لڑکیوں کی دینی تربیت

0

مفتی امانت علی قاسمیؔ

اس وقت ہندوستان کے مسلم معاشرہ پرخاص طور پرمسلم لڑکیوں کے تعلق سے نظر ڈالتیہیں توصاف نظر آتا ہے کہ تعلیم کے نام پر اسلامی تہذیب کا جنازہ نکالنے کا عمل خود ہمارے ہاتھوں سے جاری ہے ، لیکن سوال یہ ہے کہ یہ کب تک جاری رہے گا یا اس صورت حال پر سنجیدگی سے غور کیا جائے گا؟ بسا اوقات بیانات ، جلسے جلوس اور قلمی جولانی کے ذریعہ تو اپنے درد و غم کا اظہار کردیا جاتا ہے پر کوئی مضبوط اور دیر پا لائحہ عمل طے نہیں کیا جاتا ہے۔ فکر ی و ذہنی ارتداد اور مسلم معاشرے میں درآئی خرابیوں میں سب سے بڑا کردار مروجہ تعلیمی نظام کا ہے۔ اس لیے کہ اس تعلیمی نظام میں ایک بچی اسکول کے حوالے کردی جاتی ہے۔ اس کی دینی تربیت نہیں ہوتی ، اسلامی تہذیب سے اس کو واقف نہیں کریا جاتا ،ایک مسلمان عورت کے فرائض و حقوق ، عقیدہ توحید ،رسالت اور آخرت کی اہمیت ، اسلام کے ابدی و آفاقی نظام کی عظمت ، اسلامی تعلیمات کی معقولیت ،عقیدہ شرک کی قباحت ، اس کی غیر معقولیت جیسے موضوعات سے واقف نہیں کرایا جاتا ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ایک مسلم لڑکی دوسروںکے تصورات سے جس قدر واقف اور ما نوس ہوتی ہے اسلام کے اقدار سے اس قدر مانوس نہیں ہوتی ہے ۔آج اگر ہم اپنے اس طرز عمل میں تبدیلی چاہتے ہیں اور مسلم بچیوں کے ایمان و اعمال کی بقا اور اسلامی تہذیب پر اپنے ہاتھوں ہوتے یلغار کو روکنا چاہتے ہیں تو ہمیں سنجیدہ اور دیر پا محنت کی ضرورت ہے ۔
تعلیم بہت اہم اور ضروری ہے لیکن صورت حال یہ ہے کہ اپنی بچیوں کی تعلیم کے ذریعہ کچھ حاصل کرنے کے ساتھ بہت کچھ کھو رہے ہیں ۔اس کی وجہ اپنا تعلیمی نظام نہ ہونا ہے۔ ہمیں اپنا تعلیمی نظام قائم کرنے کی ضرورت ہے ، جہاں کہیں بھی بڑی مسلم آبادی ہو اور مسلمان معیشت میں مضبوط ہوں ان کو اپنے معیاری اسکول قائم کرنے چاہیے اور اسکولوں میں بھی گرل اسکول اور گرل کالج قائم کرنے پر سب سے زیادہ توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ مسلم منجمینٹ اسکولوں میں ایک کلاس اسلامی معلومات کا رکھاجاسکتاہے، اور اس طرح کے اسکول سے ہم اسلامی تہذیب و ثقافت کے فروغ کا بڑا کام کرسکتے ہیں ۔ جہاں مسلمان اپنے اسکول قائم نہیں کرسکتے ہیں وہاں اسکو ل کے ٹائم ٹیبل کو سامنے رکھ کر دو گھنٹے کے لیے اسلامی کورس مرتب کرکیعلاحدہ تعلیمی نظام قائم کیاجائے جس میں لازمی طورپر اسکول میں پڑھنے والی بچیوں کوداخلہ دلایا جائے۔ بعض لوگ اپنے گھروں میں کسی حافظ یا عالم کو ٹیوشن کے لیے رکھتے ہیں اور اس ذریعہ سے اپنی بچی کو دینی تعلیم دلانے کی کوشش کرتے ہیں ظاہر ہے کہ یہ متبادل نہیں ہوسکتا ہے۔ ماحول کا مقابلہ ماحول کے ذریعہ ہوسکتا ہے جس طرح اہتمام کے ساتھ لڑکیاں اسکول میں جاتی ہیں اسی طرح اہتمام کے ساتھ جز وقتی اسلامک مکتب یا اسلامک اسکول میں بھی جائیں تاکہ ان کے ذریعہبچیوں کے دل و دماغ پراسکولوں کے ذریعہ چھاجانے والے بے دینی کے غبارکو کم کیا جاسکے۔
آج مسلم بچیوں کی جو بے دینی اور فکری ارتدادہم اپنی آنکھوںسے دیکھ رہے ہیں اس میں ایک اہم عنصر یہ ہے کہ ہماری مسلم بچیاں اسلامی تعلیمات ، اسلامی احکامات سے غیر مانوس ہیں۔ دینی مزاج سے مانوس نہ ہونے میں ایک چیز یہ بھی حائل ہے کہ مسجد میں جو دینی پروگرام ہوتے ہیں ان میں عموما عورتوں کی شرکت نہیں ہوتی ہے اور نہ ہی اس کاکوئی نظم کیا جاتاہے۔ اسی طرح مختلف مواقع پر عورتیں گھر سے باہر نکلتی ہیں ، لڑکیاں ملازمت کے لیے گھر سے باہر نکلتی ہیں ، یا تعلیم کے لیے گھر سے باہر نکلتی ہیں ، یا اس کے علاوہ کسی دوسری ضرورت سے باہر نکلتی ہیں لہذا مساجد میں پردے کے ساتھ عورتوں کی نماز کا نظم بھی ہوتاکہ وہاں نماز پڑھ لیا کریں۔اس طرح کے نظم سے ہماری مسلم بچیاں مسجد کے ماحول سے کسی حد تک مانوس ہوسکیں گی۔ امید ہے کہ دینی باتوں کو سن کر اسلام کے تعلق سے ان کی غلط فہمیاں دور ہوں گی ۔یہ ایک اہم مسئلہ ہے اس پر اہل علم کو غور کرنا چاہیے، اگر کوئی ممکن نظام بن سکتاہو تو ضرور بناناچاہیے۔ qq

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS