حافظ محمد ہاشم قادری مصباحی
بیماری اور علاج کا چولی دامن کا ساتھ ہے،جیسے بیماری ہر زمانے میں رہی ویسے ہی علاج بھی ہر زمانے میں موجود رہا۔یہ اور بات ہے کہ جیسے جیسے اِنسان نے ترقی کی علاج کے نت نئے طریقے بھی ایجاد ہوتے گئے اور آج تو ہرطرح کے علاج میں ترقی ہورہی ہے۔ آیوروید، نیچرو پیتھی، یوگا، ہومیو پیتھی،یونانی ، انگریزی یعنی ایلو پیتھک وغیرہ سبھی نے ترقی کی ہے ۔قرآن و احادیث پاک میں علاج کرنے کرانے کی ترغیب دی گئی ہے۔علاج کرانا سنت ہے، ایک روایت میں ہے ’’علاج و معا لجہ کیا کرو؛ کیوں کہ اللہ تعالیٰ نے ہر بیماری سے شفا کے اسباب بھی رکھے ہیں‘‘(مشکاۃ المصابیح مع المرقاۃ: 8/341)۔ خود نبی رحمتؐ نے مختلف امراض کے علاج کی تد بیریں بتائی ہیں اور مختلف مواقع پر خود بھی علاج کے مختلف طریقے اختیار فر مائے ہیں۔ اس حوالے سے کتبِ حدیث میں ’’ کتاب الطب‘‘ یا’’ ابوب الطب‘‘ جیسے عنوانات کے تحت بہت ساری احادیث درج ہیں۔ رسول کریمؐ نے بلاقید واختصاص بیماری کا علاج کرانے کی مطلقاً ترغیب دی ہے۔ ایک روایت میں ہے ’’علاج کراؤ، بیشک اللہ نے کوئی بیماری نہیں رکھی مگر یہ کہ اس کا علاج بھی رکھا ہے‘‘( مشکاۃ مع المرقاۃ،8/361)۔ علاج کو یونانی، ایورویدک،انگریزی یاکسی اور طریقے کے ساتھ مخصوص نہیں کیا گیا ہے۔ اس لیے آدمی جوبھی طریقۂ علاج اختیار کرے گا وہ باعتبار علاج سنت پر عامل کہلائے گا۔بس شرط یہ ہے کہ علاج مباح یعنی شریعت کے موافق ہو،جس کی شریعت میں اجازت ہو، حلال چیزوں سے کیا جائے۔حرام وناپاک چیزوں سے علاج جائز نہیں ہے۔
دَوائیں بذاتِ خود مؤ ثر نہیں ہوتیں ہیں، بلکہ یہ اللہ تعالیٰ کے حکم سے اثر کرتی ہیں۔ رب تعالیٰ اپنے نیک بندوں کو آزماتا بھی ہے۔صبرو شکر کرنے پر ان کے درجات بھی بلند فر ماتا ہے جیسے حضرت ایوب ؑ کو آزماکر اپنی رحمت وفضل سے نوازا۔’’اور ایوب کو (یاد کرو) جب اس نے اپنے رب کوپکارا بیشک مجھے تکلیف پہنچی ہے اور تو سب رحم کرنے والوں سے بڑھ کر رحم کر نے والا ہے‘(سورہ الانبیاء83)۔ اس سے معلوم ہوا کہ اللہ کی رحمت اس کے فضل سے آتی ہے اور مصیبت ہمارے گنا ہوں سے۔ یہ بھی معلوم ہوا کہ مصیبت میں رب تعالیٰ سے نا اُمید ہونا ایمان والوں کا طریقہ نہیں ہے۔ مسلمانوں کو کبھی مایوس نہیں ہونا چاہیے،رب فر ماتا ہے’’اے میرے وہ بندو جنہوں نے اپنی جانوں پر زیادتی کرلی ہے! تم اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہونا، بے شک اللہ سارے گناہ معاف فرما دیتا ہے،وہ یقینا بڑا بخشنے والا،بہت رحم فرمانے والا ہے‘‘(سورہ الزمر53)۔ یہ معلوم ہوا کہ جیسے نیک اعمال سے اللہ کی رحمتیں آتی ہیں ویسے ہی گناہوں سے آفتیں، بیماریاں بھی آتی ہیں (تفسیر نو رُالعر فان ص:651 )۔ اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہوں،اپنے گناہوں سے سچی توبہ کریں،بیشک وہی گناہوں پر پردہ ڈال کر بخشنے والا اور مصیبتوں کو دور کرکے مہر بانی فر مانے والاہے (تفسیر کبیر،ج: 9،ص463-464 تفسیر جلالین ،ج:6ص439-440)۔
اللہ تعالیٰ سے کبھی مایوس نہیں ہونا چاہئے۔ بیماریاں، دُکھ، تکلیفیں آتی ہیں لیکن شفا دینے والی ذات تو اللہ تعالیٰ کی ہے۔ قر آن مجید میں ایک مقام پر حضرت ابراہیمؑ کا یہ جملہ نقل کیا گیا ہے’’ اورجب میں بیمار ہوں تووہی مجھے شفا دیتا ہے‘‘(سورہ الشعراء 80-) ۔حضرت ابراہیمؑ نے شفا کو اللہ تعالیٰ کی طرف منسوب فر مایا۔ حضرت امام غزالی ؒ نے اس پر بڑی نفیس بحث فر مائی ہے کہ کسی شخص کو شفا ملے تو وہ کہے کہ میرے اللہ نے مجھے شفا دی ہے۔ اگر چہ دَوا اس نے ا ستعمال کی ہے،اس نے پرہیز کیا ہے، اس کو ڈاکٹر نے، اطبانے، حکیم نے جو طریقہ بتایا ہے اس کے مطابق اس نے عمل کیا ہے۔لیکن وہ کہے کہ میرے رب تعالیٰ نے مجھے شفا دی ہے اور حقیت میں شفا اللہ ہی دیتا ہے۔ اس وقت مریض کورونا سے شفا پاتا ہے تو میڈیا والے اینکر اس سے پوچھتے ہیں تم نے کورونا سے جنگ کس طرح سے لڑی تو وہ کہتا ہے میں نے اس طرح سے جنگ لڑی ۔وہ جنگ کیا لڑے گا۔سچ یہ ہے کہ رب کی رحمت نازل ہوئی اور تکلیف دور ہوگئی۔