افراط زر سے مشکلات میں اضافہ

0

سروج کمار

افراط زر بازار کی ایسی خاصیت ہے جس کا اثر آمدنی کے رُخ پر منحصر ہوتا ہے۔ آمدنی سازگار ہو تو مہنگائی لوگوں کو کھا نہیں پاتی۔ لیکن جب آمدنی کم ہونے لگے تو مہنگائی اپنی پرتشدد شکل دکھانے میں بھی نہیں پیچھے رہتی۔ تشدد بھی ایسا کہ عام آدمی گھٹ گھٹ کر مرتا ہے۔ ملک میں کم و بیش آج یہی صورت حال ہے۔ مہنگائی کے برعکس آمدنی کا رُخ نیچے کی جانب ہے۔ افراط زر کی شرح کے تازہ اعداد و شمار بہتری کا اشارہ بتائے جارہے ہیں، لیکن اُدھار پر جی رہے عوام کے تجربات اس کے برعکس ہیں۔ دراصل سوال افراط زر کی شرح کا نہیں، اصل سوال شرح کے اثر کا ہے۔ خالی جیب پر یہ اثر اتنا گہرا ہے کہ دنوں دن لوگوں کا گزربسر مشکل ہوتا جارہا ہے۔
اگست میں کنزیومر پرائس انڈیکس(سی پی آئی) پر مبنی خردہ افراط زر کی شرح میں معمولی بہتری ہوئی اور یہ جولائی کی سطح 5.59فیصدسے کم ہوکر 5.30فیصدپر آگئی۔ یہ بھی کہ مسلسل دوسرے ماہ افراط زر کی شرح بھارتیہ ریزرو بینک(آر بی آئی) کی مقررہ زیادہ سے زیادہ 6فیصد کی سرحد کے اندر رہی۔ 2021-22کے لیے آربی آئی کا افراط زر کی شرح کا اندازہ 5.7فیصد ہے۔ افراط زر کی شرح میں بہتری کی یہ باتیں کہنے سننے میں اچھی لگتی ہیں، لیکن آمدنی کتنی کم ہوچکی ہے، اس کے کوئی صحیح اعداد و شمار ہمارے پاس نہیں ہیں۔ بہتری کے اعداد و شمار میں بھی عام آدمی کا مایوس چہرہ ہی نظر آتا ہے۔ بہتری کی نوعیت تکنیکی اور موسمی ہے۔ عوام کو اس کا معمولی فائدہ بھی شاید ہی مل پائے۔ خردہ افراط زر کی شرح میں یہ بہتری غذائی اشیا، خاص طور پر اناج، چینی اور سبزیوں کی قیمتو ںمیں کمی اور ’بائی بیس ایفیکٹ‘ کا نتیجہ ہے۔ غذائی اشیا کی قیمتوں میں کمی کا ایک بڑا سبب 80کروڑ آبادی کو ہر ماہ چار کلو مفت اناج بھی ہے۔ بازار میں اناج کی ڈیمانڈ کم ہوگئی ہے۔ لیکن مفت اسکیم سے باہر کی غذائی اشیا کی قیمتیں آسمان چھو رہی ہیں۔ پروٹین سے بھرپور غذائی اشیا اور خوردنی تیل کے مہنگا ہونے کا اثر لوگوں کی صحت پر بھی پڑ رہا ہے۔ صحت پر خرچ میں اضافہ ہوگیا ہے۔ ایسے میں صحت کے شعبہ میں جولائی کے 7.4فیصد کے مقابلہ 7.8فیصد کی افراط زر کی شرح جلے میں نمک سے کم نہیں ہے۔ خوردنی اشیا کی افراط زر کی شرح جولائی کے 3.96فیصد سے کم ہوکر اگست میں 3.11فیصد ضرور ہوگئی، لیکن اسی زمرے میں آنے والے تیل اور چربی(چکنائی) جولائی کے 32.5 فیصد کے مقابلہ33فیصد، گوشت اور مچھلی 8.33فیصد کے مقابلہ 9.2فیصد مہنگے ہوگئے۔ دالیں بھی 8.8فیصد کی اعلیٰ سطح پر قائم ہیں۔ تو کیا اناج بھی سستا تبھی تک ہے، جب تک مفت اسکیم ہے۔ ہائی بیس ایفیکٹ بھی دو ماہ بعد نہیں رہے گا۔ یعنی دیوالی کے بعد ایک مرتبہ پھر افراط زر کی شرح واپس 6فیصد سے اوپر جاسکتی ہے۔
تھوک افراط زر کی شرح میں اضافہ کا راست مطلب ہے کہ بنیادی مصنوعات مہنگی ہوئی ہیں اور مینوفیکچرنگ لاگت میں اضافہ ہوا ہے۔ اس کا اثر صارفین کو ہی بھگتنا ہے۔ مینوفیکچرڈ پروڈکٹس کے مہنگے ہونے کا ایک بڑا سبب ایندھن کی اونچی قیمت بھی ہے۔ ایل پی جی، پٹرول اور ڈیژل اگست میں بالترتیب:48.1فیصد، 61.5فیصد اور 50.7فیصد مہنگے ہوگئے۔ مہنگائی کے اعداد و شمار کا اوپر نیچا ہونا معنی رکھتا ہے۔ لیکن صارفین کا تجربہ کہیں زیادہ اہم ہے۔ اور تجربہ کی بات یہ ہے کہ بازار میں فروخت ہونے والی ہر چیز، چاہے سامان ہو یا سروس، اسے خریدنے کے لیے صارفین کو مشقت کرنی پڑرہی ہے۔ مہنگائی کے مقابلہ آمدنی کم ہونے کے سبب کئی ساری چیزیں عوام کی پہنچ سے باہر ہوگئی ہیں۔ اس لیے اب سب کے ذہن و دل میں سوال ہے کہ مہنگائی سے نجات کب اور کیسے ملے؟
اس کے واضح طور پر دو طریقے ہیں۔ پہلا بازار سے نجات اور دوسرا آمدنی میں متناسب اضافہ۔ پہلا طریقہ آج کے وقت میں ناممکن لگتا ہے، لیکن دوسرے طریقہ کی کوششیں بھی پالیسی ساز خامیوں کی بھینٹ چڑھ رہی ہیں۔ آمدنی بڑھنے کے بجائے گھٹ رہی ہے۔ ہر ماہ نوکریاں جارہی ہیں۔ بے روزگاری مسلسل بڑھ رہی ہے، قوت خرید کم ہورہی ہے۔ سینٹر فار مانیٹرنگ انڈین اکنامی(سی ایم آئی ای) کے مطابق، اگست میں 15لاکھ لوگوں کی نوکریاں چلی گئیں۔ آمدنی کی کمزور صورت حال میں مہنگائی کا اثر بڑھ رہا ہے۔ وبا نے سوا تین کروڑ لوگوں کو متوسط طبقہ سے نکال کر غریبی میں دھکیل دیا ہے۔ وبا کے دور میں عالمی سطح پر متوسط طبقہ کی جتنی تعداد کم ہوئی ہے، اس میں 60فیصد تعاون اکیلے ہندوستان کا ہے۔ نیشنل کونسل فار اپلائڈ اکنامک ریسرچ(این سی اے ای آر) نے دو سے 10لاکھ روپے تک سالانہ آمدنی والوں کو متوسط طبقہ میں رکھا ہے۔ یعنی متوسط طبقہ کے 3.20کروڑ لوگوں کی آمدنی دو لاکھ روپے سے نیچے آگئی ہے۔عظیم پریم جی یونیورسٹی کے ایک مطالعہ میں 23کروڑ لوگوں کے خط افلاس کے نیچے پہنچنے کی بات پہلے ہی آچکی ہے۔ ملک کی 97فیصد آبادی کی آمدنی کم ہوچکی ہے۔ فی شخص کھپت 62,056روپے سے کم ہوکر 2020-21میں 55,783 روپے ہوگئی ہے۔ ذاتی کھپت میں کمی کا رُخ گزشتہ چار برسوں سے ہے۔ حالات اس رُخ کے آگے بھی برقرار رہنے کا اشارہ دے رہے ہیں۔ یہ اعداد و شمار خوفزدہ کرنے والے ہیں۔

پٹرول اور ڈیژل کی قیمتوں میں روزانہ تـرمـیـم کا ڈیلی اسسمنٹ سسٹم جب 16 جون،2017 کو نافذ ہـوا تـھـا، تب حـکـومت کـی جـانب سـے کہا گیا تـھـا کـہ وہ بـیـن الاقوامی تیل کـی قـیـمـتـوں میں ہونے والـی ہـر ایک مـعـمـولـی تبدیلی کا فائدہ عام صارفین کو دینا چاہتی ہے۔ لیکن تیل کی بین الاقوامـی قیمتوں میں آئی زبردست کـمـی کا فائدہ صارفین کو کبھی نہیں ملا، البتہ ہـر معمولـی اضافہ کا بوجھ صارفین کو ضرور اٹھانا پڑا۔

اب جو لوگ سرکاری راحت پیکیج اور شیئر بازار کی اونچائی کی دہائی دے کر مہنگائی بے روزگاری پر پردہ ڈالنا چاہتے ہیں، ان کے لیے شیئر بازار کی ہی یہ تصویر آئینہ ہے۔ 30بڑی کمپنیوں کے انڈیکس بی ایس ای انڈیکس اور پچاس سب سے بڑی کمپنیوں کے انڈیکس این ایس ای نفٹی میں اپریل 2020سے جولائی 2021کے درمیان بالترتیب تقریباً86فیصد اور 91فیصد کا اچھال آیا۔ لیکن 2020-21کے ہی مالی سال میں جی ڈی پی صفر سے نیچے 7.3فیصد غوطہ لگا گئی۔ یعنی شیئر بازار کا جی ڈی پی سے کوئی تعلق نہیں ہے اور شیئر بازار کی اونچائی سے روزگار پیدا ہونے اور آمدنی میں اضافہ کی بات بے معنی ہے۔ اس کا دوسرا مطلب یہ بھی ہے کہ آر بی آئی نے روزگار پیدا کرنے کے مقصد سے قرض کے جو انتظامات کیے، ان کا حقیقی فائدہ معیشت کے بجائے شیئر بازار کو ملنے لگا۔ اگر قرض کا یہ پیسہ معیشت میں لگا ہوتا تو روزگار پیدا ہوتا، لوگوں کی آمدنی میں اضافہ ہوتا۔ آمدنی سے مہنگائی بے اثر ہوتی، بازار میں ڈیمانڈ بڑھتی اور ڈیمانڈ بڑھنے سے شرح نمو میں اضافہ ہوتا۔ لیکن ایسا نہ ہو سکا۔ معیشت آنسو بہا رہی ہے اور عام آدمی اس کی قیمت پٹرول، ڈیژل پر زبردست ٹیکس دے کر ادا کررہا ہے۔
پٹرول اور ڈیژل کی قیمتوں میں روزانہ ترمیم کا ڈیلی اسسمنٹ سسٹم جب 16جون،2017کو نافذ ہوا تھا، تب حکومت کی جانب سے کہا گیا تھا کہ وہ بین الاقوامی تیل کی قیمتوں میں ہونے والی ہر ایک معمولی تبدیلی کا فائدہ عام صارفین کو دینا چاہتی ہے۔ لیکن تیل کی بین الاقوامی قیمتوں میں آئی زبردست کمی کا فائدہ صارفین کو کبھی نہیں ملا، البتہ ہر معمولی اضافہ کا بوجھ صارفین کو ضرور اٹھانا پڑا۔ حکومت نے اپنے ہی بنائے ضوابط توڑ دیے اور ایکسائز ڈیوٹی بڑھا کر عوام کے حصہ کا پورا فائدہ اپنی جیب میں رکھتی رہی۔ اس ڈیوٹی کو بعد میں واپس لینے کی بات تھی۔ لیکن بے تحاشہ مہنگائی اور بے روزگاری کے باوجود ابھی تک یہ نہیں ہوا ہے۔ آج پٹرول، ڈیژل 100روپے لیٹر سے اوپر فروخت ہورہا ہے۔ سرسوس کا تیل 200روپے لیٹر ہوگیا ہے۔ رسوئی گیس سلنڈر 900روپے کے پار پہنچ گیا ہے۔ سڑک سے کچن تک عام صارفین مہنگائی کی زد میں جھلس رہا ہے۔ اونچی افراط زر سے بے اثر 3فیصد لوگ شرح میں معمولی بہتری پر تالی بجارہے ہیں۔
(بشکریہ: جن ستّا)

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS