اقوام متحدہ کے یورپی دفتر کے سربراہ ہانس کلوگے نے کورونا وائرس کی وبا پر قابو پانے کے حوالے سے کی جانے والی کوششوں کے نتائج پر مایوسی کا اظہار کیا ہے۔ ان کا خیال ہے کہ بظاہر کووڈ انیس کی بیماری کے انسداد کی فوری کوئی صورت دکھائی نہیں دے رہی کیونکہ اس وائرس کے نئے متغیر یا ویریئنٹس مسلسل انسانوں کو بیمار کرنے کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں۔’وائرس کہیں نہیں جا رہا‘ڈاکٹر ہانس کلوگے نے واضح کیا ہے کہ اب یقین ہوتا جا رہا ہے کہ کورونا وائرس اگلے کئی برسوں تک موجود رہے گا۔کووڈ انیس کی بیماری کے انسداد کی فوری صورت دکھائی نہیں دے رہی کیونکہ وائرس کے نئے ویریئنٹس مسلسل سامنے آ رہے ہیں-انہوں نے مزید کہا کہ اقوام عالم کے ہیلتھ حکام کو مل بیٹھ کر ویکسینیشن کے موجودہ پروگرام اور طریقہٴ کار کا جائزہ لینا ہو گا اور مستقبل کی ترجیحات اقوام کی ضروریات کے تناظر میں مرتب کرنی ہوں گی۔یہ امر اہم ہے کہ عالمی ادارہٴ صحت کے سینیئر اہلکار ہانس کلوگے نے رواں برس مئی میں کہا تھا کہ جب بیشتر اقوام میں ستر فیصد تک ویکسینیشن کا عمل مکمل ہو جائے گا تو ان ممالک میں کورونا وائرس کی وبا دم توڑ جائے گی۔ بظاہر ایسا نہیں ہوا اور کووڈ انیس کی موجودہ نئی لہر خطرہ بنی ہوئی ہے۔
صورت حال تبدیل ہو چکی ہے
ہانس کلوگے سے جب مئی کے ان کے بیان کے حوالے سے پوچھا گیا کہ وہ اس موقف پر قائم ہیں تو ان کا کہنا تھا کہ زمینی حقائق نے ماضی کی صورت حال کو اب پوری طرح تبدیل کر دیا ہے۔کلوگے کے مطابق ڈیلٹا اور دوسرے ویریئنٹس کی وجہ سے فی الحال کچھ بھی نہیں کہا جا سکتا۔ ان کے مطابق ویکسین سے یہ ضرور فائدہ ملا ہے کہ عام لوگ وائرس کی لپیٹ میں آنے کے باوجود صحت یاب ہو رہے ہیں اور ان میں بیماری کی علامات شدید نہیں ہیں۔کووڈ انیس کی بیماری جلد ختم ہونے والی نہیں ہے اور یہ انفلوئنزا کی طرح موجود رہے گی-عالمی ادارہٴ صحت کے سینیئر اہلکار کا یہ بھی کہنا ہے کہ کووڈ انیس کی بیماری جلد ختم ہونے والی نہیں ہے اور یہ انفلوئنزا کی طرح موجود رہے گی۔ویکسین کی اسٹریٹجی تبدیل کرنا ضروری ہے-ڈاکٹر ہانس کلوگے کا کہنا ہے کہ موجودہ صورت حال تقاضا کرتی ہے کہ ویکسینشن کے حوالے سے حکمت عملی کو تبدیل کر کے اس کی افادیت کو دوچند کیا جائے۔کورونا کا بُوسٹر: دوا ساز اداروں پر سونے چاندی کی برسات
اسی انداز میں متعدی و وبائی امراض کے ماہرین بھی سوچ رہے ہیں کہ گنجان بستیوں میں وائرس سے بچاؤ کے لیے وہاں کے مکینوں کے مدافعتی نظام کو قوت دینے کے لیے صرف ویکسین کی فراہمی کافی نہیں ہے۔ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے اہلکار نے ہائی ویکسینیشن کو اس لیے اہم خیال کیا کیونکہ اس کی بدولت ہیلتھ کیئر نظام کو بیمار افراد کے بوجھ سے بچانا ممکن ہے۔ ان کا کہنا ہے ہیلتھ کیئر نظام صرف کووڈ انیس کے بیماروں کے لیے نہیں بلکہ کئی دوسری بیماریوں کے شکار افراد کا خیال رکھنا اور انہیں علاج فراہم کرنا بھی اسی نظام کی ذمہ داری ہے۔ماہرین کا خیال ہے کہ کورونا ویکسینشن کی حکمت عملی کو تبدیل کر کے اس کی افادیت کو دوچند کیا جائے-یہ امر اہم ہے کہ بھارت میں جنم لینے والا ڈیلٹا ویریئنٹ ساٹھ فیصد زیادہ تیزی کے ساتھ ایک انسان سے دوسرے میں منتقل ہوتا ہے۔ اب کمبوڈیا میں جنم لینے والے مُو ویریئنٹ کا شور پیدا ہو گیا ہے۔ اس متغیر کو بھی انتہائی خطرناک قرار دیا گیا ہے۔