پنکج چترویدی
2ستمبر2021 ’تقسیم وطن کے بعد کے سب سے برے فسادات کی جیسی جانچ دہلی پولیس نے کی ہے، یہ تکلیف دہ ہے۔ جب تاریخ پلٹ کر اسے دیکھے گی تو یہ جمہوریت کے محافظوں کو تکلیف پہنچائے گی۔‘‘ یہ حکم دیتے ہوئے دہلی کی عدالت کے ایڈیشنل سیشن جج ونود یادو نے شاہ عالم(سابق کونسلر طاہر حسین کے بھائی)، راشد سیفی اور شاداب کو معاملہ سے بری کردیا۔ کورٹ نے کہا کہ یہ تفتیش غیرحساس اور بے نتیجہ ثابت ہوئی ہے۔ کورٹ نے کہا کہ ایسا لگتا ہے جیسے کانسٹبل کو گواہ کے طور پر پلانٹ کیا گیا تھا۔ جج ونود یادو نے کہا کہ یہ کیس ٹیکس دہندگان کی محنت کی کمائی کی بربادی ہے۔ کورٹ نے یہ بھی کہا کہ یہ اور کچھ نہیں بلکہ، پولیس نے ہماری آنکھوں میں دھول جھونکنے کی کوشش کی ہے۔ جج نے کہا- میں خود کو یہ کہنے سے روک نہیں پارہا ہوں کہ جب لوگ تقسیم وطن کے بعد کے سب سے برے اس فسادات کو پلٹ کر دیکھیں گے تو جدید تکنیکوں کے بعد بھی صحیح جانچ کرنے میں پولیس کی ناکامی دیکھ کر جمہوریت کے محافظوں کو تکلیف پہنچے گی۔
کورٹ کے حکم میں لکھا ہے- ’’ایسا لگتا ہے جیسے پولیس نے صرف چارج شیٹ داخل کرکے گواہوں کو، تکنیکی ثبوت یا اصل ملزمین کو تلاش کرنے کی کوشش کیے بغیر کیس کو حل کردیا۔‘‘ واضح ہو کہ گزشتہ سال 24فروری کو فسادیوں نے بھجن پورہ گلی نمبر-15میں رہنے والے اوم سنگھ کے کھجوری خاص کراول نگر روڈ ای-پانچ واقع پان کے کھوکھے کو جلادیا تھا۔ اس واقعہ کے اگلے دن فسادیوں نے چاند باغ علاقہ میں مین وزیرآباد روڈ پر ہرپریت سنگھ کی دکان آنند ٹمبر فرنیچر میں لوٹ پاٹ کے بعد آگ لگادی تھی۔ دیال پور تھانہ میں درج مختلف مقدمات میں پولیس نے دہلی فسادات کے اہم ملزم اور آپ کے کونسلر رہے طاہر حسین کے بھائی شاہ عالم، راشد سیفی اور شاداب کو ملزمین بنایا تھا۔ دونوں ہی معاملات میں ایک ایک کانسٹبل کی گواہی دلوائی گئی۔ کورٹ میں جب کیس چلا تو پتا چلا کہ معاملہ میں پولیس والوں کے علاوہ کوئی گواہ ہی نہیں ہے۔ ملزمین سے کوئی ہتھیار نہیں ملا ہے، نہ ہی ان کی موجودگی کو ظاہر کرتا ویڈیو فوٹیج اب تک پیش کیا گیا۔ کورٹ میں ثابت ہوا کہ پولیس کانسٹیبلوں نے جھوٹی گواہی دی ہے، وہ جائے وقوع پر نہیں تھے۔ وہ موقع پر ہوتے تو پولیس کنٹرول روم کو کال کرکے اطلاع دیتے، لیکن اس کا کوئی ریکارڈ پولیس کے پاس نہیں ہے۔
2ستمبر2021: دہلی ہائی کورٹ: ایک ہی معاملہ میں پانچ ایف آئی آر۔ واقعہ ایک رپورٹ کرنے والے پانچ۔ گواہ بھی برابر اور مجرم بھی برابر۔ کورٹ نے پولیس کو کھری کھری سنائی اور چار ایف آئی آر رد کردیں۔
3ستمبر2021: دہلی ہائی کورٹ نے فروری 2002میں شمال مشرقی دہلی میں تشدد کے دوران ہیڈکانسٹبل رتن لال کے قتل کے معاملہ کے ساتھ ساتھ ایک ڈی سی پی کو زخمی کرنے کے معاملہ میں 5ملزمین کو جمعہ کو ضمانت دے دی۔ جسٹس سبرامنیم پرساد نے حکم صادر کرتے ہوئے کہا کہ عدالت کی رائے ہے کہ درخواست گزاروں کو طویل عرصہ تک سلاخوں کے پیچھے نہیں رکھا جاسکتا ہے اور ان کے خلاف لگائے گئے الزامات کی سچائی کی جانچ ٹرائل کے دوران بھی کی جاسکتی ہے۔ پولیس نے فرقان، عارف، احمد، صالحین اور تبسم کو گزشتہ سال گرفتار کیا تھا۔ ہائی کورٹ نے خاتون سمیت 5ملزمین کو ضمانت دیتے ہوئے جمعہ کو کہا کہ جمہوری نظام میں مخالفت اور عدم اتفاق ظاہر کرنے کا حق بنیادی ہے۔ کورٹ نے کہا کہ اس مخالفت کرنے کے حق کا استعمال کرنے والوں کو قید کرنے کے لیے اس ایکٹ کا استعمال نہیں کیا جانا چاہیے۔ کورٹ نے کہا کہ یہ یقینی بنانا عدالت کا آئینی فرض ہے کہ ریاست کو حاصل اضافی طاقت کی حالت میں لوگوں کو ذاتی آزادی سے منمانے طریقہ سے محروم نہیں کیا جائے۔
4ستمبر2021: دہلی کی خصوصی جج کی عدالت میں پتا چلا کہ فساد کے دوران شیرپور میں ذیشان کی دکان جلانے کے معاملہ میں پولیس نے دیال پور تھانہ میں ہی دو ایف آئی آر درج کرلی تھی- ایک 109/2020 اور دوسری 117/2020۔
تاریخ 20جون، 2020: دہلی کی ایک عدالت میں فیصل کو ضمانت دینے والے جج ونود یادو نے کہا کہ اس معاملہ میں گواہوں کے بیانات میں فرق ہے اور معاملہ میں مقرر تفتیشی افسر نے خامیوں کو پورا کرنے کے لیے اضافی بیان درج کردیا ہے۔ عدالت نے اپنے حکم میں کہا، ’تفتیشی افسر نے ان لوگوں میں سے کسی سے بھی بات نہیں کی اور صرف الزامات کے علاوہ کوئی بھی ٹھوس ثبوت نہیں ہے، جس کی بنیاد پر یہ ثابت کیا جاسکے کہ فیصل نے ان لوگوں سے دہلی فسادات کے بارے میں بات کی تھی۔‘
29مئی2020: دہلی ہائی کورٹ نے ایک ملزم فیروزخان کو ضمانت دیتے ہوئے پولیس سے پوچھا کہ آپ کی ایف آئی آر میں تو 250سے 300کی غیرقانونی بھیڑ کا ذکر ہے۔ آپ نے اس میں سے صرف فیروز اور ایک دیگر ملزم کو ہی کیسے پہچانا؟ پولیس کے پاس اس کا جواب نہیں تھا اور فیروز کو ضمانت دے دی گئی۔
27مئی 2020: دہلی پولیس کی اسپیشل برانچ نے ساکیت کورٹ میں جج دھرمیندر رانا کے سامنے جامعہ کے طالب علم آصف اقبال تنہا کو پیش کیا تھا۔ اس معاملہ میں بھی آصف کو عدالتی حراست میں بھیجتے ہوئے جج نے کہا کہ دہلی فسادات کی جانچ بے سمت ہے۔ معاملہ کی تفتیش یکطرفہ ہے۔ کورٹ نے ڈپٹی کمشنر آف پولیس کو بھی ہدایت دی کہ وہ تفتیش کا جائزہ لیں۔
25مئی 2020: پنجڑا توڑ سنگٹھن کی نتاشا اور دیوانگناکو جعفرآباد میٹرو اسٹیشن کے سامنے مظاہرہ کرنے کے الزام میں گرفتار کیا گیا۔ عدالت نے کہا کہ انہوں نے مظاہرہ کرنے کا کوئی گناہ نہیں کیا، اس لیے انہیں ضمانت دی جاتی ہے۔ یہی نہیں عدالت نے دفعہ 353لگانے کو بھی غیرمناسب مانا۔ عدالت نے کہا کہ ملزم صرف مظاہرہ کررہے تھے۔ ان کا ارادہ کسی سرکاری ملازم کو مجرمانہ طریقہ سے ان کا کام روکنے کا نہیں تھا۔ اس لیے دفعہ 353قابل قبول نہیں ہے۔
فسادات انسانیت کے نام پر کلنک ہیں۔ یکبارگی لگتا ہے کہ فسادات محض کسی قوم یا فرقہ کو نقصان پہنچاتے ہیں، درحقیقت اس سے نقصان پورے ملک کی ترقی، اعتماد اور کاروبار کا ہوتا ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ فسادات کے اصلی اسباب، سازش کو سامنے لایا جائے اور میدان میں لڑنے والوں کی جگہ ان لوگوں کو قانون کا سخت سبق پڑھایا جائے جو گھر میں بیٹھ کر اپنے ذاتی مفاد کے سبب لوگوں کو اشتعال دلاتے ہیں اور ملک کی ترقی کو پٹری سے نیچے لڑکھاتے ہیں۔
دہلی پولیس کی تفتیش تب اور مشتبہ ہوگئی جب کیس نمبر65/20انکت شرما قتل اور کیس نمبر 101/20کھجوری خاص کی چارج شیٹ میں کہا گیا کہ 8جنوری کو شاہین باغ میں طاہر حسین کی ملاقات خالد سیفی نے عمر خالد سے کروائی اور طے کیا گیا کہ امریکہ کے صدر کے آنے پر فساد کریں گے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ 12جنوری 2020تک کسی کو معلوم ہی نہیں تھا کہ ٹرمپ کو ہندوستان آنا ہے اور 12جنوری کو بھی ایک امکان ظاہر کیا گیا تھا جس میں تاریخ یا مہینہ کا ذکر تھا ہی نہیں۔ یہ تو کچھ ہی معاملات ہیں۔ دہلی پولیس نے فسادات سے متعلق تفتیش کو ایک ناول بنادیا۔ پولیس ثابت کررہی ہے کہ دہلی میں شہریت قانون کے خلاف100دن سے چل رہے دھرنوں میں ہی فسادات کی کہانی رچی گئی۔
دہلی کے شمال مشرقی علاقہ میں سی اے اے کے خلاف ہوئے مظاہروں کا خاتمہ شرمناک فسادات کی شکل میں ہوا، 23فروری سے 26فروری2020کے درمیان ہوئے فسادات میں 53لوگوں کی موت ہوگئی۔ اس فساد میں 40مسلمان اور 13ہندو مارے گئے تھے۔ دہلی پولیس نے فسادات سے وابستہ کل 751ایف آئی آر درج کیں، جن میں سے 400معاملات کو سلجھانے کا دعویٰ پولیس کا ہے۔ پولیس کہتی ہے کہ 349معاملوں میں چارج شیٹ داخل کی گئی ہے، 102سپلیمنٹری چارج شیٹ بھی داخل کی گئی ہیں، 303معاملات کی چارج شیٹ پر عدالت نے نوٹس لیا ہے۔ دہلی فسادات میں شامل کل 1825لوگ گرفتار کیے گئے، جن میں 869ہندو اور 956مسلمان تھے۔ اس فساد سے وابستہ 18لوگوں پر یواے پی اے لگایا گیا اور ان میں سے 16مسلم ہیں، دو ہندو-نتاشا اور دیوانگنا کو بھی مسلم فریق کی طرف سے ہی پھنسایا گیا۔
سب سے خوفناک تو وہ دس سے زیادہ ایف آئی آر ہیں جن میں لونی کے ایم ایل اے نندکشور گوجر، سابق ایم ایل اے جگدیش پردھان، موہن نرسنگ ہوم کے سنیل، کپل مشرا وغیرہ کو سرعام فساد کرتے، لوگوں کا قتل کرتے، مال واسباب جلانے کے الزامات ہیں۔ یمنا وہار کے محمد الیاس اور محمد جامی رضوی، چاندباغ کی روبینہ بانو، پریم وہار کے رہنے والے سلیم سمیت کئی لوگوں کی رپورٹ پر پولیس تھانہ کی ریسیونگ کی مہر تو لگی ہیں لیکن ان کی تفتیش کا کوئی قدم اٹھایا نہیں گیا۔ اسی سلسلہ میں ہائی کورٹ کے جج جسٹس مرلی دھرن کے ذریعہ کچھ ویڈیو دیکھ کر دیے گئے جانچ کے حکم اور پھر جج صاحب کا تبادلہ ہوجانا اور اس کے بعد ان کے ذریعہ دیے گئے تفتیش کے حکم پر کارروائی نہ ہونا حقیقت میں انصاف ہونے پر شک کھڑا کرتا ہے۔
فسادات انسانیت کے نام پر کلنک ہیں۔ مذہب، زبان، عقائد، رنگ جیسے عدم مساوات کے ساتھ ووٹوں کا تقسیم ہونا فطری ہے۔ یکبارگی لگتا ہے کہ فسادات محض کسی قوم یا فرقہ کو نقصان پہنچاتے ہیں، درحقیقت اس سے نقصان پورے ملک کی ترقی، اعتماد اور کاروبار کا ہوتا ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ فسادات کے اصلی اسباب، سازش کو سامنے لایا جائے اور میدان میں لڑنے والوں کی جگہ ان لوگوں کو قانون کا سخت سبق پڑھایا جائے جو گھر میں بیٹھ کر اپنے ذاتی مفاد کے سبب لوگوں کو اشتعال دلاتے ہیں اور ملک کی ترقی کو پٹری سے نیچے لڑکھاتے ہیں۔ اسی لیے آج ضروری ہوگیا ہے کہ دہلی فسادات کی تفتیش کی جانچ کسی غیرجانبدار ایجنسی سے کروائی جائے، اگر ہائی کورٹ کے موجودہ جج اس کی قیادت کریں تو بہت امیدیں بندھتی ہیں۔
[email protected]