جیوتی سڈانا
ہندوستان متوسط طبقہ کی سب سے زیادہ آبادی والا ملک ہے۔ اور یہ بھی اتنا ہی سچ ہے کہ سب سے زیادہ غریبی بھی یہی ہیں۔ امریکہ کے پیو ریسرچ سینٹر کی ایک رپورٹ کے مطابق کووڈ وبا کے دوران پوری دنیا میں غریبی کی سطح پر چلے گئے لوگوں میں 60فیصد ہندوستانی ہیں۔ اس دوران ہندوستان میں متوسط طبقہ کی آبادی میں 3کروڑ سے زیادہ کی کمی آئی ہے۔ جب کہ کورونا سے پہلے متوسط طبقہ کی آبادی تقریباً 10کروڑ تھی۔ دوسری جانب غریب آبادی میں ساڑھے 7کروڑ کا اضافہ ہوا ہے۔ عظیم پریم جی یونیورسٹی کی ایک رپورٹ کے مطابق ہندوستان میں دیہی غربت کی شرح بڑھ کر 15فیصد ہوگئی ہے۔ شہری غربت کی شرح تقریباً 20فیصد تک پہنچ گئی ہے۔ یہ اعدادوشمار اتنے خوفناک ہیں کہ انہیں دیکھ کر ہی مستقبل کے بحران اور چیلنجز کا اندازہ لگانا آسان ہوجاتا ہے۔ غربت میں اضافہ کی وجہ سے آبادی کا بڑا طبقہ مایوسی کا شکار ہورہا ہے۔ روزگار سے محروم ہونے، آمدنی میں کٹوتی ہونے، جمع سرمایہ کا کم ہوتے جانا، صحت اور دیگر ضروری بنیادی وسائل کی کمی کے سبب لوگ خودکشی جیسے قدم اٹھانے کے لیے مجبور ہورہے ہیں۔
متوسط طبقہ سے مطلب 10سے 20ڈالر روزانہ(ساڑھے700روپے سے ڈیڑھ ہزار روپے) تک کی کمائی کرنے والوں سے ہے۔ ترقی پذیر ممالک کے تقریباً دو تہائی کنبوں کو کورونا کے دور میں آمدنی میں زبردست نقصان برداشت کرنا پڑا ہے۔ 90کی دہائی کے بعد یہ پہلا موقع ہے جب دنیا میں متوسط طبقہ کی آبادی میں اتنی تیزی سے کمی آئی ہے۔ پیو کی رپورٹ کے مطابق سال2011میں دنیا میں متوسط طبقہ کی آبادی 13فیصد تھی جو 2019میں بڑھ کر 19فیصد ہوگئی تھی۔ ہندوستان کے تناظر میں دیکھیں تو وبا کے دوران ملک کے 3.2کروڑ لوگوں کا متوسط طبقہ کی فہرست سے باہر ہونا نہ صرف تشویش کا موضوع ہے، بلکہ ہندوستانی معیشت کے لیے ایک سنگین چیلنج بھی ہے۔ کیوں کہ متوسط طبقہ ہی سب سے بڑا صارفین کا طبقہ بھی ہے جو بازار کی سمت کو یقینی بنانے میں اہم کردار نبھاتا ہے۔ اس لیے متوسط طبقہ کا کم ہونا نہ صرف معاشی لیکن معاشرتی، ثقافتی و سیاسی چیلنجز کو بھی پیدا کررہا ہے۔
اس بات سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ سال 2021میں زراعت اور بجلی کو چھوڑکر باقی سبھی شعبوں جیسے کاروبار، تعمیر، کانکنی، مینوفیکچرنگ سیکٹر اور پرائیویٹ سیکٹر کو وبا نے بڑے پیمانہ پر متاثر کیا ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق ہندوستان میں غیرمنظم شعبہ کے چالیس کروڑ مزدوروں میں سے زیادہ تر انہی سیکٹرز میں کام کرتے ہیں۔ غیرمنظم شعبہ کی آبادی کا بڑا حصہ اس وقت بے روزگاری کا سامنا کررہا ہے۔ بحران کے اس دور میں آمدنی کے سبھی ذرائع بند ہونے کی وجہ سے یہ طبقہ یا تو غریبی کے منھ میں چلا گیا ہے یا جانے والا ہے۔ سینٹر فار مانیٹرنگ انڈین اکنامی(سی ایم آئی ای) کے اعداد و شمار کے مطابق اس وقت ملک میں بے روزگاری کی شرح فی الحال 11فیصد سے زیادہ ہے۔
ایسا نہیں ہے کہ وبا نے دنیا کے دوسرے ممالک کی معیشت کو متاثر نہیں کیا۔ لیکن تعلیم، صحت اور روزگار کے بنیادی ڈھانچہ پر کم خرچ کرنے کی وجہ سے ہماری معیشت پر وبا کا اثر زیادہ تیزی سے پڑا ہے۔ بین الاقوامی مالیاتی فنڈ(International Monetary Fund) نے بھی تسلیم کیا ہے کہ وبا کے دوران ہندوستانی معیشت کے ساڑھے چار فیصد سے زیادہ سکڑنے کا اندازہ ہے۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ وبا سے پہلے بھی یہاں وسیع پیمانہ پر معاشی عدم مساوات اور کسادبازاری جیسے بحران موجود تھے۔ سال 2018میں ملک کی کل املاک کا 73فیصد حصہ صرف ایک فیصد امیر لوگوں کے پاس تھا جو 2017میں 58فیصد حصہ تھا۔ یہ حیران کن حقائق ہی ہیں کہ ایک سال میں کل املاک کا 15فیصد اور حصہ ایک فیصد امیروں کی جھولی میں پہنچ گیا۔ آج ہندوستان کا متوسط طبقہ کم ہوتا جارہا ہے، غریب طبقہ میں توسیع ہورہی ہے اور ایسے میں ہندوستانی ارب پتیوں کی املاک میں 35فیصد اضافہ ہوا ہے۔ یعنی ہندوستان ارب پتیوں کی املاک کے معاملہ میں امریکہ، چین، جرمنی، روس اور فرانس کے بعد دنیا میں چھٹے مقام پر آگیا۔ ظاہر ہے، وبا میں بھی خوشحال طبقہ پر کوئی اثر نہیں پڑا، بلکہ اس کی املاک میں تو اضافہ ہی ہوا ہے۔ یہ کہنے میں کوئی جھجھک نہیں ہونی چاہیے کہ اس عدم مساوات کی جڑیں ہماری معاشی پالیسیوں میں ہی موجود ہیں۔
کووڈ-19سے پہلے ہندوستان میں خواتین میں بے روزگاری کی شرح 15فیصد تھی جو بڑھ کر 18فیصد ہوگئی۔ جن خواتین نے اپنی نوکری نہیں گنوائی، ان کو بھی اپنی آمدنی میں 83فیصد تک کی کٹوتی کا سامنا کرنا پڑا۔ یعنی اس وبا کی مار نے خواتین کے تئیں عدم مساوات کو مزید گہرا کردیا۔ اس حقیقت کو بھی نظرانداز نہیں کیا جاسکتا کہ متوسط طبقہ سے تعلق رکھنے والی خواتین بھی کنبہ میں معاشی تعاون دیتی ہیں۔ اس لیے یہ بھی ایک بڑا سبب ہے کہ خواتین کے روزگار پر اثر پڑنے سے کنبہ کی آمدنی پر بڑا اثر پڑا جس نے متوسط طبقہ کے سائز کو چھوٹا کیا ہے۔
سوال ہے کہ آخر ایسا کیا ہوا کہ حکومت کی معاشی پالیسیوں سے سب سے زیادہ متاثر متوسط طبقہ نے سماجی سروکاروں کے تئیں بھی خاموشی کی عادت اختیار کرلی ہے۔ نہ صرف دوسروں کے ساتھ ہونے والے واقعات کے تئیں بلکہ خود یا خودکے گروپوں/فرقوں کے ساتھ ہونے والے واقعات کے تئیں بھی اب وہ کچھ نہیں بولتا اور نہ ہی کوئی مزاحمت درج کراتا ہے۔
دراصل،صارفین ثقافت کی توسیع کے بعد سے ہی متوسط طبقہ کے کردار میں بڑے پیمانہ پر تبدیلی دیکھی جارہی ہے۔ جیسے انفرادیت کا غلبہ، نیوکلیئر فیملی، دکھاوے کاچلن، بڑے فائدے کی خواہش وغیرہ۔ اس کے نتیجہ میں متوسط طبقہ کے معاشرتی سروکاروں میں بھی تبدیلی آئی ہے۔ اور سب سے زیادہ تو وہ بے حس ہوگیا ہے۔ اس کی مثال سامنے ہے۔ کسان تحریک، طلبا و اساتذہ کی تحریک، سیاسی مخالفت، معاشرتی-معاشی ایشوز پر بات چیت جیسے پہلوؤں کو نظرانداز کرنا یا ان پر خاموشی کی حمایت اب متوسط طبقہ کی شخصیت کا لازمی حصہ بن گئے ہیں۔ ممکنہ یہی وجہ ہے کہ موجودہ بحران کے دور میں بھی اس نے خاموشی اختیار کرلی ہے۔ یہاں تک کہ اب مہنگائی جیسے ایشو پر بھی متوسط طبقہ کی جانب سے کوئی ہلچل دیکھنے کو نہیں مل رہی، جب کہ سب سے زیادہ قابل رحم حالت میں وہی ہے اور اس کا سب سے بڑا خطرہ بھی اسی پر ہے۔
سوال ہے کہ آخر ایسا کیا ہوا کہ حکومت کی معاشی پالیسیوں سے سب سے زیادہ متاثر متوسط طبقہ نے سماجی سروکاروں کے تئیں بھی خاموشی کی عادت اختیار کرلی ہے۔ نہ صرف دوسروں کے ساتھ ہونے والے واقعات کے تئیں بلکہ خود یا خودکے گروپوں/فرقوں کے ساتھ ہونے والے واقعات کے تئیں بھی اب وہ کچھ نہیں بولتا اور نہ ہی کوئی مزاحمت درج کراتا ہے۔ بڑھتی ہوئی مہنگائی، وسائل کی عدم دستیابی، صحت کی سہولتوں کی کمی، بے روزگاری، تعلیم کا گرتا معیار اور مستقبل کی غیریقینی صورت حال، تنخواہ میں منمانی کٹوتی، خواتین اور دلتوں کے لیے غیرمحفوظ ماحول، پرتشدد واقعات میں اضافہ وغیرہ ایسے اہم پہلو ہیں جن کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا، لیکن پھر بھی متوسط طبقہ خاموش ہے۔ یہ سنگین صورت حال ہے جس پر سماج کے دانشور طبقہ کو غوروخوض کرنے کی ضرورت ہے۔
طاقت کے تناظر میں دیکھیں تو غریب آبادی سب سے زیادہ کمزور گروپ ہے۔ ہر طرح کی کمی اسے حاشیہ پر لاتی چلی جاتی ہے، چاہے پھر قدرتی عتاب ہوں، وبا ہو یا معاشرہ کے ذریعہ پیدا کی گئی معاشی عدم مساوات۔ دراصل غربت کو عدم مساوات کے ساتھ جوڑ کر دیکھے جانے کی ضرورت ہے۔ جیسے جیسے غربت کا پھیلاؤ ہوتا ہے، عدم مساوات مزید زیادہ پیچیدہ ہوتی چلی جاتی ہے اور پھر اسی سے قوم کے مجموعی طور پر اور جامع ترقی کے عمل میں رکاوٹیں پیدا ہوتی ہیں۔
(بشکریہ: جن ستّا)