راستے کی صـفائی ستھرائی کارِثواب اورجزء ایمان

0

عمیرکوٹی ندوی
راستہ کسی کابھی ہو اورکسی بھی قسم کا ہو اس کی بڑی اہمیت ہے۔یہ آمد ورفت اور نقل وحمل کا اہم ترین ذریعہ اور انسان کی بنیادی ضرورتوں میں شمار کیا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انسان کی سماجی زندگی میں راستوں کے تعلق سے کوئی نہ کوئی نظام ضرور ملتا ہے۔اسلام جوکہ ایک فطری مذہب ہے اس نے راستوں کے تعلق سے خصوصی ہدایات دی ہیں۔ نظام زندگی میں اس کی اہمیت کو تسلیم کئے جانے کے باوجود انسان کا مزاج یہ ہے کہ عام حالات اور ایام میں وہ اس کی طرف توجہ نہیں دیتے بلکہ اپنے حال پر خوش اور چال میں مست رہتے ہیں۔ لیکن حالات اور موسم نے ذرا سا رخ بدلا نہیں کہ انسان کی ساری خوشی اور مستی کافور ہوجاتی ہے۔ موسم گرم ہو تو راستوں کی ویرانی اور بالعموم سائبان صفت درختوں سے عاری ہونے کی بنا پردھوپ کی تپش اورلو کے تھپیڑے ہر ذی روح سے اس کا مزاج دریافت کرنے لگتے ہیں۔ موسم برسات کا ہو تو ہر طرف ہاہاکار مچ جاتا ہے۔انسانی آبادی کی ساری گندگی راستوں پر آموجود ہوتی ہے۔ ندی نالے اپنے تمام فضلات کو راستوں پر لا ڈال دیتے ہیں۔پھر خوشی اور مستی میں ڈوبے یہی انسان شکوہ اور شکایات کا دفترکھول کر بیٹھ جاتے ہیں۔راستے کی پریشانی کا اس انداز سے اظہار کرتے ہیں گویا کوئی ناگہانی آفت ان پر آپڑی ہو اور اس صورت حال سے ان کا دور دور کا واسطہ نہ ہو۔
راستے بے جان ہوتے ہیں، وہ نہ تو خود سے اپنی کوئی شکل لے سکتے ہیں اور نہ ہی من چاہی صورت اختیار کرسکتے ہیں۔ وہ پورے طور پر انسانوں کی دسترس میں ہوتے ہیں۔انسان ہی انہیں من چاہی شکل دیتے ہیں اور من مرضی ان کا استعمال کرتے ہیں۔ خواہ ویرانی اور سائبان سے محرومی کی صورت میں موسم کی گرم مزاجی کا سامنا ہو یا موسم برسات میں غلاظت،گندگی، فضلات کاحملہ یا پھر راستوں کا ندی تالاب کی شکل اختیار کرجانا،ان سب میں راستوں کا کوئی قصور نہیں ہوتا بلکہ یہ سب انسان کی اپنی کارکردگی کا نتیجہ ہوتا ہے۔برے کام کا نتیجہ برا ہوتا ہے ، یہ ہر کوئی جانتا ہے۔ اس کے باوجود عمل اس کے برخلاف ہوتا ہے، اس لئے اس کا نتیجہ بھی جلد ہی انسان کے سامنے آجاتا ہے۔راستوں کی تباہی اور اس کے نتیجہ میں انسانی زندگی کو عذاب بنتے ہوئے انسان خود اپنی آنکھوں سے دیکھتا ہے۔اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان’’لوگوں نے اپنے ہاتھوں جو کمائی کی،اس کی وجہ سے خشکی اور تری میں فساد پھیلا‘‘(الروم41-)اس صورت حال کی تصویر کشی کرتا ہے۔سایہ دار درختوں کو کاٹ دینا اور نئے درختوں اور پودوں کے لئے جگہ کا نظم نہ کرنا بھی انسان کا ہی عمل ہے۔ راستوں کو خراب کرنا ہو، توڑ پھوڑ کرنا ہو، قبضہ کرنا ہو، تنگ کردینا ہو، دکان کو آگے بڑھا لینا ہو، گاڑیاں کھڑی کردینا ہو اور اس میں بھی انہیںبے ترتیب کھڑی کرنا ہو، یہ سب انسان ہی کرتا ہے۔ راستوں کے بغل میں بنی نالیوں اور نالوں کو اپنے سامان اور دیگر چیزوں سے بھر دینا، گندگی ، فضلات، ہر طرح کے کوڑے کباڑ اور دیگر چیزوں کو نالیوں میں ڈالنا،انہیں جام کردینا، پانی کے بہاؤ کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کردینا یہ سب بھی انسان کے اپنے ہی اعمال ہیں۔
انسان کے اعمال کی ایک قسم اور بھی ہے جو راہ گیروں کو پریشان کرتی ہے۔اس وقت راستے خواتین اور لڑکیوں کے لئے بھی پریشانی اور فساد کی جگہ بنے ہوئے ہیں۔ کسی بھی انسان کے لئے اپنے اطراف کے کسی بھی ایسے راستہ کی نشاندہی کرنا ممکن نہیں رہا جو خواتین اور بچیوں کی عزت ووقار کے لحاظ سے محفوظ تصور کیا جاتا ہو۔راستہ کوئی بھی ہو، گلی کوئی سی بھی ہو، جدھر نظر ڈالئے آوارہ قسم کے، سماج دشمن لڑکے راستہ پر آتی جاتی خواتین اور لڑکیوں کو چھیڑتے ،آوازیں کستے ہر وقت نظر آتے ہیں۔لڑکے تو لڑکے ،جرائم پیشہ بڑی عمر کے لوگ بھی آنے جانے والوں پر غلط نظر ڈالتے ہر کہیں دکھ جاتے ہیں۔ ایسی خبریں آئے دن پڑھنے اور سننے کو ملتی رہتی ہیں کہ اپنے ساتھ ہونے والے غلط برتاؤ کے خلاف آواز اٹھانے والی خواتین اور لڑکیوں کو ظلم وستم اور زود وکوب کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ کئی بار تو انہیں اپنی عزت کو بچانے کی قیمت اپنی جان گنوا کر ادا کرنی پڑتی ہے۔ ایسی بھی خبریں آئے دن آتی ہیں کہ عزت اور جان دونوں سے ہی خواتین اور لڑکیوں کو ہاتھ دھونا پڑتا ہے۔ اس قسم کی چھیڑ چھاڑ کے خلاف آواز اٹھانے والے بھی زود وکوب کا شکار ہوتے ہیں اور کئی بار جان گنوا بیٹھتے ہیں۔
راستہ چلنے والوں کی مدد کرنا، ان کے ساتھ بھلائی کرنا،ان کی رہنمائی کرنا، اچھی بات بتانا اور تکلیف دہ و نقصاندہ باتوں سے ہوشیار و خبر دار کرنا ،یہ سب باتیں شان کے خلاف اور عیب تصور کی جانے لگی ہیں۔ان سب کا نقصان تو خود انسانوں کو ہی ہو رہا ہے۔انسانوں کے پیدا کرنے والے کی طرف سے انسانوں کی رہنمائی کے لئے دیا گیا دین اسلام انسانی زندگی کے ہر معاملہ کی طرح راستہ کے تعلق سے بھی انسانوں کی مکمل رہنمائی کرتا ہے۔ راستہ کے تعلق سے قرآن کہتا ہے کہ’’اور ہم نے اس(زمین) میں کشادہ راہیں رکھیں‘‘(سورہ انبیاء- 31) ایک دوسری جگہ کہتا ہے کہ ’’اللہ نے تمہارے لیے زمین کو بچھونا بنایا۔ تاکہ تم اس کے وسیع راستوں میں چلو‘‘(سورہ نوح19-20:)۔حضورؐ نے فرمایا کہ ’’راستہ سات ہاتھ (چوڑا) رکھو‘‘( ترمذی: 1355)۔ حضورؐ نے راستوں کے باقاعدہ حقوق بتائے ہیںاور انہیں ادا کرنے کی ہدایت دی ہے۔ فرمایا’’راستے کو اس کا حق عطا کرو لوگوں نے عرض کیا راستے کا حق کیا ہے؟ آپؐ نے فرمایا نگاہیں نیچی رکھنا، ایذاء رسانی سے رکنا ،سلام کا جواب دینا اور اچھی باتوں کا حکم دینا اور بری باتوں سے روکنا‘‘(بخاری2465-ٌ)۔اللہ تعالیٰ نے مردوں کو نگاہوں کو نیچی رکھنے کا حکم دیا ہے۔ فرمایا’’مسلمان مردوں سے کہو کہ اپنی نگاہیں نیچی رکھیں اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت رکھیں‘‘(النور30-)۔ایک حدیث میں آپؐ نے راستہ سے تکلیف دہ چیز کو ہٹانے کو ایمان کا جزء قرار دیا ہے(مسلم38-)۔ایک دوسری حدیث میں آپؐ نے فرمایا کہ’’راستہ سے تکلیف دہ چیز کو ہٹانا بھی صدقہ ہے‘‘(بخاری2989-)۔ ایک موقع پر رسولؐ نے فرمایا’’ دوموجب لعنت والی چیزوں سے بچو، صحابہؓ نے کہا اللہ کے رسول وہ دو چیزیں کونسی ہیں ؟ آپ ؐ نے فرمایا: لوگوں کے راستہ میں یا سایہ دار جگہ پہ قضائے حاجت کرنا ‘‘ (مسلم- 269)۔اسلام میں سلام کرنے کا حکم بھی دیا گیا ہے اور اسے آپسی محبت کے پروان چڑھنے کے لئے اہم نسخہ بتایا گیا ہے۔ حضورؐ نے فرمایا’’کیا تمہیں ایسی چیز نہ بتاؤں جس پہ عمل کرنے سے تم ایک دوسرے سے محبت کرنے لگ جاؤ، آپس میں سلام عام کرو‘‘(مسلم203-)۔رہی بات راہ گیروں کی رہنمائی کرنے،مفید باتیں بتانے، اچھی بات کہنے اور نقصاندہ بات اور چیزوں سے خبر دار کرنے کی تو اسلام نے مسلمانوں کا مقصد ہی یہی بتایا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا’’تم بہترین امت ہو جو لوگوں کے لئے پیدا کی گئی ہے تم نیک باتوں کا حکم کرتے ہو اور بری باتوں سے روکتے ہو اور اللہ تعالیٰ پر ایمان رکھتے ہو‘‘(آل عمران110-) ۔

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS