وِوان مارواہ
میں نے 2018میںاپنی کتاب کے لیے آج کے نوجوانوں کی معاشی خواہشات، ان کی معاشرتی سوچ اور سیاسی نظریہ پر ریسرچ کرنی شروع کی۔ میرا مقصد صاف تھا۔ میں ان لوگوں کو سمجھنا چاہتا تھا، جن کو ہم نے بہت زیادہ نہیں سنا ہے۔ آخر ملک کے چھوٹے قصبات اور شہروں میں رہنے والے نوجوان ہندوستان کے مستقبل میں اپنی جگہ کہاں دیکھتے ہیں؟
واقعی، اپنے ملک میں کافی زیادہ تنوع ہے اور نوجوان بھی اس سے مستثنیٰ نہیں ہیں۔ حالاں کہ لسانی، ثقافتی، مذہبی اور علاقائی بنیاد پر خاصا فرق ہونے کے سبب اس نسل کا متحدہ گروپ کے طور پر مطالعہ کافی مشکل ہوسکتا ہے، لیکن ایک جنرل فارمولہ جو ہندوستان کے نوجوانوں کو ایک کرتا ہے، وہ ہے اپنے مستقبل کے سلسلہ میں ان کی فکر۔
اپنی کتاب لکھتے وقت میں نے 13ریاستوں میں 900سے زائد نوجوانوں سے بات کی۔ میں نے بیشک ان میں باہمی طور پر متضاد خیالات اور تجربات دیکھے، لیکن جس ایک بات سے میں کافی متاثر ہوا اور جس نے میرے جواب دہندگان کو ایک دوسرے سے جوڑا، وہ بات ہے اپنے معاشی، معاشرتی و سیاسی متبادل کے تعلق سے حوصلہ مند (ambitious) ہوتے ہوئے بھی وہ اِدھر اُدھر بھاگنے کے بجائے استحکام پر توجہ دینا چاہتے ہیں۔
اچھی تنخواہ والی پرائیویٹ سیکٹر کی نوکریوں کی کمی کے سبب ان کی معاشی تشویش نہ صرف ان کی اپنی کامیابی کی راہ میں بڑی رکاوٹ ہے، بلکہ ملک کے خوشگوار مستقبل کے لیے بھی ٹھیک نہیں ہے۔ بے روزگار نوجوان پانچ یا دس ٹریلین ڈالر کی معیشت کی راہ میں نیشن بلڈر ثابت نہیں ہوں گے۔ کووڈ-19سے پہلے ملک میں بے روزگاری کی شرح 45سال کی اپنی اعلیٰ سطح پر تھی اور ہم نے تقریباً ہر ایک ہفتہ خبروں میں دیکھا تھا کہ کس طرح لاکھوں اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوان ریلوے میں چپراسی کی سطح یا سرکاری دفاتر میں فورتھ کلاس کے عہدوں کے لیے درخواست دے رہے تھے۔ ان میں سے کئی تو پی ایچ ڈی، ایم بی اے اور بی ٹیک پاس تھے اور ان عہدوں کے لیے وہ درخواست کررہے تھے، جن کے لیے دسویں پاس درخواست گزار درکار تھے۔
’سینٹر فار دی اسٹڈی آف ڈیولپنگ سوسائٹیز‘(سی ایس ڈی ایس) کے ایک نوجوان سروے میں ہر تین میں سے دو ہندوستانی نوجوانوں نے روزگار کے لحاظ سے سرکاری نوکری کو توجہ دی ہے۔ اپنی ریسرچ کے دوران میں بھی لاتعداد ایسے نوجوانوں سے ملا، جنہوں نے اپنی زندگی کا اچھا خاصا وقت یونین پبلک سروس کمیشن کے امتحانات یا ریاستی سطح کی انڈمنسٹریٹو سروسز کی تیاری میں خرچ کیا ہے۔ کئی تو جیسے تیسے کوئی بھی سرکاری نوکری حاصل کرنا چاہتے تھے، کیوں کہ یہ مستحکم اور پائیدار ہوتی ہے۔ ظاہر ہے، ہندوستانی معیشت پرائیویٹ سیکٹر میں مناسب مقدار میں محفوظ روزگار پیدا نہیں کررہی ہے، اور کئی نوجوانوں کو پائیدار روزگار کی تلاش میں سرکاری سیکٹر کی جانب منھ تکنے کے لیے مجبور کیا جارہا ہے۔ 1991کے لبرلائزیشن نے ایک مضبوط سروس سیکٹر کی تشکیل ضرور کی ہے، لیکن یہ ہر سال ملک کے لیبرفورس میں شامل ہونے والے لاکھوں نوجوانوں کا بہت معمولی حصہ بھی نہیں سنبھال پارہا۔
اگر یہی حالات رہے تو ہندوستان کے لیے اپنے نوجوانوں کی آبادی، جسے آبادیاتی منافع بھی کہا جاتا ہے، کا فائدہ اٹھانا اور پانچ سے 10ٹریلین ڈالر کی معیشت بننا مشکل ہوجائے گا۔ معاشی غیر یقینی صورت حال کا اثر وسیع ہوگیا ہے، جو ایک پوری نسل کی ترقی اور اس کی صلاحیت کو متاثر کرسکتا ہے۔ ہمیں ایسا نہیں ہونے دینا چاہیے۔
معاشی بے فکری نہ ہونے کی وجہ سے ہندوستانی نوجوان اپنی ذاتی زندگی کو مستحکم بنانا چاہتے ہیں۔ 21ویں صدی میں بھی ’ارینجنڈ میرج‘، یعنی والدین کے ذریعہ طے کی گئی شادی کا ایک مضبوط آرگنائزیشن کی شکل میں قائم رہنا اس کی تصدیق کرتا ہے۔ سی ایس ڈی ایس یوتھ سروے میں پایا گیا ہے کہ 10میں سے 8سے زائد(84فیصد) شادہ شدہ ہندوستانی نوجوانوں نے ارینجنڈ میرج کی تھی، جبکہ لو میرج کرنے والوں کی تعداد محض 6فیصد تھی۔ ہندی فلمیں بھلے ہی کچھ اور کہانی بیاں کریں، لیکن زیادہ تر ہندوستانی نوجوان خود اپنا شریک حیات نہیں تلاش کرتے۔ ان میں سے کچھ تو معاشرتی دباؤ کی وجہ سے ایسا نہیں کرنا چاہتے، جبکہ زیادہ تر اچھی تنخواہ و پائیدار روزگار کی کمی اور معاشی عدم استحکام کے سبب خود کو اتنا قابل نہیں پاتے کہ پیار کی تلاش کرسکیں۔
استحکام کی یہ خواہش آخرکار ای وی ایم میں ظاہر ہوتی ہے۔ ووٹنگ کے اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ ہندوستانی نوجوان بی جے پی اور وزیراعظم نریندر مودی کی سب سے زیادہ حمایت کرتے ہیں۔ معیشت پر توجہ دینے والوں کو ممکنہ یہ بات غلط لگے گی، لیکن سچ یہی ہے کہ جو لیڈر ایسے مضبوط ہندوستان کا وعدہ کرتے ہیں جو اپنے دشمنوں (اندرونی اور بیرونی) کے خلاف مضبوطی سے کھڑا ہوگا، اس کے چھوٹے شہروں اور گاوؤں میں الیکشن جیتنے کے امکانات میں اضافہ ہوجاتا ہے۔
سال 2019 کے لوک سبھا انتخابات اس کو سمجھنے کے لیے ایک واضح مثال ہے۔ یہ بڑھتی بے روزگاری اور پاکستان کے ساتھ سرحد پر تصادم کے درمیان منعقد کیے گئے تھے۔ نوجوانوں ہندوستانیوں کو یہ بتانے پر کہ کون ان کو اچھی سکیورٹی فراہم کرے گا اور باہر کی دنیا سے بچائے گا، نوکریوں کی کمی کا ایشو کمزور پڑتا گیا۔ الیکشن کے بعد کے سروے بتاتے ہیں کہ 18سے 35سال کی عمر کے گروپ کے تقریباً40فیصد ووٹروں نے بی جے پی کا ساتھ دیا، جو پارٹی کے قومی ووٹ شیئر سے تقریباً چار نمبر زیادہ ہے۔
میں نے اپنے انٹرویوز میںپایا کہ ان میں سے کئی نوجوان ووٹر مودی کی شخصیت سے متاثر تھے۔ ان کے لیے وہ والد جیسے احترام میں بولے جانے والے الفاظ بول رہے تھے، جو ایک غیرمستحکم دنیا میں ذاتی طور پر ان کی دیکھ بھال کریں گے۔ حقیقی معاشی ترقی، جس کے ظاہر ہونے میں کئی سال لگ جاتے ہیں، اتنی اہم بات نہیں لگ رہی تھی، جتنی استحکام کی تلاش۔
واضح ہے، ہندوستانی نوجوان ابھی دفاعی پوزیشن میں ہیں۔ وہ ایک ایسی معیشت میں اپنے قدم جمانے کی کوشش کررہے ہیں جو مناسب روزگار پیدا نہیں کررہی ہے، لیکن ان کے رہن سہن کے اخراجات میں مسلسل اضافہ کررہی ہے۔نتیجتاً وہ 21ویں صدی کی معیشت اور عالمی نظام کا فائدہ اٹھانے کے بجائے بیک فٹ پر لڑرہے ہیں۔ یہ ایک برا دور ہے، جہاں نوجوانوں کا قیمتی وقت زیادہ تر صلاحیت و مستقبل کا فائدہ اٹھانے کے بجائے بنیادی ضرورتوں کو پورا کرنے میں ضائع ہورہا ہے۔
اگر یہی حالات رہے تو ہندوستان کے لیے اپنے نوجوانوں کی آبادی، جسے آبادیاتی منافع بھی کہا جاتا ہے، کا فائدہ اٹھانا اور پانچ سے 10ٹریلین ڈالر کی معیشت بننا مشکل ہوجائے گا۔ معاشی غیریقینی صورت حال کا اثر وسیع ہوگیا ہے، جو ایک پوری نسل کی ترقی اور اس کی صلاحیت کو متاثر کرسکتا ہے۔ ہمیں ایسا نہیں ہونے دینا چاہیے۔
(مضمون نگار ریسرچ اسکالر اور صنعت کار ہیں)
(بشکریہ: ہندوستان)