وجے پرکاش سریواستو
مائیکروسافٹ کے بانی بل گیٹس نے 1994میں کہا تھا کہ ’بینکنگ ضروری ہے لیکن بینک نہیں۔‘اس وقت ان کے اس بیان کا مطلب مستقبل کی اختراعی مالیاتی ٹیکنالوجیز(innovative financial technologies)سے تھا۔ بل گیٹس کو آنے والے وقت کی تصویر اس طرح نظر آرہی تھی کہ بینکنگ اور مالی لین دین کے نئے اسٹیج کی دستیابی صارفین کے لیے بینک جانے کی ضرورت کم کردے گی۔ یہی تصویر آج ہم سب کے سامنے حقیقت کی شکل میں موجود ہے۔ چاہے وہ کسی بھی شعبہ کی بات کیوں نہ ہو، ٹیکنالوجی کے استعمال میں ترقی یافتہ ممالک ہمیشہ سے آگے رہے ہیں۔ لیکن آج ہندوستان جیسے ترقی پذیر ملک میں بھی فائنانشیل ٹیکنالوجی کا جادو سر چڑھ کر بول رہا ہے۔ اسی ٹیکنالوجی کو فٹ نیس کا نام دیا گیا ہے۔ فٹ نیس نے مالی لین دین کو کتنا آسان بنادیا ہے، یہ پان، چاٹ-پکوڑی کی چھوٹی چھوٹی دکانوں سے لے کر سبزی-پھل والوں کی دکانوں اور پھیریوں پر لگے کیوآر کوڈ کے چھوٹے بورڈ پر نظر ڈال کر سمجھا جاسکتا ہے۔ اس کیو آر کوڈ کے ذریعہ 10-20روپے جتنی چھوٹی رقم کی بھی ادائیگی موبائل فون میں موجود ایپ کے ذریعہ کی جاسکتی ہے۔ یہ ایپ کسی موبائل والیٹ کا ہوسکتا ہے یا یونائٹیڈ پیمنٹ انٹرفیس(یوپی آئی)کا یا دونوں میں اجتماعی طور سے بھی۔
سال2016میں جب نوٹ بندی کی گئی تھی تب یہ چرچا شباب پر تھی کہ اس کا ایک مقصد ملک کو کیش لیس معیشت کی جانب لے جانا بھی ہے۔ الیکٹرانک فنڈز کی منتقلی کا بڑھتا استعمال ظاہر کرتا ہے کہ حقیقت میں اب نقد لین دین سے لوگ الیکٹرانک لین دین کی جانب راغب ہورہے ہیں، چاہے یہ موبائل والیٹ کے ذریعہ سے ہو یا پھر این ای ایف ٹی(نیشنل الیکٹرانک فنڈ ٹرانسفر) یا آر ٹی جی ایس(رئیل ٹائم گراس سیٹلمنٹ) جیسی سہولت کے ذریعہ۔ تقریباً ڈیڑھ دہائی قبل ہندوستان میں بینکوں نے کور بینکنگ کو اپنانا شروع کیا تھا، جس میں ایک بینک کی سبھی برانچز کو آپس میں جوڑ دیا گیا۔ آپ کا اکاؤنٹ ایک بینک کی بھوپال واقع برانچ میں ہو تو آپ اسی بینک کی بیکانیر واقع برانچ میں جاکر اپنے بھوپال کی برانچ میں پیسے جمع کرسکتے تھے۔ انٹرنیٹ بینکنگ نے برانچ میں جانے کی ضرورت کم کردی۔ پیسوں کا لین دین گھر بیٹھے کیا جاسکتا تھا۔ ایک وقت تھا جب تاجر طبقہ چیک اور ڈرافٹ کے ذریعہ ہی پیسوں کا لین دین کرتا تھا۔ اس عمل میں ایک فریق سے دوسرے فریق کو پیسے ملنے میں کم سے کم تین دن لگتے تھے۔ آج چیک اور ڈرافٹ پر لوگوں کا انحصار کافی کم ہوگیا ہے۔ دراصل بینک میں ہی جانے کی ضرورت کم ہوگئی ہے۔
آج بینکنگ نظام میں انقلابی تبدیلی آچکی ہے۔ یہ ٹیکنالوجی کی بدولت ہی ممکن ہوپایا ہے۔ نقد نکالنا ہو تو اے ٹی ایم ہیں۔ اور اب تو آپ کو اپنے بینک کے اے ٹی ایم تک بھی جانے کی ضرورت نہیں ہے۔ اکاؤنٹ کسی بینک کا ہو، پیسہ آپ دوسرے بینک کے اے ٹی ایم سے بھی نکال سکتے ہیں۔ کہیں پیسہ بھیجنا ہو تو این ای ایف ٹی یا آر ٹی جی ایس سے گھنٹے بھر میں پہنچ سکتا ہے۔ جو این ای ایف ٹی خدمات پہلے 8-10گھنٹوں کے لیے ہی دستیاب ہوا کرتی تھیں، اب پورے سال چوبیس گھنٹے حاضر ہیں۔ یعنی بینک کھلے ہوں یا بند، آپ اپنا پیسہ چھٹیوں کے دن بھی دوسرے کے اکاؤنٹ میں بھیج سکتے ہیں یا دوسرے سے اپنے اکاؤنٹ میں ٹرانسفر کراسکتے ہیں۔ دکانوں پر یا آن لائن خریداری میں آپ کریڈٹ کارڈ ، ڈیبٹ کارڈ، موبائل بینکنگ سے ادائیگی کرسکتے ہیں۔ سبھی بڑے بینکوں کے اپنے ایپ ہیں جسے اکاؤنٹ ہولڈر موبائل میں ڈاؤن لوڈ کرکے اسی سے اپنا بینک اکاؤنٹ آپریٹ کرسکتا ہے اور دوسری بینکنگ سروسز بھی حاصل کرسکتا ہے۔ یہ سب اس لیے ممکن ہوپایا ہے کہ ٹیکنالوجی نے سارے بینکوں کو آپس میں جوڑ کر بڑا نیٹ ورک کھڑا کردیا ہے۔ انہی سب کا نتیجہ ہے کہ اب بینک کی برانچوں میں بھیڑ کم نظرآنے لگی ہے۔ بینکنگ کی کافی ضرورتیں بینک سے باہر دکان یا گھر سے پوری ہوجاتی ہیں۔ ایسے میں بینک کی برانچوں کی افادیت اور مطابقت پر سوال اٹھنا لازمی ہے۔ آج کل مالیاتی دنیا میں ایک نیا لفظ ’برانچ لیس بینکنگ‘ (Branchless Banking)سننے کو مل رہا ہے۔ بینکنگ کے ماہرین کے ایک بڑے طبقہ کا ماننا ہے کہ ہم مسلسل برانچ لیس بیکنگ کی سمت میں گامزن ہورہے ہیں۔
گزشتہ ڈیڑھ سال میں کورونا وبا سے پیدا ہوئے حالات نے تجارتی صنعت کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔ اس کا اثر بینکوں کے کاروبار پر بھی پڑا ہے۔ لیکن ایک بات توجہ دینے لائق ہے اور وہ یہ کہ ایک طرف جب لاک ڈاؤن میں پرائیویٹ و سرکاری دفاتر، اسکول، کالج، ٹرانسپورٹ کے ذرائع وغیرہ بند رہے، تب بینکوں کو کھلا رکھا گیا اور کم و بیش بینکنگ سروسز پہلے کی طرح جاری رہیں۔ حکومت نے بینکوں کو بند رکھنا مناسب نہیں سمجھا۔ اس سے ہم اپنی معیشت میں بینکوں کی اہمیت سمجھ سکتے ہیں۔ لیکن بینک کی برانچیں کھلی رہنے کے باوجود ان میں صارفین کا آنا جانا کم رہا کیوں کہ بہت سے معاملات میں ان کی بینکنگ ضرورتیں متبادل بینکنگ چینلوں کے ذریعہ سے پوری ہوتی رہیں۔
ابھی تک بینکوں کا جو پیسہ برانچوں کے نظام پر خرچ ہوتا تھا، اس کا ایک حصہ اب ڈیجیٹل اور الیکٹرانک سسٹم پر خرچ ہورہا ہے۔ بدلتے وقت کی ضرورتوں کے مطابق ان سسٹم کو وسعت دینا اور مضبوط کرنا اب زیادہ اہم سمجھا جارہا ہے۔ ہندوستان میں بینکنگ کا جو اسٹرکچر ہے اور بینکوں کا جس طرح کا صارفین کا طبقہ (Customer Segment) ہے، انہیں دیکھتے ہوئے بینک کی برانچوں کی افادیت تو قائم رہے گی، لیکن یہ بھی طے ہے کہ وقت کے ساتھ مزید زیادہ لوگ بینک سروسز کا فائدہ اٹھانے کے لیے بینک کی برانچوں میں جانے کی ضرورت نہیں محسوس کریں گے۔
بینک کی برانچوں کی کم ہوتی اہمیت کو ای-کامرس کی بڑھتی مقبولیت سے بھی جوڑ کر سمجھا جاسکتا ہے۔ آپ کو کرانہ کا سامان اور یہاں تک کہ فریج، واشنگ مشین جیسی چیزیں خریدنی ہوں تو گھر سے باہر نکلنا ضروری نہیں ہے، ایپ یا ویب سائٹ پر آرڈر دینے پر آپ کے دروازے پر یہ سامان بھجوا دیے جائیں گے۔ اگر ایسا ہے تو بینک جانے کی بھی ضرورت کیوں ہو؟ بھارتیہ ریزرو بینک کے حکم پر بینکوں نے ایک اور سروس شروع کی ہے۔ اب چنندہ بینک برانچوں میں 65سال سے زیادہ عمر کے صارفین کو کچھ فکسڈ بینکنگ سہولیات بینک گھر پر ہی مہیا کرا دیا کریں گے۔ ہوسکتا ہے کہ آگے چل کر اس سہولت کی توسیع مزید زیادہ برانچوں میں اور 65برس کے کم والے ایج گروپ کے لیے بھی شروع کردی جائے۔
گزشتہ کچھ برسوں میں بینکوں کے ساتھ جو نوجوان صارفین کا بڑا طبقہ منسلک ہے۔ نوجوانوں کو ٹیکنالوجی سے انسیت بھی ہے اور اسی وجہ سے ڈیجیٹل بینکنگ کو انہوں نے ہاتھوں ہاتھ لیا ہے۔ لیکن ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ خاص طور پر جن دھن اور مالی شمولیت(Financial Inclusion)کی دیگر اسکیموں کے تحت بینکوں میں اب کروڑوں ایسے لوگ اکاؤنٹ ہولڈر ہیں جو کم پڑھے لکھے یا ناخواندہ ہیں، جنہیں ڈیجیٹل بینکنگ سمجھ میں نہیں آتی اور بینک سروسز سے وابستہ ہونے کا واحد رابطہ پوائنٹ وہ بینک کی اس برانچ کو سمجھتے ہیں جہاں ان کا اکاؤنٹ کھلا ہوا ہے۔ اس کے بعد ایک ایسا طبقہ بھی ہے جو چاہے تو بینک کے متبادل ذرائع کا استعمال کرسکتا ہے، لیکن برانچ کے فزیکل انوائرمنٹ میں بینکنگ کرنے میں زیادہ آسانی محسوس کرتا ہے۔ بینک برانچوں کی ضرورت فی الحال ان طبقوں کے لیے قائم رہے گی۔
ابھی تک بینکوں کا جو پیسہ برانچوں کے نظام پر خرچ ہوتا تھا، اس کا ایک حصہ اب ڈیجیٹل اور الیکٹرانک سسٹم پر خرچ ہورہا ہے۔ بدلتے وقت کی ضرورتوں کے مطابق ان سسٹم کو وسعت دینا اور مضبوط کرنا اب زیادہ اہم سمجھا جارہا ہے۔ ہندوستان میں بینکنگ کا جو اسٹرکچر ہے اور بینکوں کا جس طرح کا صارفین کا طبقہ (Customer Segment) ہے، انہیں دیکھتے ہوئے بینک کی برانچوں کی افادیت تو قائم رہے گی، لیکن یہ بھی طے ہے کہ وقت کے ساتھ مزید زیادہ لوگ بینک سروسز کا فائدہ اٹھانے کے لیے بینک کی برانچوں میں جانے کی ضرورت نہیں محسوس کریں گے۔
(بشکریہ: جن ستّا)