بے لگام بیوروکریسی …استحصال کا ایجنٹ

0

محمد فاروق اعظمی

بیوروکریسی ریاست کے تین بنیادی ستون میں سے ایک ہے۔ عام تصوراور تاثریہ ہے کہ بیوروکریسی آئین اوردستور میںطے کردہ ذمہ داریوں کی ادائیگی اور ملک و قوم کی تعمیر و ترقی کیلئے پالیسی اور قوانین کے دیانت دارانہ نفاذ کے بجائے حکمرانوں کا دست و بازو بن کر رہ گئی ہے۔عوام کے جذبات اور امنگوں کے مطابق امور مملکت اورنظام حکومت کو احسن طریقے سے چلانے کے برخلاف حکمرانوں کے ذاتی اورسیاسی مفاد کی نگہبانی کا فریضہ زیادہ اہم سمجھتی ہے۔یہ تصور ختم اور تاثر زائل کرنے کی کوئی کوشش بھی نہیںہوتی ہے، اب تو صورتحال یہ ہوگئی ہے کہ عدالت تک بیوروکریسی پر اپنے تحفظات کا اظہار کررہی ہے۔
گزشتہ دنوں ملک کی عدالت عظمیٰ نے بیوروکریسی کے کردار پر سوال اٹھاتے ہوئے اس کے کام کاج اورطور طریقوں پر سخت تنقید کی ہے اور اس میں جامع اصلاحات اور تبدیلیوں کی ہدایات دی ہیں۔ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس این وی رمنا کا کہنا ہے کہ بیوروکریٹس اور پولیس افسران جو برتاؤ کر رہے ہیں وہ سخت قابل اعتر اض ہے۔ جو افسران حکومت کے ساتھ مل کر غیر قانونی طور پر پیسہ کماتے ہیں، انہیں جیل میں ہونا چاہیے۔ اعلیٰ پولیس افسران کے طرز عمل کے تعلق سے چیف جسٹس نے کہا ہے کہ وہ پولیس کے مظالم کے تعلق سے عام آدمی کی شکایت پر جانچ کیلئے ملک کے ہائی کورٹس کے چیف جسٹس کی قیادت میںقائمہ کمیٹیوں کی تشکیل چاہتے تھے۔چیف جسٹس نے کہا کہ مجھے اس بات پراعتراض ہے کہ اس ملک میں بیورو کریسی بالخصوص پولیس افسران کیسا برتاؤ کر رہے ہیں۔ بیورو کریسی اور خاص طور سے پولیس افسران جو کر رہے ہیں اس نے ہمیں پریشان کردیا ہے۔ چیف جسٹس کا کہنا ہے کہ ملک کی صورت حال افسوسناک ہے۔ جب کوئی سیاسی جماعت اقتدار میں ہوتی ہے تو پولیس افسران اس حکومت کے ساتھ ہوتے ہیں۔ پھر جب کوئی نئی پارٹی اقتدار میں آتی ہے تو حکومت ان عہدیداروں کے خلاف کارروائی شروع کرتی ہے۔ یہ ایک نیا رجحان ہے جسے روکنے کی ضرورت ہے۔ پولیس افسران جو آج کی حکومت کے ساتھ ہم آہنگ ہیں اور غیر قانونی طور پر پیسہ کماتے ہیں انہیں جیل میں ہونا چاہیے۔ ایسے پولیس افسران کا دفاع نہیں کیا جا سکتا۔
چیف جسٹس نے اپنے یہ مشاہدات اور تاثرات کسی نجی محفل یا عوامی جلسہ میں نہیں بلکہ ایک مقدمہ کی سماعت کے دوران بیان کیے ہیں۔ یہ مقدمہ چھتیس گڑھ پولیس اکادمی کے معطل ڈائریکٹر جنرل اور سابق ایڈیشنل ڈائریکٹر جنرل آف پولیس گرجندر پال سنگھ کی ایک درخواست سے متعلق تھا۔گرجندر پال سنگھ چھتیس گڑھ کی سابق بی جے پی حکومت کے منظور نظر تھے اور اب کانگریس کی بھوپیش بگھیل حکومت میںبغاوت، ہفتہ وصولی، بھتہ خوری، سازش اور مجرمانہ دھمکیوں سمیت دیگر مختلف الزامات میں گھرے ہوئے ہیں۔ انہوں نے اپنے خلاف درج کی گئی ایف آئی آر کو کالعدم کرانے کیلئے سپریم کورٹ سے رجوع کیا تھا کیوں کہ چھتیس گڑھ ہائی کورٹ ان کی عرضی خارج کرچکاہے۔ جمہوری نظام حکومت میں جس ستون پر سب سے اہم ذمہ داری ہو اگر وہی قابل اعتراض رویہ اختیار کرنے لگے اور نفاذ قانون کے بجائے اس کا مقصد پیسہ کمانا اور طاقت و اختیار حاصل کرناہوجائے تومعاملات کی سنگینی کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ معاملہ کی اسی سنگینی کے پیش نظر سپریم کورٹ سے تحفظ حاصل کرنے کیلئے عرضی داخل کرنے والے اس بڑے پولیس افسر کی گوش مالی کرتے ہوئے چیف جسٹس نے بیوروکریسی کے طرز عمل کو تنقید کا نشانہ بنایا اور بے لگام بیوروکریسی کی جامع اصلاحات کی ضرورت کواجاگر کیا۔
آئین میں مقننہ، عدلیہ اور انتظامیہ کے واضح حدود متعین کردیے گئے ہیں۔مقننہ کا کام قانون سازی، عدلیہ کی ذمہ داری قانون کی شرح و توضیح جب کہ انتظامیہ کے ذمہ قوانین کے عملی نفاذ کی ذمہ داری ہوتی ہے۔یہ تینوں ستون مل کر ملک کی تعمیر و ترقی اوراسے آگے بڑھانے کا کام کرتے ہیں۔ آئین نے ملک کے انتظامی ڈھانچہ کا جو تصور دیا ہے، اس کے مطابق بیوروکریسی ذاتی مفادات و احساسات اور ترجیحات وتعصبات سے بالاتر ہوکر مقررہ قواعد و ضوابط کے دائرے میں رہتے ہوئے مکمل شفافیت کے ساتھ امور حکومت انجام دے گی۔ لیکن بیوروکریسی اپنے دائرہ سے باہر نکل کر آئین سے ماورا وہ کام کررہی ہے جس سے نہ صرف ترقی اور اصلاحات کی راہ لمبی ہورہی ہے بلکہ یہ ہندوستان کی جمہوریت کیلئے بھی چیلنج بن گئی ہے۔
گزشتہ چند برسوں کے دوران ملکی بیوروکریسی کی کارکردگی پر ایک نظر ڈالی جائے تو پتہ چلتا ہے کہ احتساب کی ہر فکر سے آزاد ہوکر اس نے جمہوریت تو جمہوریت پورے نظام حکومت کوہی اپنے قبضہ میں لے رکھا ہے۔ 2014کے بعد سے تو بیوروکریسی کا کردار بالکل ہی بدل کر رہ گیا ہے۔این آر سی، سی اے اے مخالف تحریک اور دہلی فسادات میں تعصب، ذاتی احساسات سے مغلوب بیوروکریسی خاص طور سے پولیس نے حکمرانوں کے آلہ کار کا کردار ادا کرتے ہوئے ظلم و بربریت کی ساری حدیں پار کردیں۔ کورونا بحران کے دوران روزانہ ہزاروں افرادکی موت بھلے ہی حکومت کی ناکامی کہی جائے لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ حکومت کے ساتھ ساتھ بیوروکریسی کی بھی نااہلی تھی جس کی پردہ پوشی کرتے ہوئے حکومت نے نظام کی ناکامی کا نام دیا تھا۔ حکمرانوں کامنظور نظر بننے کیلئے بیوروکریسی آج ہر وہ کام کررہی ہے جو دستور سے متصادم ہے۔ اپنی مرضی سے سیاسی دبائو قبول کرکے اس نے اپنا وہ غیر جانبدارانہ رویہ کھودیا ہے جس کی اس سے توقع کی جاتی ہے۔بیوروکریسی کے طرز عمل کے تعلق سے عرصہ پہلے سابق وزیراعظم آنجہانی اٹل بہاری واجپئی بھی کہہ چکے ہیں کہ عام آدمی بیوروکریسی کو خدمت فراہم کرنے والے نظام کے بجائے استحصال کا ایجنٹ سمجھتے ہیں۔
گزشتہ کچھ برسوں میں ہندوستان کی بیوروکریسی پر بدعنوانی، لال فیتہ شاہی، مجرموں سے سازباز، آمریت و من مانی، آمدنی اور وسائل سے زیادہ دولت اورا ثاثے اکٹھے کرنے کے الزامات میںجس تیزی سے اضافہ ہوا ہے، اس کے پیش نظریہ کہنا قطعی غیر مناسب نہیںہوگا کہ بیوروکریسی استحصال کا ایجنٹ بن کررہ گئی ہے۔اپنے اپنے مفاد کیلئے سیاست اور بیوروکریسی نے آپس میں گٹھ جوڑ کررکھا ہے۔ تمام تر تنقیدوں کے باوجود سیاست اور بیوروکریسی کایہ گٹھ جوڑ جاری ہے۔ اس گٹھ جوڑ کا فائدہ ایک طرف سیاست داں اٹھارہے ہیںتو دوسری جانب بیوروکریسی بھی اس سے فیض اٹھانے میں پیش پیش ہے۔ سیاست داں اور بیوروکریسی دونوں ایک دوسرے کے مفاد کے نگہبان بن گئے ہیںاور ملک کی تعمیر کے بجائے بگاڑ کے راستہ پر چلاجارہاہے۔ ملک کی ترقی کیلئے ہزاروں اسکیمیں اور پالیسیاں بنائی گئیں لیکن بیوروکریسی نے اس کے نفاذ اورعمل در آمد میں سو سو طرح کی دشواریاںکھڑی کرکے عوام کی امنگوں اورآرزوئوں کو تعبیر تک پہنچنے نہیںدیا۔
ملک کی ترقی اور جمہوری استحکام کیلئے بیوروکریسی کے طرز عمل کی جامع اصلاح اب وقت کی ضرورت بن گئی ہے۔ افسران کے انتخاب اور تربیت سے لے کر اس کے تمام مراحل اور پورے نظام میں تبدیلی کے ساتھ ساتھ بیوروکریسی کے سیاسی گٹھ جوڑ کو بھی ختم کیا جانا چاہیے۔ تب ہی جا کر بیوروکریسی کے ’ استحصال کا ایجنٹ ‘ والا کردار ختم ہوگا۔اگر اس سلسلے میں چیف جسٹس کوئی کمیٹی یا کمیشن تشکیل دینا چاہتے ہیں تو اس میں تاخیر بھی مناسب نہیں ہوگی۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS