کشمیری پنڈتوں کو اپنے گھر واپس لوٹنے میں بظاہر دلچسپی نہیں

0
Image: DW

سری نگر،(ایجنسی):جموں و کشمیر انتظامیہ نے بالخصوص مہاجر کشمیری پنڈتوں کے اپنے گھروں کو واپس لوٹنے کے لیے گزشتہ برس ایک اسکیم کا اعلان کیا تھا۔ اس اسکیم میں لوگوں نے بہت کم دلچسپی ظاہر کی۔ اسّی کی دہائی میں ہزاروں کشمیری پنڈتوں کو ‘ہجرت’ کے لیے ‘مجبور’ ہونا پڑا تھا۔ ایک سرکاری عہدیدار کا کہنا تھا کہ دہلی میں سن 1989سے قبل ایک اندازے کے مطابق تقریباً 25 ہزار غیر رجسٹرڈ کشمیری پنڈت خاندان آباد تھے لیکن ڈومیسائل سرٹیفکیٹ اسکیم کے اعلان کے بعد ایک سال میں صرف تین ہزار لوگ درخواست فارم لینے آئے اور ان میں سے بھی صرف 806 کنبوں نے درخواستیں جمع کرائیں۔
ایک سرکاری اندازے کے مطابق کشمیری مہاجر اور بے گھر ہونے والے کنبوں کی تعداد 50 ہزار سے زائد ہوگی۔ انتظامیہ کا خیال ہے کہ ان میں سے بیشتر کسی نہ کسی جگہ مستقل طورپر آباد ہوچکے ہیں اور یہ خاندان اب کشمیر واپس نہیں جانا چاہتے اوراگر وہ ڈومیسائل اسکیم کے تحت اپنے نام کا اندراج کرانا چاہتے ہیں تب بھی اس کا مقصد صرف ‘ڈومیسائل’ رٹیفیکٹ حاصل کرنا ہے۔راحت اور بازآبادکاری کمشنراشوک پنڈتا نے ڈومیسائل سرٹیفکیٹ کے تئیں عدم دلچسپی کے سلسلے میں بھارتی میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ یہ مسئلہ اس وقت اور بھی پیچیدہ ہوجاتا ہے جب اس میں ان لوگوں کو بھی شامل رنے کی بات آتی ہے جو پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں آباد ہیں۔
پنڈتا کہتے ہیں جب کوئی آن لائن درخواست جمع کرتا ہے تو اس سے رہائش کی اصل جگہ لکھنی پڑتی ہے۔ بہت سے لوگ یرپور، مظفرآباد، بھمبر، کوٹلی، راولا کوٹ وغیرہ اضلاع میں رہائش پذیر ہیں۔ ایسے میں ہمارے کمپیوٹران کے آبائی مقامات کے نام قبول نہیں کرتے۔ یہ صرف سافٹ ویئر کا مسئلہ نہیں کہ اسے خود حل کرلیا جائے۔انہوں نے بتایا کہ اس مسئلے کو وزارت داخلہ کے سامنے اٹھایا گیا ہے۔
بی جے پی کے ایک ریاستی رہنما اشوک کھجوریا بھی تسلیم کرتے ہیں کہ جن لوگوں نے ڈومیسائل سرٹیفکیٹ حاصل کی ہے ان کی تعداد بہت معمولی ہے۔ 1980کی دہائی کے اواخر میں کشمیر میں عسکریت پسندی کے آغاز کے بعد بڑے پیمانے پر شمیری پنڈت کشمیر سے ہجرت کرکے بھارت کے دیگر شہروں میں آباد ہوگئے۔ جموں و کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت کو ختم کردینے کے بعد گزشتہ برس 16مئی کو جموں و کشمیر انتظامیہ نے ایک اسکیم کا اعلان کیا تھا۔ اس کے تحت وہ تمام افراد جو برسوں قبل خود یا ان کے آباؤ اجداد ریاست چھوڑ کر کہیں دوسری جگہ آباد ہوگئے تھے، وہ جموں میں واقع راحت اور ازآبادکاری کمشنر (مہاجرین) کے دفتر میں خود کو اندراج کرکے ڈومیسائل سرٹیفکیٹ حاصل کرسکتے ہیں۔
اس ڈومیسائل سرٹیفکیٹ کا مقصد ریاست سے ہجرت کرنے والے لوگوں اور بالخصوص کشمیری پنڈتوں کو اپنی زمین دوبارہ حاصل کرنے میں سہولت فراہم کرنا نیز مرکز کے زیر انتظام علاقے میں ملازمت اور تعلیم کے مواقع کے حصول میں مدد فراہم کرنا تھا۔
جموں و کشمیر انتظامیہ کو توقع تھی کہ ڈومیسائل سرٹیفکیٹ اسکیم کا زبردست خیر مقدم کیا جائے گا لیکن لوگوں نے اس اسکیم کے تئیں نہایت عدم دلچسپی کا مظاہرہ کیا۔ اسکیم کے تئیں عدم دلچسپی کے باوجود جموں و کشمیر انتظامیہ نے اس کی مدت میں ایک سال کے لیے توسیع کرنے کا اعلان کیا ہے۔ یہ اسکیم اب 15مئی 2022 تک نافذ رہے گی۔راحت اور بازآبادکاری کمشنر نے درخواستیں وصول کرنے کے لیے ان مقامات پر بھی خصوصی کیمپ لگانے کا فیصلہ کیا ہے جہاں کشمیر چھوڑ کر آنے والے کم سے کم 50 خاندان رہائش پذیر ہوں۔کشمیری پنڈتوں کی ہجرت اور وطن واپسی بھارت میں ایک بڑا سیاسی موضوع ہے۔ ہندو قوم پرست جماعتیں عام دنوں کے علاوہ انتخابات کے موسم میں اس مسئلے کو بڑے زور شور سے اٹھاتی رہتی ہیں۔ اس وقت جموں و کشمیر میں انتخابی حلقوں کی نئی حدبندی کا عمل جاری ہے۔ کشمیر میں بیشتر سیاسی جماعتوں نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ ہندو قوم پرست جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کی مرکزی حکومت دراصل اس کے ذریعہ ہندو اکثریتی علاقہ جموں سے ریاستی اسمبلی میں اپنی سیٹوں کی تعداد میں اضافہ کرنا چاہتی ہے۔ جموں و کشمیر ریاستی قانون ساز اسمبلی میں پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں رہنے والے کے لیے 24 سیٹیں محفوظ ہیں۔ بی جے پی کے ریاستی رہنما اشوک مہاجریا کا کہنا ہے، ” ہم نے حکومت سے درخواست کی ہے کہ ان میں سے ایک تہائی سیٹوں کو ڈی فریز کردیا جائے کیونکہ بھارت سے ہجرت کرنے والے ہندو اور سکھوں کی تقریباً ایک تہائی آبادی پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں رہتی ہے۔

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS