ کی بنیاد پر ہوتی ہی رہیں گی۔ اپنے سرمایہ کاری کو تھوڑا وقت دیں۔ شیئروں سے صرف ان کی قیمتوں میں اضافہ کی امید نہیں کی جاتی۔ منافع کمانے والی زیادہ تر کمپنیاں اپنے شیئروں پر منافع بھی دیتی ہیں۔ ایسی کئی کمپنیاں ہیں جن کے ذریعہ دیا جانے والا منافع اس وقت بینکوں میں سیونگ یا فکسڈڈپازٹس پر ملنے والے سود سے زیادہ ہے اور ان میں سے کئی سرکاری کمپنیاں ہیں۔ ایک طرف ایسے شیئر ہیں جن کی قیمت ان کی واجب قیمت سے کہیں زیادہ ہے تو دوسری طرف ایسے بھی شیئر ہیں جو اپنی واجب قیمت سے کم پر مل رہے ہیں۔ ظاہر ہے نئے سرمایہ کاروں کو شروعات بعد والے شیئروں سے کرنی چاہیے۔
بازار گرتا ہے تو سنبھلتا بھی ہے۔ بازار میں بہت زبردست گراوٹ 2008میں بھی آئی تھی اور 2020 میں بھی۔ لیکن بازار دونوں گراوٹوں سے اُبھرا اور اچھی طرح اُبھرا۔ پورے شیئر بازار کا مظاہرہ معیشت کے مظاہرہ سے وابستہ ہوتا ہے۔ مستقبل قریب میں ہندوستانی معیشت میں کوئی کرشماتی تبدیلی ہونے کی امید نہیں ہے، تو قیاس اور یہ صرف قیاس ہے کہ اگر بازار بہت زیادہ بڑھے نہیں، تو بہت زیادہ گرے گا بھی نہیں۔ خریدنے کے لیے گراوٹ کا موقع صحیح سمجھا جاتا ہے۔ لہٰذا نئے یا پرانے سبھی سرمایہ کار گراوٹ کا استعمال اپنا شیئر گروپ بنانے یا اس میں توسیع کے لیے کرسکتے ہیں۔ یہ خرید کمپنی کو دیکھ کر کی جانی چاہیے، نہ کہ صرف بڑھتے انڈیکس کو دیکھ کر۔
(بشکریہ: جن ستّا)