موہن بھنڈاری
ایکچوئل کنٹرول لائن(ایل اے سی) پر پیپلز لبریشن آرمی(چین کی فوج) نے نئے خیمے لگاکر آپسی کشیدگی کو ایک مرتبہ پھر بھڑکانے کا کام کیا ہے۔ یہ حماقت تب کی گئی ہے، جب مشرقی لداخ میں سرحدی تنازع اور اس کے حل کے لیے اس کے ساتھ ہمارے فوجی اور سفارتی مذاکرات جاری ہیں۔ حالاں کہ چین کو نزدیک سے جاننے والے اس کی اس حرکت پر حیرت کا اظہار نہیں کررہے۔ پڑوسی ممالک کے ساتھ وہ وقت بے وقت ایسی ترکیبیں آزماتا رہتا ہے تاکہ وہ اندازہ لگاسکے کہ اس کی کس حد تک مخالفت ہوسکتی ہے۔ ساتھ ہی، وہ ایسا کرکے اپنے شہریوں کی توجہ بھی اصل ایشوز سے بھٹکاتا رہتا ہے۔ یہ چالبازی اس کی تاریخی روایت کا حصہ ہے۔
1962 کی جنگ کو یاد کیجیے۔ چین نے ہم پر وہ جنگ اس لیے بھی تھوپی تھی، تاکہ اس کے لیڈر ماؤتسے تنگ سال 1958کی اپنی ’دی گریٹ لیپ فارورڈ‘ پالیسی کی ناکامی کو چھپاسکیں۔ اس پالیسی کے ذریعہ فوڈ پروڈکشن میں اضافہ کے لیے گاؤوں میں زبردستی صنعت کاری کی گئی تھی اور اجتماعی کھیتی پر زور دیا گیا تھا۔ نتیجتاً وہاں زبردست انسانی بحران پیدا ہوا اور سمجھا جاتا ہے کہ تین سے ساڑھے چار کروڑ لوگ بھکمری کے شکار ہوگئے۔ تب اس پالیسی پر اٹھنے والے سوالوں سے بچنے کے لیے اور چین پر کمیونسٹ پارٹی کا کنٹرول پھر سے قائم کرنے کے لیے لداخ اور اروناچل پردیش میں چین کے فوجی ہماری سرحد میں خاموشی سے داخل ہوئے تھے، اور ’ہندی-چینی، بھائی-بھائی‘ کے تصور کو چھلنی کردیا تھا۔
آج چین پھر سے معاشی بحران سے نبردآزما ہے۔ افغانستان سے امریکہ کی رخصتی اور عالمی لیڈر کی اس کی ساکھ پر آئی آنچ کے باوجود وہ موقع کا پورا فائدہ نہیں اٹھا پارہا، کیوں کہ کورونا وائرس کو جنم دینے کے الزام سے وہ آزاد نہیں ہوپارہا۔ یہی وجہ ہے کہ وہاں مقامی میڈیا میں بیان جاری کیے جارہے ہیں کہ سال 2025تک تائیوان کو وہ اپنے قبضہ میں لے لے گا ار سال2035-40تک اروناچل پردیش کو۔ ہماچل پردیش اور اتراکھنڈ کے تقریباً543مربع کلومیٹر علاقہ کو بھی وہ اپنا بتارہا ہے۔ گزشتہ 30اگست کو تو پی ایل اے کے تقریباً 100گھڑسوار فوجی چمولی(اتراکھنڈ) کے بارہ ہوتی میں پانچ کلومیٹر تک گھس آئے تھے اور کافی ہنگامہ آرائی کی تھی۔ اس کے ہیلی کاپٹر یہاں اڑان بھی بھرتے رہتے ہیں۔
دقت یہ ہے کہ وہ اب سیدھی جنگ میں نہیں الجھنا چاہتا۔ اس کے اپنے خطرات ہیں۔ گلوان وادی کی جدوجہد نے اس کی تصدیق کی ہے کہ طویل جنگ میں ہم اب کہیں زیادہ ماہر ہوگئے ہیں۔ اس لیے اس نے بالواسطہ طور پر ہمیں پریشان کرنے کی حکمت عملی اپنائی ہے۔ اس میں وہ جنگ جیسا ماحول بنائے رکھتا ہے، جس سے ہم پر معاشی بوجھ بڑھتا رہے۔ مثلاً سیاچن میں ہمیں اپنے فوجیوں کو رکھنے کے لیے کافی خرچ کرنا پڑتا ہے۔ اندازہ ہے کہ وہاں مینٹیننس پر روزانہ 7کروڑ روپے خرچ ہوتے ہیں۔ مائنس40ڈگری میں سرگرم رہنے کے لیے ہمارے فوجیوں کو جو اسپیشل یونیفارم دی جاتی ہے، وہ لاکھوں روپے کی ہوتی ہے۔ پھر ہیلی کاپٹر سے رسد پہنچانا بھی کافی مشکل بھرا کام ہوتا ہے۔ ایسے میں اگر دونوں ممالک میں کشیدگی قائم رہی تو ہم پر یہ معاشی بوجھ بڑھتا جائے گا۔ ماؤتسے تنگ کی بھی یہی سوچ تھی- بن گولی چلائے دشمن کو کھوکھلا کردینا۔
ہمارے لیے مشکل یہ ہے کہ چین ہمارا سب سے بڑا کاروباری شراکت دار ہے۔ اس سال بھی شروعاتی 6ماہ میں تمام ہنگامہ آرائی کے باوجود دوطرفہ کاروبار میں 62.7فیصد کا زبردست اضافہ ہوا ہے اور یہ بڑھ کر 57.48 ارب ڈالر تک پہنچ گیا ہے۔ ہندوستان جہاں چین کو مچھلی، مصالحے سے لے کر خام لوہا، گرینائٹ اسٹون وغیر بھیجتا ہے، وہیں الیکٹرانک سامان، دواؤں کا کچا مال وغیرہ اس سے منگاتا ہے۔ ان سب میں مستقبل قریب میں کسی بڑی تبدیلی کی شاید ہی گنجائش ہے۔ ایسے میں سرحد پر ہونے والی ایسی کشیدگی کا ہمیں الگ طرح سے حل نکالنا پڑے گا اور جیسا کہ ہمارے وزیرخارجہ کہتے بھی ہیں کہ سرحدی تنازع، یعنی دونوں ممالک کے مابین حدبندی ایک الگ مسئلہ ہے اور چین کی اس تجاوزات کی پالیسی کی مخالفت بالکل الگ ایشو۔
چین ہمارا سب سے بڑا کاروباری شراکت دار ہے۔ اس سال بھی شروعاتی 6 ماہ میں تمام ہنگامہ آرائی کے باوجود دوطرفہ کاروبار میں 62.7 فیصد کا زبردست اضافہ ہوا ہے اور یہ بڑھ کر 57.48 ارب ڈالر تک پہنچ گیا ہے۔ ہندوستان جہاں چین کو مچھلی، مصالحے سے لے کر خام لوہا، گرینائٹ اسٹون وغیر بھیجتا ہے، وہیں الیکٹرانک سامان، دواؤں کا کچا مال وغیرہ اس سے منگاتا ہے۔ ان سب میں مستقبل قریب میں کسی بڑی تبدیلی کی شاید ہی گنجائش ہے۔ ایسے میں سرحد پر ہونے والی ایسی کشیدگی کا ہمیں الگ طرح سے حل نکالنا پڑے گا۔
ظاہر ہے، ہمیں چین کے تعلق سے ایک مجموعی پالیسی بنانی پڑے گی۔ ہمیں یہ سمجھنا ہوگا کہ پاکستان سے ہمیں ویسا خطرہ نہیں ہے، جیسا چین سے ہے۔ ہندوستان کی واحد غلطی یہ ہے کہ یہاں کے سیاسی طبقہ نے چین کے سلسلہ میں دوراندیشی کا مظاہرہ نہیں کیا۔ دوررس سوچ کی کمی میں چین سے ملحق سرحدی علاقوں میں ہم اپنا انفرااسٹرکچر، یعنی بنیادی ڈھانچہ اب تک نہیں بناسکے ہیں، جب کہ چین تقریباً دو دہائی پہلے ایسا کرچکا ہے۔ اچھی بات ہے کہ دیر سے ہی سہی، ہماری نیند اب ٹوٹی ہے اور ہم نے سرحدی علاقوں پر توجہ دینا شروع کیا ہے۔ مگر جس طرح کا چیلنج ہمیں چین سے مل رہا ہے، ہمیں ان کاموں میں کافی تیزی لانی ہوگی۔ اس نے جس طرح سے ایکچوئل کنٹرول لائن سے ملحق اپنے علاقوں میں سڑکوں کا جال بچھاتا ہے اور اس پورے علاقہ کو ہوائی پٹیوں سے جوڑنے کا کام کیا ہے، ہمیں بھی اسی طرح کے کام اپنے علاقوں میں کرنے ہوں گے۔
اس کے علاوہ، ہمیں سرحدی لائن پر بھی آپسی اتفاق بنانا ہوگا۔ یہ رضامندی اس لیے بھی ضروری ہے کیوں کہ ہمارا تقریباً 38ہزار مربع کلومیٹر کا اکسائی چین اس کے قبضہ میں ہے۔ ایک طریقہ یہ بھی بتایا جاتا ہے کہ چین کے برابر ہم اپنے سرحدی علاقوں میں فوجیوں کی ٹکڑی میں اضافہ کردیں۔ مگر یہ عملی قدم نہیں ہوگا۔ جہاں ایک ایک انچ زمین کے لیے جدوجہد ہو، وہاں تنازع کے بنیادی مرکز سے الگ فوجیوں کی بھیڑ قطعی مناسب نہیں سمجھی جاسکتی۔ یہ تقدیر کا بے رحمانہ مذاق ہے۔ افغانستان کی بدلتی فضا نے اب اس گٹھ جوڑ کو کہیں زیادہ خطرناک بنادیا ہے۔ لہٰذا ہمیں نہ صرف انہیں ان کی زبان میں جواب دینا ہوگا، بلکہ سفارتی طریقہ سے بھی عالمی اسٹیج پر انہیں ایسے مسئلوں پر شکست دینی ہوگی۔
(مضمون نگار ریٹائرڈ لیفٹیننٹ جنرل ہیں)
(بشکریہ: ہندوستان)