عدلیہ پر بھی حاوی ہونے کی کوشش؟

0

عدلیہ آئین کی محافظ ہوتی ہے اور اس کا بنیادی وظیفہ قانون کی حکمرانی کو یقینی بناناہے۔چیک اینڈ بیلنس کے نظام میں عدلیہ کی یہی ناگزیر حیثیت جمہوریت کا جوہر ہے اور اس سے کسی بھی حال میں سمجھوتہ نہیں کیا جاسکتا ہے۔ لیکن بدقسمتی یہ ہے کہ دھیرے دھیرے چیک اینڈ بیلنس قائم رکھنے والے آئینی اداروں پر حکومت حاوی ہوتی جارہی ہے۔عدلیہ کوکچھ حد تک اس سے استثنیٰ حاصل تھا لیکن گزشتہ برسوں میں چند ایسے واقعات پیش آئے ہیں جن سے یہ احساس ہورہاہے کہ حکومت اب عدلیہ کو بھی اپنے زیر نگیں کرنے کا منصوبہ بنائے بیٹھی ہے۔ کبھی عدالتی احکامات کی تعمیل میں رد و کد، فیصلوں کے نفاذ میں تاخیر تو کبھی من چاہے فیصلہ کیلئے براہ راست یا بالواسطہ دبائو ڈالنے کے معاملات سامنے آتے رہے ہیں لیکن اب کئی قدم اور آگے بڑھاتے ہوئے حکومت نے عدالتی حکم کی تعمیل سے ہی یکسر انکار کردیا ہے۔
پیگاسس جاسوسی معاملے میںسپریم کورٹ میں سماعت کے دوران مرکزی حکومت نے حلف نامہ داخل کرنے سے صاف انکار کر دیا ہے۔کسی جمہوری ریاست میں جہاں اداروں کے اپنے اپنے دائرہ اختیار ہوتے ہیں ان کااحترام سبھی پر واجب و لازم ہوتا ہے ، عدالتی حکم پر عمل سے یکسر انکار کا یہ پہلا معاملہ ہندوستان میں پیش آیا ہے۔ مہذب معاشروں میں یہ تصور بھی نہیں کیاجاسکتا ہے کہ عدالتی احکام کی تعمیل سے حکومت اور انتظامیہ یکسر انکار کردے اور کہے کہ عدالت کا فیصلہ ناقابل عمل ہے۔لیکن شومئی قسمت کہ مودی حکومت نے یہ بھی کردکھایا ہے۔ حکومت کے اس انکار پرچیف جسٹس این وی رمن برہم ہوئے اور کہا کہ مرکزی حکومت نے اس سے پہلے حلف نامہ داخل کرنے کیلئے دو مرتبہ وقت مانگاتھا اور اب حلف نامہ داخل کرنے سے ہی انکار کر دیا۔چیف جسٹس نے کہا کہ عدالت یہ جاننا چاہتی ہے کہ آخر حکومت اس معاملہ پر کر کیا رہی ہے؟
اسرائیل ساختہ پیگاسس سافٹ ویئر کے ذریعہ ملک کے ممتاز شہریوں کی نگرانی اور ان کے فون کال کی مانیٹرنگ کے سلسلے میں دو مہینے قبل دائر ہونے والے اس معاملے کی یہ تیسری سماعت تھی۔اس سے قبل کی دو سماعتوں میں حکومت نے اس معاملہ میں کئی طرح کی دلیلیں دی تھیں لیکن عدالت ان سے مطمئن نہیں ہوئی۔ عدالت نے واضح طور پر کہا تھا کہ وہ یہ نہیںپوچھ رہی ہے کہ دفاعی اداروں نے قومی سلامتی یقینی بنانے کیلئے کون سا فٹ ویئر استعمال کیا ہے۔ یہ معاملہ مشتبہ تنظیموں کی نگرانی کا نہیں بلکہ ملک کے ممتاز شہریوں، سماجی اور انسانی حقوق کے کارکنوں، صحافیوں، وکلا ، سیاست دانوں کی جاسوسی کیے جانے کا ہے۔حکومت اس معاملے میں اپنا موقف بیان کرے۔اس قدر صاف اور واضح ایشو کو بھی حکومت نے کھینچ تان کر قومی سلامتی کے معاملہ سے جوڑ دیا۔ حکومت کی کوشش یہ ہے کہ وہ پیگاسس جاسوسی معاملے کے دو الگ الگ پہلوئوں کویکجا کرکے عدالت میں جواب دہی سے بچ جائے اور اسی لیے وہ دفاعی اداروں کی جانب سے مشتبہ افراد کی جاسوسی کو ملک کے شہریوں کی جاسوسی کے معاملے میں شامل کرکے ہر سماعت میں عدالت کو گمراہ کرنے کی کوشش کررہی ہے۔
اس بار بھی جب سپریم کورٹ میں سماعت شروع ہوئی تھی تو حکومت کی جانب سے سالیسٹر جنرل نے کہہ دیا کہ ایسے معاملات میں حلف نامہ داخل نہیں کیاجاسکتا ہے لہٰذاحکومت اس معاملہ میں کوئی حلف نامہ داخل نہیں کر رہی بلکہ اس معاملہ میں جانچ کیلئے ایک پینل تشکیل دے رہی ہے۔سالیسٹر جنرل تشار مہتا نے یہ بھی کہا کہ جاسوسی کے لیے کسی خاص سافٹ ویئر کا استعمال ہوا یا نہیں، یہ پبلک ڈومین کا معاملہ نہیں ہے۔چیف جسٹس این وی رمن نے اس پر ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ حکومت بار بار اسی بات پر واپس جارہی ہے، جبکہ ہم جاننا چاہتے ہیں کہ حکومت اس معاملہ میں کیا کررہی ہے۔ عدالت نے سالیسٹر جنرل کی پبلک ڈومین والی دلیل کو بھی مستردکردیا اور کہا کہ وہ قومی مفاد کے معاملہ پر نہیں جانا چاہتی، جاسوسی معاملہ میں عدالت کی تشویش کا دائرہ شہریوں کے گرد گھوم رہاہے۔
جاسوسی کا یہ معاملہ نہ تو قومی مفاد سے جڑا ہے اور نہ اس کا قومی سلامتی سے کوئی تعلق ہے، یہ معاملہ اپنے شہریوں کی جاسوسی ، ان کے فون کالز ٹیپ کیے جانے اور موبائل فون کو ہیک کرنے کیلئے غیر ملکی جاسوسی ادارہ سے مدد لینے کا ہے۔ اپنے شہریوں کی جاسوسی کیلئے غیر ملکیوں اوران کے آلات و سافٹ ویئر کا استعمال اپنے آپ میں ہی ملک دشمنی ہے اور حکومت اس کی مرتکب ہورہی ہے۔
سوال یہ ہے کہ حکومت کو اگر اس معاملے کی تفصیلات سے عدالت کو آگاہ نہیں کرناتھا تو اس نے دو دو بار سپریم کورٹ سے مہلت کیوں طلب کی تھی اور اب یہ انکا ر کیوں؟
اس انکار کو عدالت پرحکومت کی برتری ثابت کرنے کی کوشش ہی کہاجائے گا۔ اگر حکومت ایک بار عدالت پر حاوی ہوگئی تو پھر ملکی جمہوریت کا خدا ہی حافظ ہے۔ ملک کو اس معاملے میں فیصلہ کا انتظار ہے جسے سردست عدالت نے محفوظ رکھ لیا ہے۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS