محمد فاروق اعظمی
28 فروری 2016 کو اترپردیش کے بریلی میں کسانوں کے ایک جلسۂ عام سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم نریندر مودی نے اعلان کیا تھا کہ آنے والے 2022 میں جب ملک اپنی آزادی کی 75 ویں سالگرہ منائے گا تو کسانوں کی آمدنی دوگنی ہوجائے گی۔ اس کے چند دنوں بعد مالی سال 2016-17 کے مرکزی بجٹ میں مودی حکومت نے سال 2022تک کسانوں کی آمد نی کو دوگنا کرنے کاپالیسی ہدف بھی مقرر کردیا۔اس ہدف کو حاصل کرنے کیلئے کمیٹی بھی بنائی گئی اور کئی طرح کی ادارہ جاتی اصلاحات بھی کی گئیں۔ وزیراعظم نریندر مودی اور بھارتیہ جنتا پارٹی کے دوسرے لیڈران اپنا ہر جلسہ کسانوں کی آمدنی بڑھانے کے ذکر سے شروع کرتے رہے اور اسی پر ختم بھی کرتے رہے ہیں۔
2022آنے میں اب فقط تین چار مہینے باقی رہ گئے ہیں لیکن حکومت یہ نہیں بتاپارہی ہے کہ اب تک کسانوں کی آمدنی کتنی بڑھی ہے۔ ہدف تک پہنچنے میں کتنا فاصلہ رہ گیا ہے۔ ان6برسوں میں کسانوں کی آمدنی کا تناسب کیا رہا ہے۔ کسانوں کی آمدنی کس شرح سے بڑھ رہی ہے جیسے سوالات کے اب تک کوئی جواب سامنے نہیں آئے ہیں۔
اس کے برخلاف جو چونکانے والی حقیقت سامنے آئی ہے اس سے یہ محسوس ہورہاہے کہ حکومت نے کسانوں کے ساتھ صریحاً دھوکہ کیا ہے۔ آمدنی دوگنی کا پالیسی ہدف کسانوں کیلئے نہیں بلکہ سرمایہ داروں ، بینکوں اورانشورنس کمپنیوں کیلئے تھا۔ ان برسوں میں کسانوں کی آمدنی بڑھنے کے بجائے بتدریج کم ہوتی گئی ہے اورآج ملک بھر کے 50فیصد سے زیادہ کسان خاندان قرض کے بھاری بوجھ تلے دبے ہوئے ہیں جب کہ ان برسوں کے دوران زراعت کے شعبہ میں رقم لگانے والے سرمایہ داروں، کسانوں کو قرض دینے والے بینکوں اور فصل کا بیمہ کرنے کی کمپنیوں کی آمدنی دوگنی، سہ گنی اور چار گنی تک ہوگئی ہے۔
کسانوں کی آمدنی دوگنی کرنے کا پالیسی ہدف پتا نہیں کس سردخانہ میں چلاگیا ہے۔ صورتحال یہ ہوگئی ہے کہ ہر گزرنے والا دن کسانوں کی آمدنی کم کرنے کا سبب بن رہا ہے۔ زرعی اصلاحات کے نام پر جو قوانین بنائے گئے وہ بھی اصلاحات کے بجائے کسانوں کی موت کا پروانہ ثابت ہورہے ہیں۔ حالات بتا رہے ہیں حکومت کو نہ تو عوام سے دلچسپی رہ گئی ہے اور نہ اسے قرض کے بوجھ تلے سسکتے کسانوں کے مفاد سے کوئی لینا دینا ہے۔
11ستمبر 2021 کو جاری ہونے والی قومی شماریاتی دفتر (این ایس او) کی رپورٹ کے مطابق ملک بھر کے50فیصد زرعی گھرانوں پر قرض کا بھاری بوجھ ہے۔این ایس او نے 2019 کے دوران کیے گئے اپنے اس سروے میںجو نتیجہ اخذ کیا ہے، اس کے مطابق ملک کے 50فیصد زرعی کنبے قرض دار ہیں اورا ن کا اوسطاً قرض فی کنبہ 74,121روپے ہے۔ کل قرضہ جات کاتقریباً تین چوتھائی بینکوں کا قرض ہے اور باقی پیشہ ور ساہوکاروںاور سرکاری اداروں سے لی گئی رقم ہے۔ این ایس او نے جنوری تا دسمبر 2019 کے دوران ملک کے دیہی علاقوں میں گھروں کی زمین اور مویشیوں کے علاوہ زرعی گھرانوں کے حالات کابھی جائزہ لیاتھا۔کسانوں نے اپنے کل قرض کا57.5فیصد زرعی مقاصد کیلئے لیا تھا۔این ایس او کے ہی لیبر فورس سروے کے مطابق زراعت کے شعبہ میں روزگار کے مواقع کم ہونے کے ساتھ ساتھ کھیت مزدوروں کی آمدنی میں بھی نصف سے زیادہ کمی آئی ہے۔ دو سال قبل تک جس کھیت مزدور کو یومیہ250روپے ملا کرتا تھا اب اسے 100روپے یومیہ ہی مل رہاہے، اس کی وجہ یہ بتائی گئی ہے کہ لاک ڈائون کی وجہ سے مزدوروں کی بھاری تعداد نقل مکانی کرکے گائوں اور قصبات میں پہنچ گئی ہے اورانہیں روزگار نہیں مل رہاہے، ایک ایک کام کیلئے سو سو مزدور امیدوار ہیں اس لیے ان کی مزدوری بھی کم ہوگئی ہے۔بالخصوص گائوں کی عورتیں جو پہلے کھیتوں میں کام کرتی تھیں، انہیں روزگار ملنا ہی بند ہوگیا ہے۔ این ایس او کے پیروڈک لیبر فورس سروے 2019-20 کے مطابق دیہی ہندوستان میں75.7فیصد خواتین زراعت کے کام سے وابستہ تھیں لیکن اب یہ صورتحال بدل گئی ہے۔ 15 سے 29سال عمر کے ورک فورس میں بے روزگاری کی شرح سب سے زیادہ ہے، ان میں بھی خواتین کھیت مزدور سب سے زیادہ متاثر ہیں، ان میں 33فیصد بے روزگاری ہے جب کہ مرد کھیت مزدوروں میں بے روزگاری کی یہ شرح21فیصد ہے۔
ایک طرف یہ صورتحال ہے تو دوسری طرف سرمایہ داروں اور صنعت کاروں کی دولت میں ہمالیائی اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ دولت مندی کے معاملے میں خود حکومت بھی ریکارڈ بنانے کی دہلیز پر پہنچ گئی ہے۔تازہ اعداد و شمار کے مطابق حکومت نے صرف ایک سال میں پٹرولیم مصنوعات پر ایکسائز ڈیوٹی سے ایک لاکھ کروڑ روپے کمائے ہیں۔ جن دنوں کسانوں کی آمدنی بالکل ہی ختم ہوگئی تھی اور وہ قرض کے بوجھ تلے دبتے رہے، ان ہی دنوں ملک کے سرمایہ داروں کی دولت میں40فیصد سے زیادہ اضافہ ریکارڈ کیا گیا۔لاک ڈائون کے دوران جب کسانوں کا کھیت پر جانا اور مزدوروںکاکام کرنا ممنوع ٹھہرا تھا تو اسی دوران ملک کے معروف صنعت کار اورسرمایہ دار مکیش امبانی فی گھنٹہ90کروڑ روپے کی آمدنی کررہے تھے۔
کسانوں کی آمدنی دوگنی کرنے کاپالیسی ہدف پتا نہیں کس سردخانہ میں چلاگیا ہے۔ صورتحال یہ ہوگئی ہے کہ ہر گزرنے والا دن کسانوں کی آمدنی کم کرنے کا سبب بن رہاہے۔ زرعی اصلاحات کے نام پر جو قوانین بنائے گئے وہ بھی اصلاحات کے بجائے کسانوں کی موت کا پروانہ ثابت ہورہے ہیں۔ حالات بتارہے ہیں حکومت کو نہ تو عوام سے دلچسپی رہ گئی ہے اور نہ اسے قرض کے بوجھ تلے سسکتے کسانوں کے مفاد سے کوئی لینا دینا ہے۔ حکومت کی ترجیحات سرمایہ داروں اور صنعت کاروں کے مفاد کی حفاظت ہے اور اسی کو وہ ملک کی ترقی کہہ رہی ہے۔لیکن یہ درحقیقت ملک دشمنی ہے۔ کسانوں کو سبز باغ دکھانا،دوہری آمدنی کا جھوٹا وعدہ کرکے سرمایہ داروں کی دولت میں اضافہ کیلئے کام کرنا ملک کو ایسے بحران کی جانب لے جارہاہے جس سے نمٹنا ممکن نہیں ہوگا۔ 6برسوں سے کسانوں کی آمدنی دوگنی کرنے کا ڈنکا بجارہی حکومت کو اس سمت بھی کوئی کارگر قدم اٹھانا چاہیے۔ملک کی غذائی ضروریات کی تکمیل کا انحصار کسانوں پر ہی ہے بہتر ہوگا کہ حکومت سرمایہ داروں کی خوشنودی کی بجائے کسانوںکی آمدنی بڑھانے اور انہیں قرض کی دلد ل سے نکالنے کی فکرکرے۔
[email protected]