ہمارے لب سے جو نعتِ نبی نکلتی ہے
نہ پوچھو کتنی مہک میں بسی نکلتی ہے
تمنا ہے اے خدا دیکھوں میں وہ غارِ حرا
ترے سخن کی جہاں روشنی نکلتی ہے
یہ جاننے کے لئے سیرتِ صحابہ پڑھو
غموں کی وادیوں سے ہی خوشی نکلتی ہے
درِ نبی پہ میں جاتا ہوں خالی جھولی لئے
مگر وہ ان کی عطا سے بھری نکلتی ہے
بلال و آقا میں جیسی تھی والہانہ بہت
جہاں میں ویسی کہاں عاشقی نکلتی ہے
جب امتحانِ رسالت ہے لیتا کافر اک
تو بند مٹھی سے نعتِ نبی نکلتی ہے
عرب کی دائیاں حیرت بداماں تکتی ہیں
حلیمہ دائی کی جب اونٹنی نکلتی ہے
سمو ہی پاتی نہیں خود میں التفاتِ نبی
مری ردا میں ہی’زاہد‘ کمی نکلتی ہے
محمد زاہد رضا بنارسی،بھدوہی
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS