کانگریس کے دو سب سے بڑے چہرے -راہل گاندھی اور پرینکا گاندھی-کو ناتجربہ کار کہنا بھلے ہی حالیہ دنوں میں نکلا کیپٹن امریندر سنگھ کا ذاتی غبار ہو، لیکن ایسے لوگوں کی بھی کمی نہیں ہے جو یہ تسلیم کرتے ہیں کہ پنجاب کے مسئلہ کا جو حل نکلا ہے، اس تک پہنچنے میں کانگریس قیادت نے زبردست ناسمجھی کا مظاہرہ کیا ہے۔ ریاست کے دو اعلیٰ عہدوں پر بیٹھے کرداروں نے اپنی اپنی انا کی تسکین کی خاطر جو بچکانہ کھیل کھیلا، اس میں اناڑی پن کے بجائے سیاسی سیانہ پن دکھایا گیا ہوتا تو اس شرمندگی سے بچا جاسکتا تھا، جس پر پارٹی لیڈر اب الگ الگ اسٹیج سے صفائی دے رہے ہیں۔ اور یہ سب تب ہورہا ہے جب پارٹی نے ایک دلت وزیراعلیٰ پر مہر لگاکر پنجاب کی سیاسی تاریخ میں ایک نئے صفحہ کا اضافہ کیا ہے۔ پارٹی قیادت اگر اسے ماسٹر اسٹروک والا فیصلہ سمجھ رہی تھی تو یہ کوئی مغالطہ بھی نہیں تھا۔ اگر یہ فیصلہ غلطی سے بھی ہوا ہے، تب بھی اس نے ریاست کی اپوزیشن پارٹیوں کے پیروں تلے سے زمین کھسکانے کا کام کیا ہے، لیکن یہاں تک پہنچنے سے پہلے کانگریس نے غلطیوں کا جو پہاڑ کھڑا کیا، اس نے اس فیصلہ کے قد اور اس کی قدر دونوں کو پستہ کردیا۔ جو کسر باقی تھی، اسے ریاستی کانگریس انچارج ہریش راوت نے الیکشن کے بعد کے وزیراعلیٰ کی بحث چھیڑ کر پورا کردیا۔
پورا تنازع اتنا گول گول ہے کہ قصوروار کی تلاش کسی سرے کی جانب لے جانے کے بجائے بار بار گول چکر لگانے کے لیے مجبور کرتی ہے۔ مطلب یہ کہ جن سے پانی ڈالنے کی امید تھی، انہوں نے بھی چنگاری بجھانے کے بجائے اس میں گھی ڈالنے کا ہی کام کیا۔ آغاز کانگریس قیادت سے ہی کریں تو راست طور پر یہ سمجھ میں آتا ہے کہ کیپٹن کو سونیا گاندھی کا سہارا تھا تو سدھو کی دوڑ پرینکا گاندھی پر جاکر ختم ہوتی تھی۔ اسی وجہ سے کیپٹن لاکھ کوششوں کے باوجود سدھو کو ریاستی صدر بننے سے روک نہیں پائے۔ صوبہ میں پارٹی لیڈر کا عہدہ ملا تو سدھو نے کیپٹن کی راہ میں کانٹے بو دیے۔ حالاں کہ یہ عداوت چار سال پہلے تبھی سے چلی آرہی تھی، جب سے سدھو بی جے پی چھوڑ کر عام آدمی پارٹی میں جاتے جاتے کانگریس میں اینٹری کرگئے تھے۔ دراصل کیپٹن کی رخصتی کی اسکرپٹ اسی دن لکھ دی گئی تھی۔ کیپٹن کبھی نہیں چاہتے تھے کہ سدھو کانگریس میں آئیں، کیو ںکہ اس سے پنجاب میں ان کی اکیلی حکمرانی کو راست خطرہ تھا۔ لیکن ’ہوئی ہی سوئی جو رام رچی راکھا۔ کو کری ترک بڑھاوئے ساکھا۔‘ سدھو مسلسل اپنی ہی حکومت کی پول کھولتے رہے اور کیپٹن کو کھلے عام چیلنج دیتے ہوئے ان کے خیمہ میں بے روک ٹوک دراندازی کرتے رہے۔ اس وقت بھی جب وہ صدر نہیں بنے تھے۔ لاچار امریندر بھی کتنی مرتبہ دہلی کی دوڑ لگاتے؟ ویسے بھی سدھو کی بڑھتی ’بے ادبی‘ واضح اشارہ تھی کہ دہلی نے کیپٹن کو ان کے حال پر چھوڑ دیا تھا۔ کیپٹن کی مانیں تو وزیراعلیٰ کی کرسی سے اتارے جانے سے پہلے تو حالات یہاں تک پہنچ گئے تھے کہ ممبران اسمبلی کی میٹنگ کی اطلاع بھی انہیں میڈیا سے مل رہی تھی۔ بہرحال، کانگریس قیادت نے اس پورے مسئلہ پر خاموشی اختیار کررکھی ہے۔ اس لیے اس معاملہ میں اس کے تشہیری کردار میں کتنی حقیقت ہے اور کتنا فسانہ، یہ واضح نہیں ہے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ کیپٹن کو ان کی عمر کا حوالہ دے کر ’مارگ درشک‘(رہنما) بننے کا آفر ملا ہو، لیکن جب وہ تیار نہیں ہوئے تو انہیں آخرکار جبراً رخصت کردیا گیا۔ اس کے بعد جو ہوا، وہ حال ہے۔ کیپٹن کا ایپی سوڈ کانگریس اور بی جے پی کے ورک کلچر کا فرق بھی بتاتا ہے، جہاں کیپٹن کے ہم عمر اور اپنی ریاست میں تقریباً ان کی جیسی ہی حیثیت رکھنے والے بی ایس یدی یورپا کی حکومت بھی چلی گئی اور ایک پتّا بھی نہیں ہلا۔
کیا 9سال تک وزیراعلیٰ رہے اور تقریباً پانچ دہائی کا سیاسی تجربہ رکھنے والے کیپٹن غچہ کھا کر سیاست سے آؤٹ ہوگئے ہیں۔ ایسا لگتا تو نہیں ہے۔ جس طرح انہوں نے سدھو کو ان کے ’پاکستانی کنکشن‘ کے سبب ملک کے لیے خطرہ بتاکر انہیں کسی بھی قیمت پر روکنے کی بات کہی ہے، اس سے تو یہی واضح ہوتا ہے کہ ابھی اس فلم کا ’دی اینڈ‘ آنا باقی ہے۔ سدھو کے خلاف مضبوط امیدوار اتارنے کی بات سے یہ اشارہ ملتا ہے کہ کانگریس میں ان کی پاری کا ’دی اینڈ‘ ضرور ہوچکا ہے۔ 80کی عمر میں کیپٹن نئی پارٹی بنائیں گے، یہ فطری نظر نہیں آتا۔
تو کیا 9سال تک وزیراعلیٰ رہے اور تقریباً پانچ دہائی کا سیاسی تجربہ رکھنے والے کیپٹن غچہ کھا کر سیاست سے آؤٹ ہوگئے ہیں۔ ایسا لگتا تو نہیں ہے۔ جس طرح انہوں نے سدھو کو ان کے ’پاکستانی کنکشن‘ کے سبب ملک کے لیے خطرہ بتاکر انہیں کسی بھی قیمت پر روکنے کی بات کہی ہے، اس سے تو یہی واضح ہوتا ہے کہ ابھی اس فلم کا ’دی اینڈ‘ آنا باقی ہے۔ سدھو کے خلاف مضبوط امیدوار اتارنے کی بات سے یہ اشارہ ملتا ہے کہ کانگریس میں ان کی پاری کا ’دی اینڈ‘ ضرور ہوچکا ہے۔ 80کی عمر میں کیپٹن نئی پارٹی بنائیں گے، یہ فطری نظر نہیں آتا۔ ایسے میں وہ یا تو عام آدمی پارٹی کا رُخ کرسکتے ہیں یا بی جے پی کا ہاتھ تھام سکتے ہیں۔ سدھو کی پاکستان محبت پر ان کی لائن بی جے پی سے کافی میل کھارہی ہے۔ لیکن کرناٹک میں حکومت بچانے کے لیے عمردراز یدی یورپا سے پیچھا چھڑانے کے بعد پنجاب میں اقتدار حاصل کرنے کے لیے بی جے پی 80پار کیپٹن پر داؤ لگائے گی، یہ اتنا آسان بھی نہیں نظر آتا۔کیپٹن کے لیے تیسرا متبادل اکالی دل ہوسکتا ہے۔ وہ کچھ وقت اکالی دل میں رہے بھی ہیں اور سدھو سے ان کی کشمکش کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ وہ پوری مدت کار میں بادل کنبہ کے لیے ضرورت سے زیادہ ’سافٹ‘ رہے۔ سدھو جب بادل کنبہ کے کیبل ٹی وی کے کاروبار پر نکیل ڈالنے کے لیے ایک نیا قانون لانے کی کوشش کررہے تھے تو انہیں اپنی ہی حکومت سے کسی طرح کی مدد نہیں مل پائی تھی۔
بہرحال آج کی حقیقت یہ ہے کہ اب بغیر عہدہ کے کیپٹن وہی کام کررہے ہیں جو کبھی بغیر عہدہ والے سدھو کیا کرتے تھے- پارٹی میں ہوتے ہوئے بھی پارٹی کے خلاف جھنڈا بلند کرنا۔ لیکن اس کا یہ مطلب بھی نہیں نکالنا چاہیے کہ کیپٹن کے ساتھ یکطرفہ ناانصافی ہوئی ہے۔ کیپٹن نے خود اپنے پیروں پر کلہاڑی مارنے والے بھی کئی کام کیے۔ گزشتہ چار سال کی دوراقتدار میں ان کی حکومت عوام سے کیے گئے کئی وعدے پورے کرنے میں ناکام رہی۔ ان میں نشہ کے کاروبار پر لگام لگانے، کسانوں کی قرض معافی، ہر گھر کم سے کم ایک روزگار اور بے ادبی کے واقعہ کے قصورواروں کو سزا دلوانے جیسے ادھورے کام شامل ہیں۔ اس سے حکومت کے خلاف اینٹی انکمبینسی بھی بنی ہے۔
ایسے میں کانگریس کو محسوس ہورہا ہے کہ وزیراعلیٰ کا چہرہ بدلنے سے حکومت کے تئیں لوگوں کی غصے والی سوچ کو بھی تبدیل کیا جاسکتا ہے۔ یہ سوچ کتنی کارگر ثابت ہوتی ہے، یہ اگلے پانچ ماہ میں ثابت ہوجائے گی، جب ریاست میں اسمبلی انتخابات ہوں گے۔ ایک سال پہلے تک الیکشن کے نتائج کے سلسلہ میں سوال یہ نہیں تھا کہ حکومت کون بنائے گا، بلکہ دلچسپی اس بات سے متعلق تھی کہ دوسرے نمبر پر کون آئے گا؟ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ کانگریس کی جیت بالکل طے لگ رہی تھی۔ لیکن بدلے حالات میں اب ایسا دعویٰ کرنے والوں کی تعداد تیزی سے کم ہوئی ہے۔ انگلی ایک مرتبہ پھر کانگریس قیادت کی جانب ہے اور سوال اٹھ رہے ہیں کہ کیا اس نے کیرالہ، آسام اور بنگال سے بھی کوئی سبق نہیں سیکھا؟
(کالم نگار سہارا نیوز نیٹ ورک کے
سی ای او اور ایڈیٹر اِن چیف ہیں)