محمد قمر الزماں ندوی
مدرسہ نور الاسلام، کنڈہ، پرتاپ گڑھ
ہمارے گاؤں کے ایک مولانا صاحب (مولوی منہاج الدین قاسمی) کا فون آیا کہ میں ابھی بھٹکل میں ہوں، اور اپنے گاؤں کے مدرسہ( مدرسہ نظامیہ دار القرآن دگھی، گڈا، جھارکھنڈ) کی وصولی کے لیے آیا ہوں، لاک ڈاؤن کی وجہ دو سال سے نہیں آسکا تھا، آپ کے تقریبا تمام درسی ساتھیوں مولانا رحمت اللہ ندوی، مولانا افضل ندوی اور حاجی فضل الرحمان ندوی وغیرہ سے نیز مولانا الیاس بھٹکلی ندوی صاحب سے ملاقات ہوئی، سب آپ کا ذکر خیر کر رہے تھے اور خیریت معلوم کررہے تھے۔ الحمد للہ مدرسہ کی وصولی کا کام بھی ہورہا ہے، آپ تھوڑی اور توجہ فرما دیں، تو اور بہتر کام ہوجائے گا۔۔ یہاں کے تقریباً تمام علماء اہل علم آپ کو، آپ کی تحریروں کی وجہ سے جانتے ہیں۔۔۔اور آپ کے درسی ساتھیوں اور معاصرین کی بھی یہاں بڑی تعداد ہے۔۔
میں نے جواب دیا، ان شاء اللہ پوری کوشش کروں گا اور اپنے اہل تعلق اور ساتھیوں کو متوجہ کردوں گا، یہ تو نیک کام ہے اور اچھی سفارش ہے، اور اس سفارش پہ خدا تعالیٰ کے یہاں بندہ ثواب اور اجر و انعام کا مستحق ہوتا ہے، اور کیوں نہیں کروں گا، یہ مدرسہ تو اپنے گاؤں ہے اور اس کے خادمین و محبین میں میرا نام بھی ہے۔۔ مولانا منہاج الدین قاسمی کافی دنوں سے بھٹکل جاتے ہیں اور وہاں کے لوگ اچھی ضیافت کرتے ہیں اور مدرسہ نظامیہ کا دامے درمے تعاون کرتے ہیں اور میری وجہ سے میرے ساتھی لوگ اور مولانا الیاس بھٹکلی ندوی صاحب بھی ان کا خیال رکھتے ہیں۔
تحدیث نعمت کے طور پر کہتا ہوں کہ میں عزم کا دھنی ہوں، کسی بھی کام میں مستقل مزاجی میری عادت ہے، جلدی ہمت نہیں ہارتا، لیکن ایک میدان ہے، جہاں میں سب سے ناکام ہوں وہ ہے چندہ اور مالیات کی وصولی، یہ کام میرے بس کا روگ نہیں ہے، اس میں ناکام ہوں۔ لاک ڈاؤن سے پہلے تو ذمہ داران مدرسہ نے مجھے کبھی اس کا مکلف ہی نہیں بنایا، لیکن لاک ڈاؤن کے بعد مجھے یہ ذمہ داری بھی اٹھانی پڑی، کچھ حد تک کامیاب بھی رہا، بعض لوگوں نے ہمت دلائی اور تعاون بھی کیا، بعض وعدہ وعید کرکے رہ گئے، اور بعض دوستوں اور تعلق والوں نے تو رابطہ ہی منقطع کرلیا، دوبارہ کبھی فون نہیں اٹھا۔ اس درمیان بہت تلخ تجربہ ہوا، اپنی انا کو فنا کرنا پڑا۔ خوش فہمی میں مبتلا تھا کہ میرے تعلقات بہت وسیع ہیں، کام آسانی سے ہوجائے گا، لیکن یہ سب کچھ خواب تھا، احساس پہلے سے تھا کہ دنیا کا سب سے مشکل کام میرے لیے اور ہمارے جیسے بہت سے لوگوں کے لیے بھی ،دوسرے کے جیب سے لے کر ملت کے لیے کام کرنا ہے، یہاں نفس کو مارنا پڑتا ہے،جذبات کو دفنانا پڑتا ،غصہ کو دبانا پڑتا ہے، اور اپنی غیرت کو کچلنا پڑتا ہے۔ لیکن یہ کام اگر امت کی فلاح اورقوم و ملت کی تعمیر اور حقیقت میں اشاعت علم، اور فروغِ دین کے لیے ہو اور اخلاص و امانت کے ساتھ ہو تو یہ کام بہت اعلی اور بہت ہی اجر و ثواب کا کام ہے اور وہ لوگ یقینا تعریف اور مدح کے لائق ہیں جو اس نازک اور مشکل کام کو انجام دیتے ہیں، لوگ مالیات کی وصولی اور چندہ کے کام کو معیوب سمجھتے ہیں، لیکن یہ کام عین سنت نبوی ﷺ ہے اور اس سے دین کی، قوم کی،اور ملت کی بڑی خدمت ہوتی ہے، اگر اس عمل کو انجام نہ دیا جائے تو دین کی خدمت کے اکثر شعبے بند ہوجائیں گے۔۔
اس کام کی اہمیت کو آئیے ہم قرآن و حدیث کی روشنی میں سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں تاکہ ہمارے ذہنوں میں جو غلط فہمیاں ہیں وہ دور ہو۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
صحابی رسول حضرت ابومسعود (عقبہ بن عمرو) انصاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے انھوں نے فرمایا کہ ایک صاحب نے نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوکر عرض کیا کہ میرے پاس سواری نہیں ہے؛ اس لیے آپ مجھے سواری عنایت فرمادیں، تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ : (وہ تو) میرے پاس بھی نہیں ہے، (یہ سن کر وہاں موجود) ایک صحابی نے عرض کیا : اے اللہ کے رسول ﷺ ! میں ایسے شخص کی نشاندہی کرتا ہوں جو انھیں سواری دیدیں گے، تو رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا : مَنْ دَلَّ عَلَى خَيْرٍ فَلَهُ مِثْلُ أَجْرِ فَاعِلِهِ . یعنی جو کسی اچھے کام کی رہنمائی کرےگا وہ کام کرنے والے کی طرح ثواب کا مستحق ہوگا۔”
(صحیح مسلم، حدیث نمبر : 1893)
امام یحییٰ بن شرف نووی رحمہ اللہ (وفات : ٦٧٦ ھ) نے لکھا ہے کہ :
” اس حدیث شریف میں کار خیر کی رہنمائی، اس کی نشاندہی اور نیکی کرنے والے کا تعاون کرنے کی فضیلت بیان ہوئی ہے اور اس میں علم اور عبادات کے مسائل کی تعلیم واشاعت، نیز خاص طور سے باعمل لوگوں کی فضیلت بھی بیان کی گئی ہے، اور (الفاظ حدیث) “بمثل أجر فاعله” کا مطلب یہ ہے کہ جس طرح کام کرنے والا مستحق ثواب ہوتا ہے اسی طرح اس کام کی سفارش اور رہنمائی کرنے والے کو بھی ثواب ملتا ہے؛ لیکن اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ دونوں کے ثواب کی مقدار بھی برابر ہو۔”
(المنهاج شرح صحيح مسلم بن الحجاج، بضمن حديث نمبر : 1893)
خود اللہ تعالیٰ نے بھی قرآن کریم میں یہ اعلان فرمایا ہے :
” مَّن يَشْفَعْ شَفَاعَةً حَسَنَةً يَكُن لَّهُ نَصِيبٌ مِّنْهَا … “(النساء : 85)
“جو شخص اچھی سفارش کرے اس کو اس (سفارش) کی وجہ سے (ثواب کا) حصہ ملے گا۔”
مذکورہ آیت، روایت اور علامہ نووی رحمہ اللہ کی وضاحت سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ کسی بھی فرد یا جماعت کی دینی یا دنیوی ضرورتوں میں تعاون تین طرح سے کیا جاسکتا ہے : پہلی صورت یہ ہے کہ از خود ضرورت مند کی ضرورت پوری کردی جائے، دوسری صورت یہ ہے کہ کسی سے اس کی ضرورت پوری کرنے کی سفارش کردی جائے اور تیسری صورت یہ ہے کہ کسی ایسے آدمی کی نشاندہی کردی جائے جو اس کی ضرورت پوری کرسکتا ہو، الغرض تعاون کرنے والا بہر صورت ثواب کا مستحق ہوتا ہے؛ ۔۔
واضح رہے کہ چندہ کرنے والے بھی اہل خیر سے اچھے کام میں مال خرچ کرنے کی درخواست وسفارش کرتے ہیں اور خود رسول اللہ ﷺ سے بھی عملی طور پر اس کا ثبوت موجود ہے؛ لہذا قرآن وسنت کی روشنی میں وہ بھی اپنے اس کام پر اجر وثواب کے مستحق ہیں، قارئین چندے کے ثبوت میں درج ذیل روایات حدیث وسیرت کو سامنے رکھیں :
(١) ” صحابی رسول حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ عہدِ نبوی میں ایک صاحب نے پھلوں کی (ادھار) خریداری کی؛ لیکن پھلوں کے کارآمد نہ ہونے کی وجہ سے ان کا نقصان ہوا اور وہ مقروض ہوگئے تو رسول اللہ ﷺ نے (ان کے لیے چندے کا اعلان کیا اور) فرمایا کہ : ” تَصَدَّقُوا عَلَيْهِ ” یعنی ان کی مدد کرو؛ چنانچہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے ان کا تعاون فرمایا جو قرض کی ادائیگی کے لیے کافی نہیں تھا؛ لہذا رسول اللہ ﷺ نے ان کے قرض خواہوں سے فرمایا : ” خُذُوا مَا وَجَدْتُمْ، وَلَيْسَ لَكُمْ إِلَّا ذَلِكَ” یعنی (اب تک) جو کچھ تم وصول کرچکے ہو (فی الحال) اسی پر اکتفا کرو، (بقیہ رقم بعد میں مل جائے گی) اور ہاں ! تمہارے لیے اس کے علاوہ (اپنے مقروض کو تکلیف پہنچانا) جائز نہیں ہوگا۔”
(صحیح مسلم، حدیث نمبر : 1556)
(٢) رسول اللہ ﷺ نے غزوۂ تبوک ٩ھ کے موقع پر بھی عام چندے کا اعلان فرمایا تھا؛ لیجیے اس سلسلے میں قاضی محمد سلیمان منصور پوری رحمہ اللہ (وفات : 1930ء) کی کتاب کا یہ اقتباس پڑھیے :
” نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے تیاری سامان کے لیے عام چندہ کی فہرست کھولی۔ عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے نو سو اونٹ، ایک سو گھوڑے اور ایک ہزار دینار چندہ میں دیے۔ ان کو “مجهز جيش العسرة” (فاقہ زدہ لشکر کا سامان تیار کرنے والے) کا خطاب ملا۔ عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ نے چالیس ہزار درہم، عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے تمام اثاث البیت نقد وجنس کا نصف جو کئی ہزار روپیہ تھا، پیش کیا۔ ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ جو کچھ لائے اگرچہ وہ قیمت میں کم تھا مگر معلوم ہوا کہ وہ گھر میں اللہ اور رسول ﷺ کی محبت کے سوا اور کچھ بھی باقی نہ چھوڑ کر آئے تھے۔ ابو عقیل انصاری رضی اللہ عنہ نے دو سیر چھوہارے لاکر پیش کیے اور یہ بھی عرض کی کہ “رات بھر پانی نکال نکال کر ایک کھیت کو سیراب کرکے چار سیر چھوہارے مزدوری کے لایا تھا، دوسیر بیوی بچے کے لیے چھوڑ کر باقی دو سیر لے آیا ہوں۔” نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ ان چھوہاروں کو جملہ قیمتی مال ومتاع کے اوپر بکھیر دو۔ غرض ہر صحابی نے اس موقع پر ایسے ہی خلوص وفراخ دلی سے کام لیا۔”
(رحمت للعالمین ﷺ : ١٣٦/١، مطبوعہ : فرید بک ڈپو دہلی)
مدارس اسلامیہ یقینا اسلام کے قلعے اور انسان سازی کے کارخانے ہیں، جہاں سے ملت اسلامیہ کے نونہال تعلیم وتربیت سے آراستہ ہوکر پوری دنیا میں امپورٹ اور ایکسپورٹ ہوتے ہیں اور شمع محمدی کے ذریعے نسل انسانی کی اصلاح وتربیت اور انھیں گمراہی کی تاریکیوں سے دور رکھنے کی اور جو لوگ ان میں پھنسے ہوئے ہیں انھیں وہاں سے نکال کر نور الہی کی طرف لانے کی کوشش کرتے ہیں، جیساکہ سب لوگ جانتے ہیں کہ ہمارے تمام مکاتب ومدارس کے سلسلے “صفہ نبوی” سے ملتے ہیں، رسول اللہ ﷺ وہاں کے ناظم اعلیٰ تھے اور معلم اعظم بھی، جبکہ اصحاب صفہ اور دیگر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین بہ یک وقت متعلم، معلم اور منتظم تینوں تھے، یعنی وہ رسول اللہ ﷺ سے حصول علم بھی کرتے، حسب تقاضا آپس میں ایک دوسرے کو تعلیم بھی دیتے اور اصحابِ صفہ کے لیے خورد ونوش کا انتظام بھی فرماتے تھے، “نظام صفہ” کے لیے نبی اکرم ﷺ اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی فکر مندیاں علامہ شبلی نعمانی رحمہ اللہ (وفات : 1914ء) کے الفاظ میں ملاحظہ فرمائیں :
“آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جب کہیں سے صدقہ کا کھانا آتا تو مسلَّم (پورا) ان (اصحابِ صفہ) کے پاس بھیج دیتے اور جب دعوت کا کھانا آتا تو ان کو بلا لیتے اور ان کے ساتھ بیٹھ کر کھاتے، اکثر ایسا ہوتا کہ راتوں کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ان کو مہاجرین اور انصار پر تقسیم کردیتے، یعنی اپنے مقدور کے موافق ہر شخص ایک ایک دو دو کواپنے ساتھ لے جائے اور ان کو کھانا کھلائے۔حضرت سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ نہایت فیاض اور دولت مند تھے، وہ کبھی کبھی اسّی اسّی مہمانوں کو اپنے ساتھ لے جاتے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ان لوگوں کا اس قدر خیال رکھتے تھے کہ جب ایک دفعہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے حضرت فاطمہ زہرا رضی اللہ عنہا نے درخواست کی کہ میرے ہاتھوں میں چکی پیستے پیستے نیل پڑگئے ہیں، مجھ کو ایک کنیز عنایت ہو تو فرمایا کہ “یہ نہیں ہوسکتا کہ میں تم کو دوں اور صفہ والے بھوکے رہیں۔”
(سيرة النبي ﷺ : ١٧٤/١، مطبوعہ : مکتبہ مدنیہ، اردو بازار، لاہور)
چونکہ اسباب کے درجے میں مدارس کا نظام مسلمانوں کے چندہ اور مالی تعاون پر موقوف ہوتا ہے، جبکہ ادھر تقریباً دو سال سے کرونا کی مہاماری کی بنا پر پوری دنیا کے معاشی حالات ناقابل بیان ہیں؛ اس لیے عام طور پر مدارس میں مالیہ کی وصولی نہ کے برابر ہوئی ہے، اب ایسی صورت حال میں انتظامیہ کے پاس بہ ظاہر دو ہی راستے ہیں : یا تو وہ اپنے ادارے کو بند کردیں، یا طلبہ وطالبات کی تعداد کم کرتے ہوئے بعض اساتذہ وعملہ کو باہمی رضامندی اور اتفاق رائے سے ہی سہی فارغ کردیں؛ لیکن ظاہر ہے کہ ان دونوں ہی صورتوں میں دین کا بہت بڑا نقصان ہوگا؛ لہذا ہمیں ہر حال میں مدارس کے تحفظ کی فکر اور کوشش کرنی چاہیے، بعض احباب کو ان کے ایمان وعمل کی کمزوری اور ازلی دشمن شیطان کے وسوسوں کی وجہ سے دینی کاموں میں تعاون کے یقینی اور حقیقی فائدے نظر نہیں آتے؛ اس لیے وہ مساجد ومدارس کے لیے چندہ کرنے والوں کو وقتاً فوقتاً کچھ کڑوی کسیلی باتیں سناتے رہتے ہیں؛ ہدف تنقید بناتے ہیں،انہیں مچند کے لقب سے نوازتے ہیں، حقیر نظروں سے دیکھتے ہیں، انہیں دیکھ کر راستہ بدل لیتے ہیں، پیشانی پر شکن پیدا کر لیتے ہیں۔ لیکن ہمیں اس سے دل برداشتہ اور پست ہمت ہونے کی قطعاً ضرورت نہیں ہے، ہمیں تو دین کے اس اہم کام کو بھی اخلاص اور ثواب آخرت کے یقین اور امید کے ساتھ جاری رکھنا اور شروع کرنا چاہیے، اور یہ سمجھنا چاہیے کہ یہ کام بھی عین سنت نبوی ہے !۔۔۔۔۔
نوٹ اس مضمون میں تخریج احادیث کا کام میرے لائق فائق شاگرد عزیز گرامی مولانا زاہد ناصری قاسمی نے انجام دیا ہے جو ہر طرح سے شکریہ کے مستحق ہیں، ۔