اندور (ایجنسی): مدھیہ پردیش میں نوراتری کی تقریبات کو بجرنگ دل نے فرقہ وارانہ رنگ دینے کی کوشش کی گئی ہے۔ پولیس نے اندور میں بجرنگ دل کی ‘لو جہاد’ کی شکایت پر چار مسلم نوجوانوں کو گرفتار کیا ہے۔ چاروں مسلم نوجوانوں کو بجرنگ دل کے کارکنوں نے پولیس کے حوالے کیا۔ تاہم ان میں سے ایک نے این ڈی ٹی وی کو بتایا کہ وہ گربا نہیں کر رہا تھا لیکن منتظمین نے اسے وہاں موجود رہنے اور انتظامات کا سنبھالنے کو کہا تھا۔ دراصل گربا پروگرام کا انعقاد آکسفورڈ کالج، اندور میں کیا گیا تھا۔ اس پروگرام میں کالج انتظامیہ نے کالج کے دو مسلم طلبہ کو نظام کو سنبھالنے کی ڈیوٹی کے لیے تعینات کیا تھا۔ لیکن بجرنگ دل کے کارکنوں نے ان پر لو جہاد کا الزام لگاتے ہوئے انہیں پولیس کے حوالے کردیا۔ 21 سالہ عدنان شاہ جو ضمانت رہا ہوئےہیں۔اندور کے آکسفورڈ کالج میں بی کام کے دوسرے سال کے طالب علم ہیں۔ انہوں نے کہا کہ وہ ڈیوٹی پر تھے
اور لوگوں کو سائیکل اسٹینڈ پر اپنی گاڑیاں کھڑی کرنے کا کہہ رہے تھے۔ لیکن بجرنگ دل کے ارکان جیسے ہی وہاں داخل ہوئے ہنگامہ شروع ہو گیا۔ عدنان شاہ نے کہا “طلباء میں سے کل 25 رضاکار بنائے گئے تھے اور میں ان میں سے ایک تھا۔ میری ڈیوٹی سائیکل اسٹینڈ پر تھی۔ اچانک 100 سے 150 افراد کالج کے اندر آئے اور پروگرام میں ہنگامہ کرنا شروع کر دیا۔ ان میں سے کچھ نے میرا نام پوچھا اور جب میں نے انہیں اپنا نام بتایا تو انہوں نے مجھے علیحدہ ہونے کو کہا۔ جب میں نے انہیں اپنا شناختی کارڈ دکھایا تو انہوں نے کہا کہ اس کا کوئی مطلب نہیں۔ تم یہاں کیوں ہو؟
عدنان شاہ کے رشتہ دار ساجد شاہ نے اس واقعے پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا ، “ہمارے بچوں کو کالج نے گربا تقریب میں انتظامات کی دیکھ بھال کے لیے مدعو کیا تھا۔ لیکن ان پر لو جہاد کا الزام لگا کر انہیں لاک اپ میں ڈال دیا گیا ہے۔” کیا اس ملک کا آئین ہے مسلمان بچوں کو اپنے کالج میں تقریبات میں شرکت کی اجازت نہیں دیتا؟ ”
اس بیچ کووڈ پروٹوکول کی خلاف ورزی پر کالج پر جرمانہ عائد کیا گیا ہے۔ پولیس نے بتایا کہ اقلیتی برادری کے چاروں نوجوانوں کو حراستی تحویل میں لیا گیا ہے۔ یہ واقعہ اتوار یعنی 10 اکتوبر کا ہے۔ اس معاملے پر کالج انتظامیہ کی طرف سے کوئی ردعمل نہیں آیا ہے۔ اندور کے ایڈیشنل ایس پی پرشانت چوبے نے کہا “جب ہم پروگرام میں پہنچے تو وہاں تقریبا 5000 لوگ جمع تھے۔ پروگرام میں امن برقرار رکھنے کے لیے ہم نے 4 نوجوانوں کو گرفتار کیا ہے اور کالج کے خلاف ایف آئی آر درج کرائی ہے۔” تاہم پولیس نے بجرنگ دل کے ارکان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی جنہوں نے کالج میں گربا پروگرام میں خلل ڈالا تھا۔
مدھیہ پردیش میں یہ کوئی واحد واقعہ نہیں ہے جہاں اس نوراتری کے تہواروں کو فرقہ وارانہ رنگ دینے کی کوشش کی گئی ہے۔ اس سے پہلے پورے رتلام میں نوراتری تقریبات میں غیر ہندوؤں کے داخلے پر پابندی سے متعلق پوسٹر لگائے گئے تھے۔ پولیس نے اس معاملے میں بھی کوئی کارروائی نہیں کی۔ رتلام سپرنٹنڈنٹ آف پولیس گورو تیواری نے کہا ’’مجھے میڈیا کے ذریعے پوسٹرز کے بارے میں معلوم ہوا۔ جب ہم نے تفتیش کی تو پتہ چلا کہ یہ پرائیویٹ تقریب تھے اور کالونیوں میں رہنے والے کسی بھی شخص نے اس پر اعتراض نہیں کیا۔ اس لئے یہ قابل شناخت جرم نہیں۔ ” جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا اس طرح کے پوسٹر لگانا فرقہ وارانہ کشیدگی پھیلانے کی کوشش نہیں ہے تو انہوں نے کہا کہ نہیں، اسے فرقہ وارانہ انتشار پھیلانے سے تعبیر نہیں کیا جا سکتا۔ اس ہفتے کے شروع میں رتلام میں وشو ہندو پریشد نے غیر ہندوؤں کو گربا پنڈالوں میں داخل ہونے سے روک دیا اور شہر میں عوامی مقامات پر پوسٹر لگائے۔ کچھ سال پہلے سینئر بی جے پی لیڈر اوشا ٹھاکر نے گربا منتظمین کو خبردار کیا تھا کہ وہ غیر ہندوؤں کو تقریب میں داخل نہ ہونے دیں اور ان سے کہا کہ وہ اپنے ووٹر کارڈ کی بنیاد پر شرکاء کی اسکریننگ کریں۔ اوشا ٹھاکر اب ریاست کی شیوراج سنگھ چوہان حکومت میں ثقافت اور سیاحت کے وزیر ہیں۔