پٹرول 150روپے کا ملے تو بھی کوئی بات نہیں

ایندھن پر ٹیکس سے ملنے والا پیسہ حکومت عام لوگوں کو دے تاکہ ان کی قوت خرید میں اضافہ ہو

0

بھرت جھنجھن والا

عالمی بازار میں برس2015میں کچے تیل کی قیمت 111ڈالر فی بیرل تھی۔ 2020میں یہ کم ہوکر 23ڈالر فی بیرل رہ گئی۔ جیسے جیسے تیل کی قیمت کم ہوتی گئی، ویسے ویسے مرکزی حکومت تیل پر وصول کی جانے والی ایکسائز ڈیوٹی میں اضافہ کرتی رہی۔ اس وجہ سے ملک میں پٹرول کی قیمت اس دوران تقریباً 70روپے فی لیٹر رہی۔ آج عالمی بازار میں ایندھن تیل کی قیمت پھر سے بڑھ کر 76ڈالر فی بیرل ہوگئی ہے۔ 2020کے مقابلہ میں اس میں 3گنا اضافہ ہوا۔ ایندھن تیل کی قیمت میں ہوئے اس اضافہ کے دوران حکومت نے ایکسائز ڈیوٹی میں کٹوتی نہیں کی بلکہ انہیں پہلے کی طرح اونچا بنائے رکھا۔ جب قیمتیں کم ہورہی تھیں، تب حکومت نے ایکسائز ڈیوٹی بڑھائی۔ جب قیمت بڑھنے لگی تب بھی ایکسائز ڈیوٹی کو اونچا بنائے رکھا۔ اس وجہ سے ابھی تیل کی قیمتیں اونچی ہیں۔
گھریلو بازار میں پٹرول کی قیمت 100روپے فی لیٹر سے بھی زیادہ ہوگئی ہے۔ پٹرول کی قیمت کے ہول سیل پرائس انڈیکس میں 1.6فیصد حصہ ہوتا ہے اور ڈیژل کا 3.1فیصد۔ کل مہنگائی میں تیل کا حصہ چھوٹا ہے، اس لیے اسے زیادہ طول نہیں دینا چاہیے۔ مینوفیکچرنگ میں بنیادی طور پر بجلی کا استعمال ہوتا ہے، ایندھن تیل کا نہیں۔ اس لیے تیل کی قیمتوں میں اضافہ کا اثر معاشی ترقی پر کم ہی پڑے گا۔
ایندھن تیل کی قیمت میں اضافہ کا پہلا فائدہ ہے کہ ہمارا درآمدپر انحصار کم ہوجائے گا۔موجودہ وقت میں ملک میں کھپت کیے جانے والے ایندھن تیل کا تقریباً 85فیصد درآمد کیا جاتا ہے۔
تیل کی قیمتوں میں اضافہ سے کھپت کم ہوگی۔ ملازمین بائک کی جگہ پر بس سے کام پر جانے لگیں گے۔ اس لیے ایندھن تیل کی قیمتوں میں اضافہ سے ہماری معاشی خودمختاری کی حفاظت ہوگی۔ دوسرا فائدہ ماحولیات کا ہے۔ ایندھن تیل کے جلنے سے کاربن کا اخراج بڑی مقدار میں ہوتا ہے۔ تیل کی قیمتوں میں اضافہ سے کھپت کم ہوگی اور کاربن کے اخراج میں گراوٹ آئے گی۔
دیکھنے والی بات یہ ہے کہ حکومت کے ذریعہ ایندھن تیل سے وصول کیے گئے اس بہت بڑے ریونیو کا استعمال کس طرح کیا جارہا ہے۔ موجودہ سال 2021-22کے بجٹ میں حکومت نے سرمایہ کے اخراجات میں 1.15لاکھ کروڑ روپے کا اضافہ کیا ہے۔ لیکن اس خرچ کو تیل سے ملے ریونیو سے نہیں کیا جارہا ہے بلکہ اس اضافی خرچ کو دوسرے سرمائے فروخت کرکے کیا جارہا ہے۔ گزشتہ سال حکومت نے 46ہزار کروڑ روپے سرمایہ کو فروخت کرکے حاصل کیے تھے۔ مثال کے لیے، پبلک یونٹس کے شیئر فروخت کرکے۔ اس برس دوسرے سرمایہ کو فروخت کرکے 1.88لاکھ کروڑ روپے کمانے کا ہدف ہے۔ اسے بھی گزشتہ ماہ بڑھا کر 6لاکھ کروڑ روپے کردیا گیا ہے۔ واضح ہے کہ سرمایہ کاری میں 1.15لاکھ کروڑ روپے کے اضافہ کے سامنے سرمایہ کی فروخت کی 6لاکھ کروڑ روپے کا اضافہ حاصل کرنے کی تجویز ہے۔

حکومت اگر پٹرول اور ڈیژل پر ایکسائز ڈیوٹی میں مزید اضافہ کرے تو مناسب ہوگا۔ ملک میں پٹرول 150روپے فی لیٹر فروخت ہو تو بھی ٹھیک ہے۔ ایسا کرنے سے مہنگائی میں کچھ اضافہ ضرور ہوگا، لیکن عام آدمی متاثر نہیں ہوگا۔ حاصل کی گئی رقم کو عام آدمی کے کھاتے میں راست ٹرانسفر کرنے سے اس کی تلافی ہوجائے گی۔ معاشی ترقی متاثر نہیں ہوگی چوں کہ بجلی سستی ہے۔ ملک کی معاشی خودمختاری کا تحفظ ہوگا۔ دنیا کے ماحولیات میں بہتری آئے گی۔ ضروری یہ ہے کہ حکومت اس سے حاصل کی گئی رقم مفادعامہ میں خرچ کرے نہ کہ سرکاری کھپت بڑھانے میں۔

سنجیدہ موضوع یہ ہے کہ حکومت نے تیل سے حاصل کی گئی ایکسائز ڈیوٹی کا استعمال اپنی کھپت کو بڑھانے کے لیے کیا ہے۔ موجودہ برس کے بجٹ میں ریونیو خرچ جیسے سرکاری ملازمین کی تنخواہوں وغیرہ میں 12فیصد کا اضافہ کیا گیا ہے۔ حال میں ہی یکم؍جولائی کو حکومت نے سرکاری ملازمین کا ڈی اے17فیصد سے بڑھا کر 28فیصد کردیا ہے۔ ایندھن تیل سے حاصل کی گئی اضافی ایکسائز ڈیوٹی کا استعمال فلاحی اسکیموں کے لیے بھی نہیں کیا جارہا ہے۔ جیسے منریگا پر خرچ کی جانے والی رقم میں موجودہ سال میں 34فیصد کی کٹوتی کی گئی ہے۔ وزیراعظم کسان یوجنا میں گزشتہ برس 75ہزار کروڑ کے خرچ کی جگہ پر رواں سال میں 65ہزار کروڑ روپے خرچ کی تجویز ہے۔ دیہی بجلی(Rural Electrification)میں گزشتہ برس 4500کروڑ روپے کی جگہ پر رواں برس میں 3,500کروڑ روپے کے خرچ کی تجویز ہے۔ اس لیے ایندھن تیل سے وصول کیے گئے ریونیوکا استعمال نہ تو سرمایہ کاری کے لیے کیا جارہا ہے نہ ہی عوام کی فلاح کے لیے، بلکہ اس کا استعمال بنیادی طور پر سرکاری کھپت اور سرکاری ملازمین کو بڑھی ہوئی تنخواہیں دینے کے لیے کیا جارہا ہے۔
اس وقت معیشت کمزور ہے۔ اس کی اہم وجہ یہ ہے کہ عام آدمی کے پاس قوت خرید نہیں ہے۔ کووڈ کے بحران نے اس کی سیونگ ختم کردی ہے۔ وہ اپنی کھپت میں کٹوتی کررہا ہے۔ بازار سے مال کی ڈیمانڈ تب ہی ہوگی، جب عام آدمی کے ہاتھ میں قوت خرید ہوگی اور اس کی ڈیمانڈ کی سپلائی کے لیے کمپنیوں کے ذریعہ مال بنایا جائے گا۔
اس مشکل صورت حال میں حکومت کو دو قدم اٹھانے چاہیے۔ پہلا یہ کہ سرمایہ کاری کو بڑے ہائی وے وغیرہ کی جگہ پر دیہی بجلی، جھگیوں میں سڑک اور قصبوں میں وائی فائی وغیرہ سہولتوں کی طرف موڑنا چاہیے، جس سے کہ عام آدمی کے لیے کاروبار کرنا آسان ہوجائے اور وہ آمدنی حاصل کرکے بازار سے مال خریدنے کے قابل ہو۔ دوسرے حکومت کو اپنی کھپت اور سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں کٹوتی کرکے رقم کو عام آدمی کے کھاتے میں سیدھے ٹرانسفر کرنا چاہیے جس سے کہ عام آدمی کے ہاتھ میں خریداری کی طاقت آئے۔
حکومت اگر پٹرول اور ڈیژل پر ایکسائز ڈیوٹی میں مزید اضافہ کرے تو مناسب ہوگا۔ ملک میں پٹرول 150روپے فی لیٹر فروخت ہو تو بھی ٹھیک ہے۔ ایسا کرنے سے مہنگائی میں کچھ اضافہ ضرور ہوگا، لیکن عام آدمی متاثر نہیں ہوگا۔ حاصل کی گئی رقم کو عام آدمی کے کھاتے میں راست ٹرانسفر کرنے سے اس کی تلافی ہوجائے گی۔ معاشی ترقی متاثر نہیں ہوگی چوں کہ بجلی سستی ہے۔ ملک کی معاشی خودمختاری کا تحفظ ہوگا۔ دنیا کے ماحولیات میں بہتری آئے گی۔ ضروری یہ ہے کہ حکومت اس سے حاصل کی گئی رقم مفادعامہ میں خرچ کرے نہ کہ سرکاری کھپت بڑھانے میں۔
(بشکریہ: نوبھارت ٹائمس)

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS