اسلام آباد (ایجنسیاں) : پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان نے کہا ہے کہ انخلاء سے امریکہ کی ساکھ متاثر نہیں ہوئی،افغانستان میں دہشت گرد گروپس کو غیر موثر کرنے کے لیے واشنگٹن اور اسلام آباد کو مل کر کام کرنا ہوگا۔ طالبان امن کے لیے امریکہ کے شراکت دار ہو سکتے ہیں۔افغانستان کوانسانی بحران کا سامنا ہے۔ امریکہ افغانستان میں نئی حکومت کے ساتھ مل کر مشترکہ مفادات اور علاقائی استحکام کو فروغ دے سکتا ہے۔افغانستان کو تنازعات اور سابقہ حکومتوں کی ناکامیوں کی وجہ سے انسانی بحران کا سامنا ہے۔امریکہ ، چین اور روس سب کو مل کر افغانستان کی تعمیر نو میں حصہ ڈالنا ہوگا۔پاکستان افغانستان کے دیگر ہمسایہ ملکوں کے ساتھ مل کر نئی افغان حکومت کو تسلیم کرنے کا فیصلہ کرے گا۔جمعہ کو معروف امریکی میگزین ’نیوز ویک‘کو انٹرویو میں وزیر اعظم نے کہا کہ طالبان نے گزشتہ 40 سالوں میں پہلی بار پورے ملک پر کنٹرول حاصل کر لیا ہے، جس سے پورے افغانستان میں سیکورٹی قائم ہونے کی امید پیدا ہوگئی ہے۔
ہمیں افغانستان میں موجود دہشت گرد گروہوں بالخصوص ٹی ٹی پی کو بے اثر کرنے کے لیے کابل میں حکام کے ساتھ مل کر کام کرنے کی ضرورت ہے‘پاکستان اور امریکہ دونوں کو افغانستان میں دہشت گردی کو روکنے کی ضرورت ہے۔ اس مقصد کے لیے ہمیں انسانی بحران سے نمٹنے اور معاشی بحالی کی حمایت کرتے ہوئے افغانستان کے استحکام میں مدد کے لیے تعاون کرنا ہوگا۔انہوں نے کہا کہ امریکہ نے افغانستان سے رضاکارانہ طور پر اپنی فوجیں واپس بلالی ہیں، اس لئے مجھے نہیں لگتاکہ اس سے امریکی ساکھ متاثر ہوئی ہے‘اگر چین نے افغانستان کو اقتصادی امداد کی پیشکش کی تو یقینا ًافغان عوام اسے قبول کریں گے۔
طالبان نے سی پیک منصوبے اور چین کے ساتھ قریبی تعلقات قائم کرنے کا خیرمقدم کیا ہے تاہم امریکہ بھی افغانستان میں انسانی امداد فراہم کر کے افغانستان کی بحالی اور تعمیر نو میں حصہ ڈال کر اور دہشت گردی پر قابو پانے میں تعاون کر کے افغانستان میں اہم اور مثبت کردار ادا کر سکتا ہے۔ دوحہ امن عمل کے دوران امریکہ نے طالبان کے ساتھ ورکنگ ریلیشن شپ قائم کی جبکہ انخلا کے عمل کے دوران امریکہ اور طالبان کے درمیان براہ راست تعاون تھا۔ مجھے یقین ہے کہ امریکہ افغانستان میں نئی حکومت کے ساتھ مل کر مشترکہ مفادات اور علاقائی استحکام کو فروغ دے سکتا ہے۔ افغانستان کی نئی حکومت کو تسلیم کرنے سے متعلق ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے وزیر اعظم نے کہا کہ طالبان نے ایک ’ عبوری حکومت‘ قائم کر رکھی ہے اور اس میں کوئی شک نہیں کہ بعد میں مستقل حکومتی ڈھانچے کا اعلان کریں گے۔
پاکستان اس بات کا پابند ہے کہ وہ افغانستان میں اصل(ڈی فیکٹیو) حکام کے ساتھ رابطے رکھے ، تاکہ اس ہمسایہ ملک میں معاشی اور انسانی تباہی اور دہشت گردی کو پنپنے سے روکا جا سکے۔پاکستان کو افغانستان سے دہشت گردی بالخصوص ٹی ٹی پی سے خطرے کے بارے میں انتہائی تشویش لاحق ہے ، جس نے افغانستان کی سرزمین سے بعض دشمن خفیہ ایجنسیوں کی سرپرستی اور مدد سے پاکستان کے خلاف ہزاروں حملے کیے ہیں۔
ٹی ٹی پی پاکستان میں کام کرنے والے چینی شہریوں پر زیادہ تر حملوں کی ذمہ دار ر ہی ہے ، شاید انہیں ایسٹ ترکستان اسلامک موومنٹ (ای ٹی آئی ایم) کا تعاون بھی حاصل ہو۔ پاکستان افغانستان میں حکام کے ساتھ مل کر ٹی ٹی پی اور دیگر دہشت گردی کو افغانستان سے کارروائیاں کرنے سے روکنے کے لیے کام کرے گا۔اس سلسلے میں ہم امریکہ سمیت بین الاقوامی برادری کے ساتھ تعاون کریں گے۔
امریکہ اور اسلام آباد کو مل کر کام کرنا ہوگا:عمران خان
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS