محمد فاروق اعظمی
ایک زرعی ملک میں مویشیوں کی اہمیت سے انکار ممکن نہیں ہے۔جس ملک کی تین چوتھائی آبادی زراعت اور کاشتکاری سے وابستہ ہووہاں مویشی بانی بھی اہمیت اختیار کرجاتی ہے لیکن کسی خاص مویشی اور چوپایہ کو تقدس کا درجہ دے کر اس کے احترام میں انسانی حقوق کا ہی خون ہونے لگے تو پھر اس کی تائید نہیں کی جاسکتی ہے۔ گزشتہ چند برسوں سے ہندوستان میں نہ صرف انسانی حقوق بلکہ درجنوں انسان بھی ’ تقدیس گائے‘ کی بھینٹ چڑھا دیے گئے ہیں۔ان واقعات کی پشت پربھلے ہی متعدد عوامل کارفرما ہوں لیکن مسلمانوں سے نفر ت اور سیاسی عوامل سے بھی انکار نہیں کیاجاسکتا ہے۔لیکن اب معاملہ سیاست سے نکل کر عدالت تک جاپہنچا ہے۔
الٰہ آباد ہائی کورٹ کے جج جسٹس شیکھر کمار یادو نے گئوکشی کے ایک مقدمہ کی سماعت کرتے ہوئے بھارتیہ جنتا پارٹی کی قیادت والی مرکز کی مودی حکومت سے کہا ہے کہ پارلیمنٹ میں گائے کے تحفظ کا قانون لائے اور گائے کے تحفظ کو ہندوؤں کا بنیادی حق قرار دیا جائے۔ جج صاحب اترپردیش انسداد ذبیحہ گائے کی دفعات3 5 اور 8 نیز تعزیرات ہند کی دفعہ 379کے تحت تحت سنبھل سے گرفتار کیے گئے جاوید نامی ایک شخص کی ضمانت عرضی کی سماعت کررہے تھے۔ جج صاحب نے ملزم کی ضمانت کی عرضی مسترد کردی اور گائے کو قومی جانور قرار دیے جانے کا حکم صادر کردیا۔ جسٹس شیکھر کمار یادو نے اپنے حکم نامے میں کہاہے کہ حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے گائے کو قومی جانور قرار دیا جائے اور گائے کے تحفظ کو ہندوؤں کا بنیادی حق قرارد یا جائے کیونکہ جب ملک کی تہذیب و ثقافت اور ایمان و ایقان پر زد پڑتی ہے تو ملک کمزور ہوجاتا ہے۔ فاضل جج کا کہنا ہے کہ جب گائے کا بھلا ہوگا تب ہی ملک کا بھلا ہوگا۔
قومی زبان ہندی میں 12 صفحات پر لکھے گئے اپنے فیصلہ میںجج صاحب نے گائے کی تعریف و توصیف میں زمین و آسمان کے قلابے ملادیے ہیں اوراس کی افادیت کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ گائے کے دودھ، دہی، مکھن، پیشاب اور گوبر ان پانچ چیزوں سے تیار ہونے والی ’پنچ کاویم‘ کئی بیماریوں کے علاج میں مفید ہے اور گائے میں 33 دیوی اور دیوتاؤں کا واس (قیام) ہوتا ہے۔اپنے اس دعویٰ کی دلیل میں جسٹس یادو نے ہندوئوں کی مقدس کتاب وید کا حوالہ دیا ہے۔ اپنے فیصلہ میں حضرت والا نے یہ بھی فرمایا ہے کہ سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ گائے واحد جانور ہے جو آکسیجن لیتی ہے اور آکسیجن ہی خارج کرتی ہے۔ تاہم اس بابت موصوف نے کسی سائنسی تحقیق و ثبوت کا ذکر نہیں کیا ہے۔عزت مآب جسٹس شیکھر یادو یہیں نہیں رکتے ہیں بلکہ انہوں نے تحفظ گائے کے معاملے کو افغانستان کے طالبان سے بھی جوڑ دیا ہے۔ انہوں نے اپنے فیصلے میں لکھا ہے کہ جب بھی ہم نے اپنی تہذیب وثقافت کو فراموش کیا تو ہم پر غیر ملکی حملہ آور ہوئے اور ہمیں غلام بنالیااور اگر آج بھی ہم چوکنا نہیں ہوئے تو طالبان کی مثال ہمارے سامنے ہے جنہوں نے افغانستان پر قبضہ کرلیا ہے۔ ہمیں اسے نظرانداز نہیں کرنا چاہیے۔
یہ بات بھی ذہن نشیں رہنی چاہیے کہ ہندوستان دنیا بھر میں بیف ایکسپورٹ کرنے والا سب سے بڑا ملک ہے۔ ان پانچ ممالک کی فہرست میں ہندوستان ابھی تیسرے نمبر پر ہے جہاں سے دنیا بھر میں بیف برآمد کیا جاتا ہے۔ رپورٹ کے مطابق ہندوستان ہر سال 40 میٹرک ٹن گوشت دنیا کے مختلف ملکوں کو برآمد کرتا ہے۔ خاص طور سے گئوکشی کے خلاف تحریک چلانے اور گائے کو ماں کہنے والی بھارتیہ جنتا پارٹی کے دور میں ہندوستان سے بیف کی برآمد کئی گنا بڑھ گئی ہے۔ بیف برآمد سے حکومت کو بے پناہ آمدنی اور دولت حاصل ہو تی ہے، اس لیے یہ امکان کم یا بالکل ہی نہیں ہے کہ حکومت قانون لاکر گائے کو قومی جانور قراردے گی اور اس کے ذبیحہ پر مکمل پابندی لگاکر اپنا مالی نقصان کرے گی۔
بظاہر یہی محسوس ہورہاہے کہ فاضل جج گائے کے سلسلے میں یہ فیصلہ دیتے ہوئے ہندوئوں کے ایک طبقہ کے جذبات کی ہی ترجمانی کررہے ہیں۔ اس سے انکار نہیں کیاجاسکتا ہے کہ گائے کے ساتھ ہندوئوں کے اس طبقہ کے جذبات جڑے ہوئے ہیں۔ ایک عرصہ سے گئو کشی روکنے کی کوشش ہورہی ہے لیکن یہ بھی سچ ہے کہ ہندوستان میں خوراک کا تنوع ہے اور یہ عملاً ممکن نہیں ہے کہ گائے کو قومی جانور قرار دے کر اس کے ذبیحہ پر پورے ملک میں پابندی لگادی جائے۔
یہ بات بھی ذہن نشیں رہنی چاہیے کہ ہندوستان دنیا بھر میں بیف ایکسپورٹ کرنے والا سب سے بڑا ملک ہے۔ ان پانچ ممالک کی فہرست میںہندوستان ابھی تیسرے نمبر پر ہے جہاں سے دنیا بھر میں بیف برآمد کیاجاتا ہے۔ برازیل اور آسٹریلیا پہلے اور دوسرے نمبر پر ہیں۔ گائے کے گوشت کی برآمدات کے لحاظ سے امریکہ اور ارجنٹائن چوتھے اور پانچویں نمبر پر ہیں۔ رپورٹ کے مطابق ہندوستان ہر سال 40 میٹرک ٹن گوشت دنیا کے مختلف ملکوں کو برآمد کرتا ہے۔ خاص طور سے گئو کشی کے خلاف تحریک چلانے اور گائے کو ماں کہنے والی بھارتیہ جنتاپارٹی کے دور میں ہندوستان سے بیف کی برآمد کئی گنا بڑھ گئی ہے۔ بیف برآمد سے حکومت کو بے پناہ آمدنی اور دولت حاصل ہو تی ہے، اس لیے یہ امکان کم یا بالکل ہی نہیں ہے کہ حکومت قانون لاکر گائے کو قومی جانور قراردے گی اوراس کے ذبیحہ پر مکمل پابندی لگاکر اپنا مالی نقصان کرے گی۔ یہ ایک ایسا سیاسی مسئلہ بھی ہے جس کی بنیاد پر پولرائزیشن ہوتا ہے اور حکمراں جماعت بھارتیہ جنتاپارٹی کو ووٹوں کا فائدہ حاصل ہوتا ہے۔اس لیے بی جے پی کو اسے زندہ رکھنا بھی ضروری ہے۔ بنگال ، کیرالہ اور کشمیر میں بی جے پی گائے کے ذبیحہ اور بیف کو ایشوبناتی ہے جب کہ گوا، آسام، میگھالیہ اور منی پور میں اس کی حکومت ہے باوجود اس کے نہ تو وہاں گائے اس کیلئے ماں ہے اورنہ وہ گائے کے ذبیحہ پر کوئی ایشو کھڑاکرتی ہے کیوںکہ ان ریاستوں میں بیف یعنی گائے کا گوشت لوگوں کی اہم خوراک ہے اور وہ کسی بھی حال میں اس سے دست بردار نہیں ہوسکتے۔ لہٰذا گائے کو قومی جانور قرا دے کر بی جے پی ان ریاستوں میں اپنی حکومت قربان نہیں کرسکتی ہے۔
یہ حقیقت بھی کسی سے پوشیدہ نہیں ہے کہ بی جے پی تحفظ گائے سے کہیں زیادہ گائے پر سیاست کرنے پر دلچسپی رکھتی ہے۔ لہٰذا گائے کو قو می جانورقرار دے کر بی جے پی اپنے لیے گھاٹے کا سودا نہیں کرسکتی۔ویسے بھی جن ریاستوں میں ابھی تحفظ گائے کے قوانین ہیں، وہاں گائے کی صورتحال کسی سے پوشیدہ نہیں ہے۔ اتر پردیش ، مدھیہ پردیش ، گجرات وغیر ہ میں گائے کے سلسلے میں بنائے گئے قانون سے تو اب تک یہی دیکھنے میں آیاہے کہ اس سے مشکلات ہی بڑھی ہیں۔آوارہ مویشی کھیتوں میں کھڑی فصل تباہ کررہے ہیں لیکن خوف کے مارے کوئی اپنے کھیتوں سے انہیں ہنکانے کی بھی ہمت نہیں کرپاتا ہے۔ سڑکوں پر ٹہلتے مویشیوں کی وجہ سے سیکڑوں حادثات ہوچکے ہیں جن میں درجنوں افراد کی ہلاکتیں ہوئی ہیں۔ اترپردیش میں ہی گائے کا گوشت کھانے اور رکھنے کے جرم میں انسانوں کو ہلاک بھی کر ڈالا گیا ہے۔ اب اگر پورے ملک میں گائے کے ذبیحہ پر مکمل پابندی کا قانون بن گیا اور گائے کو قومی جانور قرار دے دیاگیا توملک بھر میں کیا صورتحال ہوگی، اس کا اندازہ ہی لگایا جاسکتا ہے۔یہ بھی ممکن ہے کہ فرقہ پرست افراد اس قانون کو فرقہ واریت پھیلانے اور سیاسی دشمنی نکالنے کیلئے استعمال کرنے لگیں جیسا کہ اتر پردیش اور دوسری ریاستوں میں ہورہاہے۔
بہرحال یہ دیکھنا دلچسپ ہوگا کہ طلاق ثلاثہ کے سلسلے میں قانون سازی کے عدالتی مشورہ پر فوراً عمل درآمد کرنے والی مرکز کی بی جے پی حکومت الٰہ آباد ہائی کورٹ کے عزت مآب جج جسٹس شیکھر یادو کے مشورہ پر کب اور کیا قدم اٹھاتی ہے ؟
[email protected]