آشیش مشر کی گرفتاری کے بعد

0

شاہد زبیری

لکھیم پور کھیری میں 3 اکتوبر کو 4 کسانوں اور ایک صحافی سمیت 8 افراد کی ہلاکتوں کی تمام تر تفصیلات بتانے اور سچ پر سے پردہ اٹھا نے والے ایک سے زائد ویڈیوز سامنے آچکے ہیں۔ اس سانحے کی ملک بھر میں شدید مذمت کی جارہی ہے۔ ایس ٹی ایف اس کی جانچ کر رہی ہے۔ ایف آئی آر میں وزیر مملکت برائے داخلہ اجے مشر کے نامزد بیٹے آشیش مشر کی، جو اس کیس کا کلیدی ملزم ہے، گرفتاری ہو چکی ہے اور کسانوں کی مانگ ہے کہ اجے مشر کو کرسی سے ہٹایا جائے۔ اس سے پہلے مہلوکین کے وارثان کو 45-45 لاکھ روپے کے معاوضے اور ان کے کنبے کے ایک فرد کو سرکاری ملازمت دینے کا اعلان کیا گیا تھا۔ یہ اعلان بھارتیہ کسان یو نین کے قدآور لیڈر راکیش ٹکیت کی ثالثی میں ہوئے سمجھوتے کا نتیجہ تھا مگر اس اعلان سے متاثرہ کنبے کے افراد اور کسان مطمئن نہیں تھے، لکھیم پور تشدد کے ملزمان کی گرفتاری نہ ہونے پر سپریم کورٹ نے ناراضگی ظا ہر کی تھی اور اس پر سخت مؤقف کا اظہار کیا تھا۔ اس نے از خود نوٹس کی سنوائی کرتے ہوئے یو پی سرکار سے معاملے پر کارروائی کی اسٹیٹس رپورٹ طلب کر لی تھی۔ اس کے بعد یہ امید بندھی تھی کہ آشیش مشر کو گرفتار کیا جائے گا اور ایسا ہی ہوا۔ اس گرفتاری سے پہلے یہ بات کہی جا رہی تھی کہ یوگی سرکار نے چانکیہ کی چال چلتے ہوئے بھارتیہ کسان یو نین کے لیڈر راکیش ٹکیت کا استعمال کر لیا ہے، ان کو ثالث بنا کر کسانوں کے غصے کی آگ کو سرد کر دیا ہے اور اس طرح سرکار نے ایک تیر سے کئی نشانے لگا ئے ہیں۔ یہ کہ سرکار نے راکیش ٹکیت کو سوالوں کے گھیرے میں لا کھڑا کیا ہے، ان کی شخصیت کو کسانوں میں مشکوک بنا نے، کسانوں کی جوائنٹ فورم سنیکت کسان مورچہ میں پھوٹ ڈالنے اور تینوں زرعی قوانین کے خلاف جاری کسانوں کی تحریک کو کمزور کرنے کی کامیاب چال چلی ہے۔ اس پرتشدد واقعے کا فائدہ نہ اٹھا نے دینے کے لیے اپوزیشن لیڈروں کے لکھیم پور جانے پر پابندی عائد کر دی ہے تاکہ اس پو رے سانحے پر عوام کی نظروں میںدھول جھونکی جا سکے۔ اس معاملے میں میڈیا کے ایک حلقے نے بھی مرکزی وزیر مملکت برا ئے داخلہ اجے مشر اور اس دلدوز واردات کے کلیدی ملزم آشیش مشر کو بچا نے اور یو گی سرکار کے دفاع کے لیے الٹا کسانوں کو ہی مورد الزام ٹھہرانے کی مہم شروع کر رکھی ہے لیکن آشیش مشر کی گرفتاری اور اجے مشر کو برخاست کرنے کی مانگ کو دیکھتے ہوئے ایسا لگتا ہے کہ سرکار اس مصیبت سے نجات پانے میں کامیاب نہیں ہو سکی ہے۔ یہ معاملہ بی جے پی کے گلے کی ہڈی بن سکتا ہے۔
راکیش ٹکیت نے 6 اکتوبر کو اپنی رہائش گاہ پر بلائی گئی پریس کانفرنس میں لکھیم پور تشدد پر اپنی پوزیشن واضح کرتے ہوئے دو ٹوک کہا کہ سمجھوتہ معاوضے کی رقم پر نہیں، وزیر مملکت برائے داخلہ اجے مشر کو برخاست کیے جانے اور بیٹے آشیش مشر کو گرفتار کیے جانے پر ہوا ہے۔ٹکیت نے متنبہ کیا کہ اگر ایسا نہیں ہوا تو جان گنوانے والے کسانوں کی پگڑی کی رسم کے دن ان کی تیرہویں پر ملک گیر تحریک شروع کیے جانے کا فیصلہ لیا جا ئے گا۔ یہ بیان اس وقت سامنے آیا جب راکیش ٹکیت کے خلاف مبینہ طور پر بی جے پی کا آئی ٹی سیل سرگرم دکھائی دے رہا تھا اور وہ یہ تاثر دینے کی کوشش کر رہا تھا کہ پس پردہ یوگی اور راکیش ٹکیت کے مابین سمجھوتہ ہو گیا ہے، ر اکیش ٹکیت یو گی سرکار کے خلاف نرم پڑگئے ہیں۔ بی جے پی کا آئی ٹی سیل عوام کو گمراہ کرنے کے لیے سوشل میڈیا پر یہ سوال بھی اچھال رہا تھا کہ سرکار نے اپوزیشن لیڈروں کو تو لکھیم پور جا نے نہیں دیا مگر راکیش ٹکیت کو وہاں جانے کی اجا زت مل گئی اور نہ صرف اجازت مل گئی بلکہ سانحہ پر کسانوں کے سینوںمیں جو آگ دہک رہی تھی، ایک ثالث کی حیثیت سے راکیش ٹکیت نے اس پر پانی ڈال دیا۔ اپنے خلاف جاری مہم کے مدنظر ہی راکیش ٹکیت نے اس معاملے میں اپنی پوزیشن واضح کر نے کے لیے اجے مشر کی برخاستگی اور بیٹے آشیش مشر کی گرفتاری کے مطالبے کو پر زور طریقے سے اٹھا یا، سرکار کو تحریک چلانے کی دھمکی دے ڈالی۔ مجبوراً آشیش مشر کو گرفتار کرنا پڑا۔ اس طرح راکیش ٹکیت کے خلاف بی جے پی کے آئی ٹی سیل کے پرو پیگنڈہ کی ہوا نکل گئی۔ اب راکیش ٹکیت کے خلاف کون سی چال چلی جاتی ہے، اس پر سب کی نظریں مرکوز ہیں۔
لکھیم پور تشدد معاملے پر جہاں کانگریس سڑکوں پر ہے وہیں سماجوادی پارٹی بھی احتجاج کی راہ پر ہے۔ جیسا کہ اوپر ذکر آچکا ہے کہ پہلے تو اپوزیشن کے کسی بھی لیڈر کو لکھیم پور جا نے کی اجازت سرکار نہیں دے رہی تھی، سماجوادی پارٹی کے قائد اکھلیش یادو کو سرکار نے گھر میں نظر بند کر دیا تھا اور گھر کے باہر رکاوٹیں کھڑی کرنے کے علاوہ پولیس بٹھا دی گئی تھی۔ کانگریس کی قومی جنرل سکریٹری پرینکا گاندھی واڈرا لکھیم پور جا نے کے لیے گھر سے نکلیں تو رات کے دو بجے ان کو پولیس حراست میں لیے جا نے اور گرفتاری کو لوگ دیکھ چکے ہیں مگر بعد میں چارو ناچار یو گی سرکار کو نہ صرف پرینکا گاندھی کو بلکہ کانگریس کے سابق قومی صدر راہل گاندھی کو بھی لکھیم پور جا نے کی اجازت دینی پڑی۔ یہ دونوں بڑے لیڈر متاثرہ کنبوں سے مل کر آگئے۔ سماجوادی پارٹی کے قائد اکھلیش یادو بھی متاثرہ کسان کنبوں سے مل چکے ہیں۔ 7 اکتوبر کو پہلے سے منادی کے ساتھ پنجاب کے صوبائی کانگریس صدر نوجوت سنگھ سدھو اپنا لائو لشکرلے کر لکھیم پور جا نے کے لیے نکلے، ان کے ہمراہ سرکار کے چار وزرا، ممبران اسمبلی اور کئی بڑے لیڈروں سمیت تقریباً ایک ہزار کانگریسی، سیکڑوں کاریں اور ٹریکٹر ٹرالیاں تھیں۔ اس لشکر کو ہریانہ سرکار نے تو نہیں روکا لیکن یو پی سرکار نے انہیں لکھیم پور جانے کی اجا زت نہیں دی۔ سہارنپور کے یوپی-ہریانہ بارڈر پر نوجوت سنگھ سدھو کے قافلے کو پولیس اور پیرا ملٹری فورس کے بل پر روک دیا گیا۔ نوجوت سنگھ سدھو اور ان کے وزرا اور ممبران اسمبلی سمیت 17 لیڈروں کو حراست میں لے لیاگیا۔ لمبی بات چیت کے بعد دیر رات کو یو پی سرکار نے یہ اجازت دی کہ سدھو 5 گاڑیوں کے قافلے میں 20 افراد کے ساتھ لکھیم پور جا سکتے ہیں جبکہ پنجاب کے نائب وزیر اعلیٰ رندھاوا کے قافلے کو یو پی-ہریا نہ کے سہارنپور بارڈر سے واپس بیرنگ لو ٹا دیا گیا۔ ہر طرف سے زور ڈالے جانے کے بعد آشیش مشر کی گرفتاری عمل میں آئی۔
لکھیم پور تشدد کے حوالے سے یو گی سرکار، عام آدمی پارٹی اور لوک دل کے بھی نشانے پر ہے۔ مقامی سطح پر ان دونوں پارٹیوں کے لیڈران احتجاج درج کرا رہے ہیں۔ بھیم آرمی کے چندر شیکھر آزاد کی آزاد سماج پارٹی بھی اس معاملے میں پیچھے نہیں ہے۔ بی ایس پی کے قومی جنرل سکریٹری ستیش چندر مشرا لکھیم پور جا نا چا ہتے تھے۔ سرکار نے اجازت نہیں دی لیکن بعد میں انہیں اجازت دے دی گئی۔ پارٹی کی روایت کے مطابق، بی ایس پی اس مسئلے پر سڑکوں پر کہیں نظر نہیں آ رہی ہے۔ پارٹی کے ایک ایم پی حاجی فضل الرحمن نے اس درندگی پر مذمتی بیان ضرور جا ری کیا ہے ۔ حالات یہ بتا رہے ہیں کہ یوگی سرکار اب بیک فٹ پر آگئی ہے۔ سرکار کی تمام تر کوششوں اور لیپا پوتی کے باوجود لکھیم پور سانحہ یوگی سرکار ہی نہیں، بی جے پی کے گلے کی ہڈی بنتا نظر آرہا ہے۔ اسی سے بچنے اور کوئی راہ نکالنے کے لیے وزیر داخلہ امت شاہ نے اپنے جو نیئر وزیر اجے مشر کو دہلی طلب کیا تھا تاکہ ڈیمج کنٹرول کیا جا سکے اور اسی کے تحت آشیش مشر کی گرفتاری عمل میں آئی ہے مگر اجے مشر کی برخاستگی کا مطالبہ ابھی بھی کیا جا رہا ہے۔
اب جبکہ یو پی سمیت ملک کی 5 ریاستوں میں اسمبلی انتخابات سر پر ہیں اور گنتی کے چند ماہ باقی رہ گئے ہیں، بی جے پی کی ہر ممکن کو شش ہوگی کہ اس سانحے کا سایہ 2022 کے اس کے منصوبوں اور ارادوں پر نہ پڑے، اس کا خمیازہ انتخابات میں اسے نہ بھگتنا پڑے۔ عین ممکن ہے کہ وہ کسانوں کی ناراضگی دور کرنے کے لیے اجے مشر کو قربان کردے،کیونکہ ان کے بیٹے آشیش مشر کو تو وہ گرفتار کروا ہی چکی ہے۔ ایسا کر کے وہ اپو زیشن جماعتوں سے یہ ایشو چھین سکتی ہے اور یو پی کے کسانوں کی ناراضگی دور کرنے کی کوشش کر سکتی ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ بی جے پی اس ایشو سے کیسے نمٹتی ہے۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS