ہرجندر
تقریباً 31سال پہلے انسانی تہذیب نے بات چیت کا ایک نیا ذریعہ حاصل کیا تھا۔ بات چیت کا ہر نیا ذریعہ نہ صرف اظہار کے نئے راستے کھولتا ہے، بلکہ علم و سائنس کو بھی نئے مرحلہ تک لے جاتا ہے۔ ان سارے دباؤ کے درمیان لوگ بھی بدلتے ہیں اور معاشرے بھی پوری طرح تبدیل ہوجاتے ہیں۔ کئی مرتبہ تو اتنا تبدیل ہوجاتے ہیں کہ فرق زمین-آسمان کا ہوجاتا ہے۔ ماضی میں جھانک کر اس معاشرہ کو دیکھئے، جس میں زبان کی ترقی نہیں ہوئی تھی اور اس کا مقابلہ اس معاشرہ سے کیجیے، جس میں زبان کی ترقی ہوگئی تھی، فرق بہت واضح نظر آئے گا۔ لگے گا کہ جیسے دونوں دو الگ سیارے کے باشندے ہیں۔
کچھ اسی طرح کی تبدیلی تین دہائی قبل انٹرنیٹ نے ہماری جھولی میں ڈالی تھی، جس نے اس درمیان ہماری زمین اور ہمارے آسمان کو مکمل طور پر تبدیل کردیا۔ جب ہم نے زبان کی ترقی کی، یا جب ہم نے لکھنا شروع کیا، یا جب چھاپے خانے (پرنٹنگ پریس) نے پوری دنیا میں اپنی چھاپ چھوڑی، یا جب ریڈیو، ٹی وی اور ٹیلی فون جیسی بات چیت کے ذرائع ہمارے درمیان آئے، کبھی بھی تبدیلی اتنی تیزی سے ہمارے گھروں اور دل و دماغ میں نہیں گھسی، جتنی گزشتہ 30سال میں تقریباً ہر جگہ دراندازی کرگئی ہے۔ ایک فرق یہ بھی رہا کہ باقی زیادہ تر ذرائع ترسیل جغرافیائی یا ریڈیو لہروں کی حدود سے بندھے تھے، لیکن انٹرنیٹ کے اس نئے ذرائع نے پرانی رکاوٹوں کو پار کرتے ہوئے پوری دنیا کو ایک ساتھ جوڑ دیا۔
یہ انٹرنیٹ کی مجازی دنیا کے آس پاس ہی نہیں ہو رہا، اس کے باہر کے معاشروں کا حال بھی وہی ہے۔ لبرل ازم، شہری حقوق اور سیکولرزم جیسے الفاظ کو جب گالی کی طرح استعمال کیا جانے لگے، تب یہ امید کیسے کی جاسکتی ہے کہ وہ آزادی بچی رہ جائے گی، جس کی یہ سب حصولیابیاں تھیں۔ یہ سب وہ حصولیابیاں ہیں جو پوری بیسویں صدی کے سیاسی شعور سے حاصل ہوئی تھیں اور ہمارے جیسے بہت سے ممالک نے تمام کوششوں و جدوجہد کے بعد ان کو حاصل کیا تھا۔
یہ فرق اپنی جگہ ہیں، لیکن سب سے بڑا فرق کچھ اور تھا جو اس دور میں ایک بڑی امید پیدا کررہا تھا۔ یہ ذرائع اس دور میں آئے جب آزادی اور بالخصوص اظہاررائے کی آزادی ایک بڑی اہمیت اختیار کرتی جارہی تھی۔ تاناشاہی/آمریت ختم ہورہی تھی اور جمہوریت کی توسیع ہورہی تھی۔ برلن کی دیوار ٹوٹ چکی تھی اور چین کو چھوڑ کر باقی کمیونسٹ ممالک میں Proletariat کی مبینہ تاناشاہی یا تو رخصت ہوچکی تھی یا آخری سانسیں گن رہی تھی۔ ایسے ملک، جن میں جمہوریت ہے، ان کی تعدا د اچانک ہی بڑھنے لگی تھی۔ اسی ماحول نے امریکہ کے ایک ماہرسیاست داں فرانسس فوکویاما کو اتنا متاثر کیا کہ انہوں نے تاریخ کے خاتمہ کا اعلان کردیا۔ دی اینڈ آف ہسٹری اینڈ دی لاسٹ مین نام کی ان کی کتاب کی سب سے زیادہ تنقید اس کے ٹائٹل کو لے کر ہی ہوئی تھی۔ حالاں کہ اس میں انہوں نے جو کہا تھا، وہ اس وقت بہت سے لوگوں کو سچ لگتا تھا۔ انہیں محسوس ہورہا تھا کہ انسانی تہذیب اب اپنی تصوراتی ترقی کی چوٹی پر پہنچ چکی ہے۔آہستہ آہستہ جمہوریت مکمل دنیا میں پہنچے گی اور سبھی ممالک اسی کی روایتوں کے مطابق چلیں گے۔ مگر 30سال میں دنیا کہاں پہنچ گئی، اس کی چرچہ ہم بعد میں کریں گے، فی الحال بات انٹرنیٹ کی۔
اس وقت امید یہ تھی کہ ایک ایسا اسٹیج تیار ہوگیا ہے جو پوری دنیا کے لوگوں کو جوڑے گا اور اس سے بہت سی خامیاں ختم کی جاسکیں گی۔ دہلی کے ون بیڈروم میں بیٹھا ایک شخص جب لسبن، قاہرہ اور ریوڈی جینیرو کے انجان لوگوں سے جڑے گا، تب اس کا نظریہ بھی وسیع ہوگا۔ اس کی سوچ اپنے تعصبات کے تنکوں اور گھاس پھوس سے لدے کبوترخانوں سے باہر نکلے گی، تو اسے ایک نئی عالمی نظر بھی ملے گی۔ یہ بھی امید تھی کہ تاناشاہی میں گزربسر کرنے والوں کا رابطہ جب جمہوریت کی طرززندگی جینے والوں سے ہوگاتو ان کے اپنے ملک میں جمہوریت قائم کرنے کا دباؤ بنے گا۔ اسی کے کچھ بعد جب مغربی ایشیا میں وہ تحریکیں نظر آئیں، جنہیں ہم ’عرب اسپرنگ‘ کے نام سے جانتے ہیں تو اچانک محسوس ہوا کہ یہ خواب سچ ہوکر ہی دم لے گا۔ لیکن خوبصورت خوابوں کے ٹوٹنے کی تاریخ بھی اتنی ہی بڑی ہے جتنی خود انسانی تہذیب کی تاریخ۔
اور اب جب ہم سال2021میں ہیں تب ہمیں ملی ہے امریکی ادارہ فریڈم ہاؤس کی ایک رپورٹ- فریڈم آن دی نیٹ۔ انٹرنیٹ پر پوری دنیا کے ممالک میں آزادی کا حال بتانے والی یہ رپورٹ ہر سال جاری ہوتی ہے۔ یہ رپورٹ بتارہی ہے کہ تقریباً پوری دنیا میں انٹرنیٹ استعمال کرنے والوں پر حکومتوں کا نزلہ گرا ہے۔ سوشل میڈیا پر پوسٹ کے سبب کہیں لوگوں کو مارا پیٹا گیا تو کہیں انہیں گرفتار کرکے جیل میں ڈال دیا گیا۔ یہاں آپ چاہیں تو یہ سمجھ سکتے ہیں کہ ہندوستان میں کم سے کم اتنے برے حال تو نہیں ہیں، اور چاہیں تو آپ ایسی کچھ ہندوستانی مثالیں بھی دے سکتے ہیں، جہاں سوشل میڈیا پر لوگوں کو پوسٹ کے لیے ہراساں بھی کیا گیا۔ یہ معاملہ صرف ہندوستان یا کسی اس یا اُس ملک کا نہیں ہے، کم و بیش یہ سب تقریباً پوری دنیا میں ہورہا ہے۔
بیشک، انٹرنیٹ کی کسی پوسٹ کے سبب اگر کوئی حکومت کسی کو گرفتار کرتی ہے تو اس سے انٹرنیٹ کی طاقت بھی سمجھی جاسکتی ہے۔ پوری دنیا کے تاناشاہوں کو اب خطرہ تحریکوں سے زیادہ انٹرنیٹ سے لگنے لگا ہے۔ لیکن یہ بھی سچ ہے کہ انٹرنیٹ سے ہم جس دباؤ اور تبدیلی کی امید کررہے تھے، نہ صرف وہ امید ادھوری رہ گئی، بلکہ دنیا اس کی برعکس سمت میں بھاگتی نظر آرہی ہے۔ ہم یہ سوچ رہے تھے کہ انٹرنیٹ ہر کسی کی سوچ کو نئی وسعت دے گا، لیکن ذہنیت کے کبوترخانے اب مزید چھوٹے ہوتے جارہے ہیں۔
یہ انٹرنیٹ کی مجازی دنیا کے آس پاس ہی نہیں ہورہا، اس کے باہر کے معاشروں کا حال بھی وہی ہے۔ لبرل ازم، شہری حقوق اور سیکولرزم جیسے الفاظ کو جب گالی کی طرح استعمال کیا جانے لگے، تب یہ امید کیسے کی جاسکتی ہے کہ وہ آزادی بچی رہ جائے گی، جس کی یہ سب حصولیابیاں تھیں۔ یہ سب وہ حصولیابیاں ہیں جو پوری بیسویں صدی کے سیاسی شعور سے حاصل ہوئی تھیں اور ہمارے جیسے بہت سے ممالک نے تمام کوششوں و جدوجہد کے بعد ان کو حاصل کیا تھا۔ جنہیں نہیں حاصل ہوسکیں، ان کے لیے وہ ایک حسرت تھیں۔ اکیسویں صدی کے کچھ شروعاتی برسوں میں ہی ہم نے وہ سیاسی شعور کھونا شروع کردیا تھا۔ وہ بھی اس وقت، جب اس کی سب سے زیادہ ضرورت تھی۔
(مضمون نگار سینئر صحافی ہیں)
(بشکریہ: ہندوستان)