مذہبی شدت پسندی کا وسیع ہوتا دائرہ

0

بنگلہ دیش میں قرآن پاک کی مبینہ بے حرمتی کی افواہ کے بعد ہوئے تشدد میں 3لوگوں کی جان چلی گئی اور 2لوگ شدید طور پر زخمی ہوگئے۔ مہلوکین کی تعداد سے اس واقعہ کے معنوں کو جوڑنا بڑی غلطی ہوسکتی ہے کیوں کہ تعداد چھوٹی ہے اور معنی کافی بڑے ہیں۔ واقعہ کے تجزیہ سے پتا چلتا ہے کہ جائے وقوع پر دُرگا پوجا کا ایک پنڈال تھا اور تشدد پھیلانے کا ’ہتھیار‘ بنی ایک فیس بک پوسٹ۔ جس جگہ یہ واردات ہوئی، وہاں مسلم طبقہ برسوں سے دُرگا پوجا میں حصہ لیتا آیا ہے اور اسی لیے پنڈالوں میں کسی پہریداری کی ضرورت نہیں پڑتی۔ اسی اعتماد میں نقب لگاکر ایک پنڈال میں چپکے سے قرآن پاک رکھا گیا اور پھر اس کی تصویر دیکھتے ہی دیکھتے سوشل میڈیا پر وائرل کردی گئی جس کے بعد شدت پسندوں نے بنگلہ دیش میں کئی دُرگا پنڈالوں اور سیکڑوں اقلیتی ہندو خاندانوں کو اپنے نشانہ پر لے لیا۔ اس کے بعد جمعہ کو نماز کے بعد ہندوؤں کے خلاف تشدد کی آگ نوآکھلی میں بھڑکی، جہاں کے اسکان مندر کے دو سادھوؤں کو قتل کردیا گیا۔ نوآکھلی وہی جگہ ہے، جہاں مہاتماگاندھی اس وقت بھی ہندو-مسلم فسادات کو کنٹرول کرنے کی کوشش کررہے تھے، جب باقی ملک آزادی کا جشن منارہا تھا۔ تازہ حالات یہ ہیں کہ بنگلہ دیش میں ہندو اب خود کو غیرمحفوظ محسوس کررہے ہیں اور ہندو-مسلم بھائی-بھائی کا نعرہ بلند کرنے والے بھی تسلیم کررہے ہیں کہ بنگلہ دیش میں اب فضا تبدیل ہوگئی ہے۔ ہندوستان کے مشرقی پڑوسی ملک میں شدت پسند نظریہ تیزی سے پروان چڑھ رہا ہے جس کے سبب بنگلہ دیش چھوڑ کر ہندوستان میں پناہ لینے والے ہندوؤں کی تعداد ہر سال بڑھتی جارہی ہے۔
بنگلہ دیش سے 7ہزار سے زیادہ کلومیٹر دور آباد ناروے میں بھی شدت پسندی کے تیر سے انسانیت زخمی ہوئی ہے۔ واقعہ کا تعلق ملک کی راجدھانی اوسلو کے جنوب-مغربی شہر کونسبرگ سے ہے، جہاں ڈینش نژاد ایک سرپھرے نے تیر-دھنش سے حملہ کرکے پانچ لوگوں کی جان لے لی۔ اس سے پوچھ گچھ کے بعد ناروے کی پولیس نے سرکاری بیان جاری کیا ہے کہ ملزم نے کچھ دن قبل ہی اپنا مذہب تبدیل کرکے اسلام کو اپنایا ہے اور وہ شدت پسندی سے متاثر نظر آتا ہے۔
محض ان دو واقعات کی بنیاد پر کوئی نظریہ قائم کرنا غلط ہوگا لیکن پلٹ کر دیکھا جائے تو یہ واقعات اچانک نہیں، بلکہ ایک طویل سلسلہ کی کڑیاں جوڑتے نظر آتے ہیں۔ سال2016میں بنگلہ دیش کی ہی راجدھانی ڈھاکہ کے گلشن ریسٹورنٹ میں آئی ایس کا قہر ٹوٹا تھا، جب دہشت گردوں نے 20غیرمسلموں کو موت کے گھاٹ اُتار دیا تھا۔ اس کے اگلے ہی سال کینیا کی راجدھانی نیروبی میں دہشت گرد تنظیم الشاداب نے ایک مال میں شناختی کارڈ کی بنیاد پر 59غیرمسلموں کو قتل کردیا تھا۔ عراق، شام، پاکستان اور افغانستان میں اس طرح کے کئی واقعات ہوچکے ہیں۔ ابھی گزشتہ ہفتہ ہی سری نگر میں بھی اسی طرح کی دو مختلف وارداتوں میں پانچ غیرمسلموں کو چن چن کر مار ڈالا گیا۔
موت کا یہ رقص ایک خاص طرح کے نظریہ سے متاثر نظر آتا ہے۔ ہر معاملہ میں اسلامک شدت پسندی کی واضح چھاپ اور زمین سے غیراسلام کا وجود مٹانے والی زہریلی سوچ کا اثر ہے۔ بیشک توسیع پسندی کا جذبہ دوسرے مذاہب میں بھی نظر آتا ہے، لیکن ’دیگر مذاہب کے پیروکاروں‘ کے صفائے کا جنون شاذونادر ہی سامنے آتا ہے۔ کئی اسلامی ممالک میں تو جہاد کے نام پر مسلمان کسی دوسرے مذہب کے نہیں، بلکہ اپنی قوم کے ہی دشمن بنے ہوئے ہیں۔ شیعہ-سنی، وہابی-سلفی کے درمیان کھنچی تلواروں کے ساتھ ہی جو مسلمان اسلام میں اصلاح کی وکالت کرتا ہے، وہ بھی شدت پسندوں کے نشانہ پر آجاتا ہے۔ دیگر معاملات میں بھی دیکھا جائے تو پوری دنیا میں اسلام کا کسی نہ کسی دوسرے مذہب سے تنازع چل رہا ہے۔ یوروپ عیسائیوں کے خلاف مذہبی جنگ کا اکھاڑہ بنا ہوا ہے تو فلسطین میں یہودیوں سے جنگ جاری ہے۔ پاکستان اور بنگلہ دیش میں ہندوؤں کی مخالفت ہے تو میانمار اور تھائی لینڈ میں بودھ دھرم کے خلاف جہاد چل رہا ہے۔
افغانستان پر طالبان کے قبضہ سے اس جنون کو پنکھ لگنے کا خطرہ مزید بڑھ گیا ہے۔ پوری دنیا میں پھیلی دہشت گرد تنظیموں کو محسوس ہونے لگا ہے کہ اگر طالبان کی اسلامک شدت پسندی کی ’ضد‘ امریکہ جیسے دنیا کے سب سے بڑے سپرپاور کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کرسکتی ہے تو پھر دوسرے کسی ملک کی کیا حیثیت ہے۔یہ ’انسپریشن‘ آگے چل کر دنیا کو ایسے موڑ پر لاکھڑا کرسکتی ہے جہاں مذہبی شدت پسندی اور دہشت گردی میں فرق کرنا بھی مشکل ہوسکتا ہے۔ یہ کوئی خلائی تصور نہیں ہے کیوں کہ تاریخ گواہ ہے کہ جہاں شدت پسندی کو تقویت ملتی ہے، واں دہشت گردی کی فصل خوب لہلہاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ گزشتہ ماہ شنگھائی کوآپریشن آرگنائزیشن کے اکیسویں سربراہی اجلاس میں وزیراعظم نریندر مودی نے بھی دہشت گردی اور مذہبی شدت پسندی کو ترازو کے ایک ہی پلڑے پر رکھتے ہوئے اس سے مقابلہ کے لیے ایک مساوی حکمت عملی بنانے کی ہی صلاح دی تھی۔
شدت پسندی کو انتہاپسندی میں بدلنے سے روکنے کے لیے فرانس کے صدر ایمینوئل میکرون نے تقریباً اسی راہ پر چلتے ہوئے اپنے ملک میں اینٹی علیحدگی پسندقانون نافذ کرکے پورے یوروپ کے غصہ کو قانونی شکل دے دی ہے۔ اس قانون میں مسجدوں کی فنڈنگ، اماموں کی ٹریننگ، شدت پسندی میں اضافہ کرنے والی مذہبی تعلیم، کثرت ازدواج اور جبراً شادی پر پابندی کے ساتھ ہی مسجدوں کو صرف مذہبی مقام بنانے اور مسلم بچوں کو تعلیم کے لیے اسکول بھیجنے سمیت ایسے کئی التزامات شامل کیے گئے ہیں، جنہیں فرانس حکومت اپنے ملک کے سیکولر ڈھانچہ کے لیے چیلنج سمجھتی ہے۔ کچھ وقت قبل ہماری وزارت داخلہ نے بھی ملک میں شدت پسندی کی صورت حال سے متعلق ایک ریسرچ اسٹڈی کو منظوری دی ہے۔
ویسے مذہبی شدت پسندی سے متعلق طویل عرصہ سے ایک سوچ یہ بھی قائم ہے کہ اس کا حل اسی نظریہ میں ہے جس کی یہ پیداوار ہے۔ اس سوچ کے مطابق جس طرح جہاد کی کامیابی کے لیے ہتھیاروں یا زورزبردستی پر بھروسہ کرنا بے وقوفی ہے، اسی طرح اس نظریہ سے نمٹنے کے لیے طاقت کا راستہ اپنا بھی بیکار ہے۔ اس سے معاشرہ میں پھیلی ایک شدت پسندی کے جواب میں دوسری شدت پسندی میں اضافہ ہوتا ہے جس سے حل نکلنے کے بجائے ٹکراؤ مزید بڑھ جاتا ہے۔ اس لیے شدت پسندی اور انتہا پسندانہ سوچ کے خیال کی سطح پر ہی مقابلہ زیادہ معنی خیز اور نتیجہ خیز ہوسکتا ہے۔
بڑھتی مذہبی شدت پسندی کے درمیان غور کرنے والی ایک بات یہ بھی ہے کہ لوگ اب شدت پسندی سے باہر بھی آرہے ہیں۔ پیوریسرچ کا ہندوستان میں ہی گزشتہ سال کیا گیا ایک سروے بتاتا ہے کہ اس میں شامل 97فیصد لوگوں نے ایشور کے وجود میں یقین کا اظہار کیا ہے، لیکن بودھ مذہب ایک استثنیٰ کی طرح سامنے آیا ہے جس کے ایک تہائی پیروکار کسی ’قادر مطلق طاقت‘ میں یقین نہیں رکھتے ہیں۔ اس سے بھی زیادہ دلچسپ بات یہ ہے کہ سروے میں شامل تقریباً 6فیصد مسلمانوں نے بھی خدا کی حکومت میں یقین نہ رکھنے کی بات کہی ہے۔ یہ اس لیے بڑی بات ہے، کیوں کہ دوسرے مذاہب کی طرح اسلام میں اس طرح کھل کر اپنی مذہبی رائے ظاہر کرنے کے اپنے خطرے ہوتے ہیں اور اسے آسانی سے توہین مذہب کے دائرہ میں لایا جاسکتا ہے۔ ویسے مثالی صورت حال تو یہی ہے کہ مذہب کو شخص کی پسند ناپسند کا ٹاپک رہنے دیا جائے، لیکن جب یہ تعصب کی شکل لے کر بڑے پیمانہ پر معاشرہ اور دنیا کے لیے چیلنج بننے لگے تو ذاتی مذہب سے اوپر اُٹھ کر معاشرہ اور دنیا کے تحفظ کے عالمی مذہب پر عمل ضروری ہوجاتا ہے۔ دنیا آج جس موڑ پر کھڑی ہے، وہاں خیالات سے خیالات کی اس جنگ میں مثبت مذہبی سوچ رکھنے والے ہر شخص، ہر معاشرہ، ہر قوم کی ذمہ داری میں اضافہ ہوگیا ہے۔
(کالم نگار سہارا نیوز نیٹ ورک کے
سی ای او اور ایڈیٹر اِن چیف ہیں)

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS