ویکسین سے نونہالوںکا تحفظ

جلدبازی سے بچنا ہوگا۔ جوکھم والے بچوں کی ٹیکہ کاری سے جو اعداد و شمار نکل کر سامنے آئیں گے، اسی کی بنیاد پر فیصلہ لینا مناسب ہوگا

0

چندر کانت لہاریا

کووڈ-19سے تحفظ میں ٹیکوں کا اہم رول ہے، لیکن اب تک دستیاب زیادہ تر ٹیکوں کو بالغ عمر کے گروپ کے لیے ہی ایمرجنسی استعمال کی اجازت ملی ہے۔ ویسے کچھ ممالک میں 12سے 17سال کے ایج گروپ میں زیادہ خطرے والے نوعمروں کی ٹیکہ کاری شروع ہوگئی ہے اور اسی سلسلہ میں منگل کو ہندوستان میں سی ڈی ایس سی او کی سبجیکٹ ایکسپرٹ کمیٹی نے ہندوستان بایوٹیک کی ’کو ویکسین‘ کو بھی دو سے 17سال تک کے بچوں و نوعمروں میں استعمال کرنے کیلئے منظور کرنے کی سفارش کی ہے۔ حالاں کہ تادم تحریر ڈرگس کنٹرولر جنرل آف انڈیا(ڈی سی جی آئی) کی منظوری نہیں ملی تھی۔ مگر اس سے پہلے اگست میں جائڈس کیڈیلا کے ذریعہ بنائی گئی ’جائے کوو-ڈی‘ویکسین کو 12سے 17سال کے ایج گروپ کے لیے ڈی سی جی آئی ایمرجنسی استعمال کے لیے منظور کرچکا ہے۔ ساتھ ہی دو دیگر ٹیکوں ’کووہ ویکس‘ اور ’کوربی ویکس‘ کی بھی بچوں میں ٹیسٹنگ ہورہی ہیں۔
ان خبروں سے کئی سرپرست پرجوش ہیں کہ اب بچوں کو بھی ٹیکے لگنے شروع ہوجائیں گے۔ مگر کیا واقعی بچوں کو کووڈ-19ٹیکے کی ضرورت ہے، اس پر سبھی پہلوؤں سے اور سائنسی بنیاد پر غور کرنا ہوگا۔ پہلی بات، کسی ٹیکہ کو ملک میں ’ٹیسٹنگ اور منظوری‘ اور پھر اس کے بعد کسی بھی ایج گروپ کے لیے ’استعمال کی سفارش اور شروعات‘ دو مختلف طریق کار ہیں۔ کون سی ویکسین کس ایج گروپ کے لیے جانچی پرکھی جائے، یہ فیصلہ اس بات پر منحصر کرتا ہے کہ اس بیماری سے کس ایج گروپ کے لوگ متاثر ہوتے ہیں۔
بلاشبہ، کورونا نے سبھی ایج گروپ کو مساوی طور پر متاثر کیا ہے، اس لیے کووڈ-19کے ٹیکوں کی بچوں میں بھی ٹیسٹنگ ایک عام عمل ہے۔ اگر ٹرائل میں ٹیکے، طے معیارات پر محفوظ اور مؤثر پائے جاتے ہیں تو انہیں اس ملک میں منظوری دے دی جاتی ہے۔ مگر کسی ویکسین کو ملک میں اجازت ملنے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اس ایج گروپ کو ٹیکے لگنے شروع ہی ہوجائیں۔ سال 2011میں جاری ہندوستان کی قومی ٹیکہ کاری پالیسی میں یہ بتایا گیا ہے کہ کسی بھی ٹیکہ کی سفارش سے پہلے کس طرح کے معیار پر عمل کیا جانا چاہیے۔ جیسے کس ایج گروپ کو بیماری ہورہی ہے، ٹیکہ کتنا تحفظ فراہم کرے گا اور ٹیکے لگانے کے فائدے اور خطروں پر غور وخوض وغیرہ۔ یہ پالیسی ٹیکہ کاری میں کسے ترجیح ملنی چاہیے، اس پوائنٹ پر بھی مشورے دیتی ہے۔
ویکسین کو منظوری ملنا یہ یقین دلاتا ہے کہ ضرورت پڑنے پر اس ایج گروپ کو ٹیکے لگائے جاسکتے ہیں۔ لگائے جائیں یا نہیں اور کس ایج گروپ کو لگائے جائیں، اس کی سفارش اپنے یہاں نیشنل امیونیزیشن ٹیکنیکل ایڈوائزری گروپ (اینٹاگی)ملک کی قومی ٹیکہ کاری پالیسی کے معیارات کی بنیاد پر کرتی ہے۔ فی الحال اینٹاگی نے بچوں کے لیے کسی کورونا ٹیکہ کی سفارش نہیں کی ہے۔ گزشتہ 18ماہ میں دستیاب سائنسی ثبوت یہی بتاتے ہیں کہ متاثر ہونے کے باوجود بچوں میں سنگین بیمار ہونے اور موت کا خدشہ نسبتاً کم ہوتا ہے۔ آئی سی ایم آر کے سیرو سروے کے مطابق، تقریباً 60فیصد بچے قدرتی طور پر کورونا سے متاثر ہوچکے ہیں، جب کہ ان میں اسپتالوں میں داخل ہونے کا فیصد کم اور موت کی شرح بہت ہی کم ہے۔ ایک سچ یہ بھی ہے کہ ابھی ہندوستان میں دستیاب سبھی اینٹی کورونا ویکسین انفیکشن سے نہیں بچاتیں، بلکہ اس کی سنگینی کو کم کرتی ہیں۔ چوں کہ بالغوں میں سنگین بیماری اور موت کا خدشہ زیادہ ہوتا ہے، اس لیے ان کو ٹیکے کی ضرورت کہیں زیادہ ہے۔
منطوری سے پہلے جہاں یہ غور کیا جاتا ہے کہ ٹیکے کتنے محفوظ ہیں، وہیں ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ بچوں میں ٹیکوں کے کچھ rare side effectsبالغوں سے زیادہ ہوتے ہیں۔ بچوں میں کووڈ-19ٹیکہ کاری کے فائدے نسبتاً کم اور سائیڈایفیکٹس کے خدشات کچھ زیادہ ہیں۔ ساتھ ہی دستیاب اعداد و شمار چوں کہ 500سے 1,500بچوں پر ٹیکہ کی ٹیسٹنگ کا ہے اور بچوں میں کورونا ویکسین پہلی بار لگائی جائے گی، اس لیے ہمیں کسی بھی جلدبازی سے بچنا ہوگا۔ خطرات والے بچوں کی ٹیکہ کاری سے جو اعداد و شمار سامنے آئیں گے، اسی کی بنیاد پر ملک کے صحت مند بچوں کی ٹیکہ کاری پر فیصلہ لینا مناسب ہوگا۔
یہی وجہ ہے کہ کوئی بھی ملک بچوں کی ٹیکہ کاری میں جلدبازی میں نہیں ہے۔ انگلیوں پر شمار کیے جانے لائق جن ممالک میں 12-17سال کے بچوں کی ٹیکہ کاری شروع ہوئی ہے، زیادہ تر میں ٹیکہ انہی بچوں کو دیا جارہا ہے، جن میں خطرہ عام بچوں سے زیادہ ہے۔ امید ہے، ہندوستان میں بھی نیشنل امیونیزیشن ٹیکنیکل ایڈوائزری گروپ عوامی پالیسی کے تحت یا سیاسی دباؤ میں بچوں کی ٹیکہ کاری پر فیصلہ نہ دے کر سائنسی بنیاد پر مناسب فیصلہ لے گا۔
اب جب بچوں کے ٹیکے کے لائسنس کی چرچا زوروں پر ہے، تب تمام والدین یہ بھی سوچ رہے ہوں گے کہ ان کے بچوں کو ٹیکہ لگانے کا وقت آگیا ہے اور جب انہیں ٹیکے لگ جائیں گے تبھی ان کو اسکول بھیجیں گے۔ مگر تمام بین الاقوامی ماہرین متفق ہیں کہ اسکول کھولنے کے لیے بچوں کی ٹیکہ کاری کی قطعی ضرورت نہیں ہے۔ بچوں کو اسکول بھیجنے کو ٹیکہ کاری سے منسلک کرکے نہیں دیکھا جانا چاہیے۔
سرپرستوں میں کووڈ-19ٹیکہ کاری کے بارے میں اور بھی کئی غلط فہمیاں ہیں۔ اینٹی کورونا ویکسین سے متعلق لوگوں کے جارحانہ رویہ کو ختم کرنے کے لیے ان کی الجھنوں کو دور کرنا بھی ضروری ہے بچوں میں ٹیکہ کاری کے فائدے-نقصان کی بات عام لوگوں کو بول چال کی زبان میں بتائی جانی چاہیے۔ حکومت کو دستیاب ڈاٹا کا استعمال کرتے ہوئے اور شفاف طور پر لوگوں کو بتانا چاہیے کہ بچوں کو کتنا خطرہ ہے اور ٹیکہ کاری کے لیے ایج گروپ کا انتخاب کیسے کیا جائے گا؟ بالغوں کو کورونا کے سنگین انفیکشن کا خطرہ زیادہ ہے اور ان کے لیے ٹیکہ کاری کے ایمرجنسی استعمال کی بات آتی ہے تو ماہرین کو اعداد و شمار کی بنیاد پر اور تحمل کے ساتھ فیصلے لینے ہوں گے۔
(مضمون نگار پبلک پالیسی اور
ہیلتھ سسٹم کے اسپیشلسٹ ہیں)
(بشکریہ: ہندوستان)

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS