چین کی بے چینی ناقابل فہم نہیں!

0

آبادی پر کنٹرول کرنے کے لیے بے چین ملکوں میں چین کا بھی شمار ہوتا تھا۔ 1979 میں دینگ شیاؤپنگ، چن ین اور لی شیان نیان جیسے بڑے لیڈروں نے وَن چائلڈ پالیسی کی حمایت کی تھی اور 1980 میں یہ پالیسی لوگوں پر تھوپ دی گئی تھی۔ ’سمجھدار‘ چینی لیڈروں نے یہ نہیں سوچا تھا کہ اگر ایک ہی بچہ پیدا کرنے کی اجازت ہوگی تو مردوں اور عورتوں کی آبادی کا توازن بگڑے گا۔ اس معاملے میں ہندوستانی لیڈروں نے زیادہ سمجھداری دکھائی۔ بغیر زور زبردستی کے لوگوں کو تیار کرنے کی کوشش کی کہ وہ خود ہی اپنے پریوار کو چھوٹا رکھیں۔ اس سے چین کی آبادی کے مقابلے ہندوستان کی آبادی ذرا تیزی سے بڑھی مگر عورتوں اور مردوں کی آبادی میں وہ عدم توازن نہیں جو چین میں ہے۔ لڑکیوں کی تعداد کم ہونے کی وجہ سے چین میں ہزاروں نہیں، لاکھوں لوگ غیر شادی شدہ ہیں۔ ہندوستان میں یہ مسئلہ نہیں۔ یہاں کئی لوگ لڑکی بیاہنے کے لیے لڑکے والوں کو منہ مانگی رقم اور جہیز دیتے ہیں۔ یہ بات الگ ہے کہ یہ غیرقانونی ہے۔ ادھر یہ ایشو ہمارے ملک میں سیاست کرنے والوں کے لیے اہمیت کا حامل ہو گیا ہے کہ لوگوں کو کتنے بچے پیدا کرنے کی اجازت دی جائے مگر چینی لیڈروں کو یہ لگنے لگا ہے کہ اگر ہاتھ نہیں بڑھیں گے تو چین کی ترقی دیر پا نہیں ہوگی، اس لیے 15 نومبر، 2012 کو اقتدار کی باگ ڈور سنبھالنے کے 3 سال بعد شی جن پنگ نے 2016 میں وَن چائلڈ پالیسی بدل کر ٹو چائلڈ پالیسی کر دی، اس کے بعد تھری چائلڈ پالیسی متعارف کرا دی۔ اس پالیسی کے نفاد کے لیے وہ اتنے سنجیدہ ہیں کہ صوبہ گوانگ ڑونگ کے ایک گاؤں میں ماؤں کے تیسرا بچہ پیدا کرنے پر انہیں ڈھائی سال تک ماہانہ 510 امریکی ڈالر دیے جائیں گے۔ اگر ہندوستانی روپے میں سمجھیں اور ڈالر کی قیمت 73.88 روپے مانیں تو یہ رقم 37,678.8روپے ہوگی۔ اسی طرح کی اسکیم دوسری جگہوں پر بھی شروع ہوئی ہے۔ سوال یہ ہے کہ چین آبادی بڑھانے کے لیے اتنا بے چین کیوں ہے؟ اس کا جواب سمجھنے کے لیے یہ جاننا ضروری ہے کہ فی الوقت اس کی آبادی میں کس عمر کے کتنے لوگ ہیں اوران لوگوں میں مردوں کے مقابلے عورتیں کتنی ہیں۔
چین میں 14 سال کی عمر کے 17.29 فیصد لوگ ہیں، ہندوستان میں اس عمر کے لوگوں کی تعداد 26.31 فیصد ہے۔ چین میں 15 سال سے 24 سال کی عمر کے 11.48 فیصد لوگ ہیں، ہندوستان میں اس عمر کے لوگوں کی تعداد 17.51 فیصد ہے۔ چین میں 25 سال سے 54 سال کی عمر کے 46.81 فیصد لوگ ہیں، ہندوستان میں اس عمر کے لوگوں کی تعداد 41.56 فیصد ہے۔ چین میں 55 سال سے 64 سال کی عمر کے 12.08 فیصد لوگ ہیں، ہندوستان میں اس عمر کے لوگوں کی تعداد 7.91 فیصد ہے۔ چین میں 65 سال یا اس سے زیادہ عمر کے 12.34 فیصد لوگ ہیں، ہندوستان میں اس عمر کے لوگوں کی تعداد 6.72 فیصد ہے۔ ان اعداد و شمار سے یہ سمجھنا مشکل نہیں کہ ہندوستان کے مقابلے چین میں 14 سال کی عمر تک کے 9.02 فیصداور 15سے 24سال کی عمر تک کے 6.03 فیصد لوگ کم ہیں۔ دوسرے لفظوں میں کہیں تو چین کے تقابل میں ہندوستان میں نوجوانوں کی آبادی زیادہ ہے اور معمر لوگوں کی آبادی کم ہے، کیونکہ چین کے مقابلے ہندوستان میں 65 سال یا اس سے زیادہ کے لوگ 5.62 فیصد، 55 سے 64 سال کے لوگ 4.17 فیصد اور 25سے 54سال کے لوگ 5.25 فیصد کم ہیں۔ یہ صورت حال چین کے لیے بے چینی کی وجہ ہوگی۔ شی جنگ پنگ کے لیے آبادی کا عدم توازن بھی بے چینی کی وجہ ہوگی۔ چین میں 14 سال کی عمر کے لوگوں میں مردوں کی تعداد 129,296,339 اور عورتوں کی تعداد 111,782,427ہے۔ 15 سے 24سال کے لوگوں میں مردوں کی تعداد 86,129,841 اور عورتوں کی تعداد 73,876,148 ہے۔25سے 54 سال کی عمر کے لوگوں میں مردوں کی تعداد 333,789,731 اور عورتوں کی تعداد 318,711,557 ہے جبکہ 55 سے 64 سال کی عمر کے لوگوں میں مردوں کی تعداد 84,827,645 اور عورتوں کی تعداد 83,557,507 ہے۔ اس سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے کہ گزرتے وقت کے ساتھ لڑکیوں کی آبادی چین میں کم سے کم تر ہوتی چلی گئی جبکہ 1956 میں یا اس سے پہلے پیدا ہونے والوں میں عورتوں کی آبادی زیادہ تھی، کیونکہ 65 سال یا اس سے زیادہ عمر کے لوگوں میں مردوں کی آبادی 81,586,490 اور عورتوں کی آبادی 90,458,292 ہے۔ جواب طلب سوال یہ ہے کہ کیا بچوں کی پیدائش پر سیاست کرنے والے ہمارے لیڈران چین کی صورت حال سے کچھ سبق لینا چاہیں گے؟
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS