اتل کنک
ہریانہ کے جمنانگر کے کنالسی گاؤں کے نزدیک سے ایک ندی بہتی ہے-تھاپنا۔ تقریباً 15 کلومیٹر لمبی یہ ندی جمنا کی معاون ندیوں میں ایک ہے۔ اس ندی کی ایک خاصیت یہ ہے کہ اس میں کچھ ایسی نسلوں کی مچھلیاں پائی جاتی ہیں جو آلودہ پانی میں نہیں رہ پاتیں۔ یعنی اس ندی میں آلودگی کی صورت حال ملک کی کئی اہم ندیوں جیسی نہیں ہے۔ مگر2012 میں اس ندی کا وجود خطرے میں آگیا تھا۔ ایک تو اس سال بارش نسبتاً کم ہوئی، اوپر سے اس علاقہ میں ترقی کے نام پر ہونے والی کچھ تعمیرات نے معاون ندیوں سے تھاپنا میں آنے والے بارش کے پانی کا بہاؤ بند کردیا۔ ندی کی صورت حالت نے علاقہ کے کچھ حساس لوگوں کو تشویش میں مبتلا کیا۔ کسی بھی بڑی ندی کا بہاؤ سسٹم اس کی معاون ندیوں کی حالت پر ہی منحصر ہوتا ہے۔ اگر معاون ندیاں خشک ہوجائیں گی تو مین اسٹریم کا بہاؤ کیسے قائم رہ سکتا ہے؟ آج اگر ملک کی کئی اہم ندیوں کی حالت قابل افسوس ہے تو اس کا ایک سبب ہے کہ ہم نے معاون ندیوں، جن میں برساتی ندیاں اہم ہیں، کو بچانے پر مناسب توجہ نہیں دی۔
کسی ندی کا اس طرح دم توڑنا کیا ہوتا ہے، یہ اس کے کنارے رہنے والے لوگوں سے بہتر کون سمجھ سکتا ہے؟ آج سے تقریباً ڈیڑھ سو سال قبل تک لوگوں کے گھر تک پینے کے پانی کی سپلائی کا انتظام کسی حکومت یا حکمراں کی ذمہ داری نہیں ہوا کرتی تھی۔ اس وقت لوگوں کو ندیوں، کنوؤں، باؤلیوں، تالابوں یا کنڈوں جیسے آبی ذخائر پر ہی منحصر رہنا ہوتا تھا۔ کہتے ہیں کہ غرض باؤلی ہوتی ہے۔ مفاد کی تکمیل کی امیدکسی بھی شخص کے سلوک کو کسی کے تئیں حساس بنادیتی ہے۔ جس دور میں لوگ پانی سے متعلق ضرورتوں کی تکمیل کے لیے ایسے آبی ذخائر پر منحصر ہوا کرتے تھے، اس وقت ان کی پوجا کی جاتی تھی، انہیں آلودہ کرنا گناہ سمجھا جاتا تھا۔ تقریباً ڈیڑھ سو سال پہلے ندی کا ختم ہوجانا تو چھوڑئیے، اس کا راستہ بدلنا تک پورے معاشرہ کو تشویش میں مبتلا کردیتا تھا۔
2012میں جب تھاپنا ندی میں پانی بہت کم ہوگیا تو ندی کے کنارے رہنے والے کچھ حساس لوگوں کو ان مچھلیوں اور دیگر جانداروں کی فکر ستانے لگی، جو ندی کے پانی میں رہ رہے تھے۔ ایک پنچایت بلائی گئی۔ ندی کنارے جن لوگوں کے کھیت تھے، ان سے اپیل کی گئی کہ وہ سینچائی کے لیے ندی میں ایسی جگہ پمپ لگائیں، جہاں نسبتاً پانی زیادہ ہو، تاکہ کم پانی میں رہنے والے جانداروں کو بچایا جاسکے۔ حالاں کہ قحط کا خدشہ منھ کھولے کھڑا تھا، لیکن کنیاوالا، منڈولی جیسے گاؤوں کے کسانوں نے یہ مانتے ہوئے کہ بے زبان جانداروں کی جانوں کے تحفظ کے لیے ایسا کرنا ثواب کا کام ہوگا، پنچایت کی اس تجویز کو قبول کرلیا۔ پھر ایک ریٹائرڈ افسر کے ’یمنا جیو ابھیان‘ کے تحت اس علاقہ میں 20’ندی متر‘ گروپ تشکیل دیے گئے۔ ان گروپوں کے ممبران نے علاقہ کے 500سے زیادہ لوگوں کو ندی کے تحفظ کے لیے ٹریننگ دی۔ لندن کے ادارہ ’تھیمس ریور ریسٹوریشن ٹرسٹ‘ کا بھی تعاون ان کوششوں کو حاصل ہوا۔ علاقہ میں رہنے والے ندی کے تئیں جڑاؤ محسوس کریں، اس لیے ہر سال ستمبر کے آخری اتوار کو ندی کا یوم پیدائش منانے کا آغاز ہوا۔ ساری کوششوں نے رنگ دکھائے اور تھاپنا ندی کو بچالیا گیا۔
چھوٹی ندیوں کو بچانے میں مقامی لوگوں کا ندی سے جڑاؤ بہت اہم کردار ادا کرسکتا ہے۔ اترپردیش کے شاملی ضلع کے رامراگاؤں میں رہنے والے مستقیم ملا نامی نوجوان نے اس بات کو محسوس کرتے ہی جمنا کی ایک اور معاون ندی کتھا کو بچانے کے لیے ’ایک گھر ایک لوٹا پانی‘ مہم چلائی تھی، جس کے تحت گاؤں کے کنبوں سے اپیل کی گئی تھی کہ وہ علامتی طور پر اپنے اپنے گھروں سے ایک ایک لوٹا پانی ندی میں ڈالیں۔ اس مہم نے اس تقریباً 90کلومیٹر لمبی ندی کے تئیں لوگوں کی حساسیت بیدار کرنے میں اہم کردار نبھایا۔ 1830میں جب مشرقی جمنا نہر کی تعمیر کی گئی تو سہارنپور اور رام پور کے درمیان ایک بڑے حصہ میں ندی کے بہاؤ میں رکاوٹ آگئی۔ آہستہ آہستہ ندی نظراندازی کا شکار ہونے لگی۔ ندی متر گروپ کے ممبران نے محسوس کیا کہ اگر برسات کے دنوں میں جمنا کے سیلاب کے پانی کو غیرضروری نہ بہنے دیا جائے اور اسے کسی طرح کتھا ندی کی جانب لوٹایا جائے یا کتھا ندی میں روک لیا جائے۔ شروعات ایک کلومیٹر کے حصہ میں دریا کے کنارے گہری کھدائی کرنے سے ہوئی۔ دریا کے کنارے ایک تالاب نما بن گیا اور پانی کے ذخیرہ کی مقدار میں اضافہ ہوگیا۔ ایسا ندی کے بہاؤ کے علاقوں میں کئی مقامات پر کیا گیا۔ اضافی پانی کے بہاؤ کو روکنے کے لیے ندی کے پانی میں ان ڈھانچوں کے پاس چیک ڈیم بھی بنائے گئے۔ حالاں کہ 2017میں کم بارش ہونے سے لوگوں کے خواب ٹوٹ گئے، لیکن آخرکار کتھا ندی کو بچانے کی مہم رنگ لائی۔
سرکاری سسٹم کی اپنی مجبوریاں اور خامیاں ہوتی ہیں۔ چھوٹی ندیوں کو بچانے کے لیے سرکاری منصوبوں سے زیادہ ضروری ہے لوگوں کا ندیوں کے تئیں حساس ہونا۔ مقامی جڑاؤ کے بغیر ندیاں نظرانداز ہی رہتی ہیں۔ لوگ اگر ندی کی ثقافتی، معاشرتی، افسانوی اور معاشی اہمیت کو سمجھیں تو ندیوں کو نظرانداز کیے جانے سے نجات مل سکتی ہے۔ ۔۔۔چھوٹی ندیوں کو بچایا جاسکتا ہے، بشرطیکہ مقامی لوگ ان کے تئیں اپناپن محسوس کریں۔
2007میں بنگلورو میں اچانک پانی کا بحران پیدا ہوگیا۔ خالص پانی کی سپلائی کا اہم وسیلہ تھِپّانگوڈان ہلّی ذخیرئہ آب میں پانی کی سطح بہت کم ہوگئی۔ اس ذخیرئہ آب میں پانی کی سپلائی کا اہم ذریعہ کومودوتی نام کی ندی ہے۔ مگر کومودوتی کی اپنی حالت پتلی تھی۔ ایسے میں کچھ لوگوں نے ندی سے ریت نکالنے اور ندی کے آس پاس کے علاقہ میں زیرزمین پانی کی سطح میں اضافہ کے لیے قدیم فلاحی (باؤلیوں) اور دیگر آبی ذخائر کی مرمت کا کام کیا۔ جب علاقہ میں پانی کی سطح میں اضافہ ہوتا ہے تو ندی کو بھی اپنا بہاؤ قائم رکھنے میں مدد ملتی ہے۔ کیرالہ کے پلکّڑ ضلع کے پلّسینا گاؤں کے باشندوں نے گائتری پوجا نامی ندی کو بچانے کے لیے ندی کے بہاؤ کے ایریا میں پانی کی سطح بچانے کے لیے ایسے ہی طریقہ اپنائے۔ کیرالہ کی دوسری سب سے بڑی ندی برہتّ پوجا بھی کئی مقامات پر بہت بوسیدہ/کمزور ہوگئی تھی۔ اس ندی کے کنارے آباد پوکّوٹوکاوو گاؤں میں خواتین کو ٹریننگ دی گئی جنہوں نے ندی کے پیٹے اور اس کے آس پاس پانی کا ذخیرہ کرنے کے لیے کنویں جیسے ڈھانچے بنائے۔ اترپردیش میں منداکنی اور تمسا ندی کو بچانے کے کام ہوئے ہیں جب کہ سرکاری سطح پر تیڑھی، منورما، پانڈو، ورونا، ساسر، ارِل، موروا، ناد، کمروتی، بان، سوت، کالی، پوروی، داڈھی، ایشان، بوڑھی گنگا اور گومتی ندیوں کو بچانے کے لیے منصوبے بنائے گئے ہیں۔ راجستھان کے جے پور شہر میں درویہ وتی نام کی تاریخی ندی ایک گندے نالے میں تبدیل ہوگئی تھی۔ اس کی تاریخی اہمیت کو دیکھتے ہوئے اس کی بحالی کا منصوبہ بنایا گیا اور اس کے کنارے ایک ریور فرنٹ ڈیولپ کرکے اسے شہر کے اہم سیاحتی مقامات سے جوڑا گیا ہے۔
سرکاری سسٹم کی اپنی مجبوریاں اور خامیاں ہوتی ہیں۔ چھوٹی ندیوں کو بچانے کے لیے سرکاری منصوبوں سے زیادہ ضروری ہے لوگوں کا ندیوں کے تئیں حساس ہونا۔ مقامی جڑاؤ کے بغیر ندیاں نظرانداز ہی رہتی ہیں۔ لوگ اگر ندی کی ثقافتی، معاشرتی، افسانوی اور معاشی اہمیت کو سمجھیں تو ندیوں کو نظرانداز کیے جانے سے نجات مل سکتی ہے۔ پنجاب کی کالی بیئی ندی کی تاریخ خود گرو نانک دیو سے جڑی ہوئی تھی، لیکن ندیوں کے تئیں نظرانداز کیے جانے کے رجحان نے کالی بیئی کو بھی کچھ سالوں پہلے ایک گندے نالے میں بدل دیا تھا۔ سنت بلبیر سنگھ سچّے وال کی پہل پر لوگوں کی حمایت ملی اور کبھی نظراندازی کے اندھیرے میں رہنے والی کالی بیئی ندی آج لوگوں کی عقیدت اور سیاحت کا مرکز ہے۔
چھوٹی ندیوں کو بچایا جاسکتا ہے، بشرطیکہ مقامی لوگ ان کے تئیں اپناپن محسوس کریں۔
(بشکریہ: جن ستّا)