نئی دہلی (ایس این بی) :پنجاب میں نوجوت سنگھ سدھو کے استعفیٰ کے بعد پنجاب کانگریس میں کھلبلی مچی ہوئی ہے۔ذرائع کے مطابق کانگریس صدرسونیا گاندھی نے سدھو کا استعفیٰ منظور نہیں کیاہے۔ ہائی کمان نے ریاست کے لیڈروں کو اپنی سطح پر معاملہ سلجھانے کیلئے کہا ہے۔ اس سے قبلپنجاب کانگریس کمیٹی کے صدر نوجوت سنگھ سدھو نے اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا۔ تاہم انہوں نے پارٹی میں رہنے کی بات کہی ۔ سدھو نے کانگریس پارٹی کی عبوری صدر سونیا گاندھی کو ایک خط کے ذریعے استعفیٰ سے آگاہ کیا۔ سونیا گاندھی کو لکھے گئے ایک خط میں انہوں نے کہا کہ کسی کے کردار کا زوال سمجھوتے سے شروع ہوتا ہے۔ میں پنجاب کے مستقبل اور پنجاب کی فلاح کے ایجنڈے پر کبھی سمجھوتہ نہیں کر سکتا، اس لیے میں پنجاب کانگریس کمیٹی کے صدر کے عہدے سے استعفیٰ دیتا ہوں۔ میں کانگریس کی خدمت جاری رکھوں گا۔ واضح رہے کہ پچھلے کچھ مہینوں سے ان کا سابق وزیراعلیٰ پنجاب کیپٹن امریندر سنگھ سے سیاسی تنازع چل رہا تھا۔ بعد میں کیپٹن نے وزیر اعلیٰ کے عہدے سے استعفیٰ دے دیا۔ اس کے بعد کانگریس نے چرنجیت سنگھ چنی کو پنجاب کا سی ایم بنا دیا۔ اس کے بعد یہ امید کی جارہی تھی کہ کانگریس نے پنجاب میں سب کچھ ٹھیک کردیا ہے، تاہم اب سدھو نے استعفیٰ دے کر سب کو حیران کر دیا ہے۔غورطلب ہے کہ سدھو کو 18 جولائی کو ہی پنجاب کانگریس کا صدر بنایاگیا تھا۔ سدھو نے اپنے استعفیٰ کی وجہ نہیں بتائی ہے، لیکن مانا جارہا ہے کہ وہ وزیراعلیٰ نہ بنائے جانے سے ناراض چل رہے تھے۔ اس کے بعد وزرا کے انتخاب اوروزارت کی تقسیم میں بھی سدھو کی نہیں چلی۔ منگل کو وزارت تقسیم کی گئی۔ سدھو کی مخالفت کے باوجود محکمہ داخلہ سکھ جندر رندھاواکو دیا گیا۔ اس کے بعد دوپہر میں ہی سدھو کا استعفیٰ سامنے آگیا۔ نوجوت سنگھ سدھو کے استعفیٰ پر کیپٹن امریندر سنگھ نے کہا کہ میں نے پہلے ہی کہا تھا کہ سدھو صحیح آدمی نہیں ہے۔ وہ پنجاب جیسے بارڈر اسٹیٹ کیلئے فٹ نہیں ہے۔
ادھر سدھو کے میڈیا ایڈوائزر سریندر ڈلا نے کہا کہ نوجوت سنگھ سدھو اصولی سیاست کرر ہے ہیں۔ نئی سرکار نے کانگریس ہائی کمان کے نئے 18 نکاتی فارمولے پر کوئی عمل نہیں کیا۔ گزشتہ 5 دنوں میں نئی سرکار میں ایسا کچھ دیکھنے کو نہیں ملا۔ سدھو کی قیادت میں پنجاب کانگریس میں ہوئی بغاوت کے نتیجے کے طور پر 18 ستمبر کو کیپٹن امریندر سنگھ کو کرسی چھوڑنی پڑی تھی۔ اس کے بعد 20 ستمبر کو چرنجیت سنگھ چنی کو ریاست کا نیا وزیر اعلیٰ بنایا گیا تھا۔ حالانکہ ان کی کابینہ میں اپنی رائے کو ترجیح نہ ملنے سے سدھو ناراض بتائے جارہے تھے۔ سدھو نے کیپٹن امریندر کو کرسی سے ہٹانے کیلئے پورا زور لگایا۔ ماناگیا کہ پردے کے پیچھے رہ کر سدھو نے پورا کھیل کھیلا۔ کیپٹن کے بعد سدھو چاہتے تھے کہ وہ کیپٹن کی جگہ وزیراعلیٰ بنیں۔ حالانکہ ہائی کمان سنیل جاکھڑ کو وزیراعلیٰ بناناچاہتی تھی۔ اس لئے سدھو پیچھے ہٹ گئے۔ اس کے بعد کچھ ایم ایل اے نے سکھ اسٹیٹ- سکھ سی ایم کا ایشو اٹھایا، جس کے بعد سکھ جندر رندھاوا کا نام سامنے آیا۔ یہ دیکھ سدھو نے کہا کہ اگر جاٹ سکھ کو وزیراعلیٰ بنانا ہے تو پھر انہیں بنایا جائے۔ کانگریس ہائی کمان اس کیلئے تیار نہیں ہوئی تو وہ غصہ میں آبزروراور پنجاب انچارج ہریش راوت کے ہوٹل سے چلے گئے۔ یہاں تک کہ انہوں نے موبائل بھی بند کرلیا۔ اس کے بعد رندھاوا کی جگہ چرنجیت سنگھ چنی وزیراعلیٰ بن گئے۔ اس کے بعد سدھو چنی کے ساتھ چلنے لگے۔ حالانکہ ان پر الزام لگاکہ وہ سپر سی ایم کی طرح سلوک کررہے ہیں۔ اس کے بعد سدھو کو پیچھے ہٹنا پڑا۔ مانا جارہا ہے کہ کانگریس ہائی کمان کی طرف سے سدھو کو اس بارے میں بھی ٹوکا گیا تھا۔ اسی وجہ سے وہ گزشتہ کچھ دنوں سے الگ ہوگئے تھے۔ سدھو کا کہنا تھا کہ ان پر پہلے ہی داغ لگے ہوئے ہیں، اس لئے انہیں شامل نہیں کیا جائے۔ اس کے باوجود ان کی مخالفت درکنار کردی گئی۔ سدھو نے ایڈووکیٹ ڈی ایس پٹوالیہ کو پنجاب کا نیا ایڈووکیٹ جنرل بنانے کی سفارش کی۔ اس کے باوجود اب اے پی ایس دیول پنجاب کے نئے اے جی بن گئے ہیں۔ سدھو ڈپٹی سی ایم سکھ جندر رندھاوا کو محکمہ داخلہ دینے کے حق میں نہیں تھے۔ وہ چاہتے تھے کہ سی ایم چنی اسے اپنے پاس رکھیں۔ اس کے باوجود سدھو کی نہیں سنی گئی۔ دریں اثنا پنجاب میں ایک کے بعد ایک ارکان کے استعفیٰ سے ریاستی کانگریس میں زلزلہ سا آگیاہے۔ اس درمیان سابق وزیراعلیٰ کیپٹن امریندرسنگھ نے سدھو کے استعفے پرٹوئٹ کیا کہ ’میں نے پہلے ہی آپ سے کہا تھا کہ وہ (سدھو) مستحکم آدمی نہیں ہے اور وہ سرحدی پنجاب ریاست کیلئے ٹھیک نہیں ہیں‘۔
پنجاب کے مستقبل سے سمجھوتہ نہیں
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS