طالبان کو معاشی بحران سے نمٹنے کا چیلنج

0

صبیح احمد

افغانستان میں طالبان کے پھر سے اقتدار پر قابض ہونے کے بعدافغان شہریو ں کو صرف انسانی بحران کا ہی سامنا نہیں ہے بلکہ انہیں اب زبردست معاشی بحران کا بھی سامنا کرنا ہوگاجس کا خطرہ پہلے سے ہی خستہ حال معیشت کے سر پر منڈلانے لگا ہے۔ طالبان کے قبضہ سے پہلے بھی افغانستان کی معاشی حالت انتہائی نازک تھی۔ افغان معیشت کی حالت پر تبصرہ کرتے ہوئے عالمی بینک نے مارچ میں کہا تھا کہ اس کی حالت ایسی ہے جو کسی بھی وقت ناکام ہو سکتی ہے اور پوری طرح سے امداد پر منحصر ہے کیونکہ عوامی اخراجات کا 75 فیصد فنڈ حکومت کے اپنے ریونیو کلیکشن سے نہیں آتا ہے بلکہ بین الاقوامی اداروں اور امریکہ جیسے ملکوں سے ملنے والی گرانٹس سے یہ اخراجات پورے کیے جاتے رہے ہیں۔
طالبان کے پھر سے آتے ہی عطیہ دہندگان نے اعلان کرنا شروع کر دیا کہ وہ امدادی رقم کے ’بہائو کی ٹونٹیاں‘ بند کر دیں گے، کم از کم کچھ دنوں کے لیے ہی صحیح۔ امریکہ نے اعلان کیا ہے کہ وہ ان اربوں ڈالر کے ایمرجنسی ریزرو کو منجمد کر دے گا جسے افغانستان کے مرکزی بینک نے نیویارک کے فیڈرل ریزرو بینک میں جمع کر رکھا ہے۔ بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) نے بھی کہا ہے کہ 450ملین ڈالر مالیت کے فنڈ کی قسط کو جسے آئندہ ہفتہ افغان حکومت کو جاری کی جانی تھی، معطل کر دیا جائے گا اور جرمنی نے بھی شیڈیول کے مطابق 300 ملین ڈالر کی امداد کو جاری نہ کرنے کا اعلان کیا ہے۔ افغانستان کے لیے فنڈز کا ایک بڑا ذریعہ بیرون ملک مقیم اور کام کرنے والے افغان شہریوں کی ترسیلات ہیں۔ طالبان کے اقتدار سنبھالنے سے پہلے اوسطاً 80 کروڑ ڈالر سالانہ آتے تھے لیکن طالبان کی آمد کے بعد سے ملک میں رقوم منتقل کرنے والی 2 سب سے بڑی کمپنیوں ویسٹرن یونین اور منی گرام انٹرنیشنل نے افغانستان میں اپنا آپریشن معطل کر دیا ہے جس سے فنڈز کا یہ ذریعہ بھی منقطع ہو گیا ہے۔ مزید پیچیدہ معاملات یہ ہیں کہ غیر ملکی حکومتیں اور غیر سرکاری تنظیمیں افغانستان چھوڑ کر جا رہی ہیں جو ہزاروں مقامی لوگوں کو ملازمت فراہم کرتی ہیں جس سے فنڈز کی آمد کا یہ دروازہ بھی بند ہو گیا ہے۔ حالانکہ امریکی صدر بائیڈن نے یہ کہتے ہوئے کہ ’ہم لوگ افغان عوام کی حمایت جاری رکھیں گے۔ ہم لوگ اپنی ڈپلومیسی، اپنے بین الاقوامی اثر و رسوخ اور اپنے انسانی امدادکے ساتھ آگے بڑھیں گے‘، وعدہ کیا ہے کہ طالبان کے پھر سے قبضہ کے باوجود ملک میں انسانی امداد کا سلسلہ جاری رہے گا۔ لیکن ملک سے امریکی اور اتحادی فورسز کے مکمل انخلا کے بعد یہ واضح نہیں ہے کہ کیا بین الاقوامی امدادی تنظیمیں اپنی سرگرمیاں جاری رکھ سکیں گی؟ اگر جاری رکھ سکیں گی تو کیسے؟

سقوط کابل سے لے کر آج تک ان کی جانب سے ایسی کوئی حرکت سامنے نہیں آئی ہے جس سے ان کے قول و فعل میں تضاد ظاہر ہو سکے۔ ممکن ہے کہ طالبان کی یہ دانستہ حکمت عملی ہو کہ جدید ٹکنالوجی کے اس دور میں وہ خود کو بین الاقوامی برادری سے الگ تھلگ نہ پڑنے دیں اور اس کے لیے انہیں خصوصاً نظریاتی طور پر دنیا کے سامنے اپنی تبدیل شدہ شبیہ پیش کرنی ہوگی اور اس پر پورے عزم کے ساتھ قائم بھی رہنا ہوگا۔

اس بار طالبان کو جو معیشت ملی ہے، وہ اس سے بہت زیادہ مختلف ہے جو 1996 سے2001 کے اواخر تک ان کے (طالبان کے) پہلے دور اقتدار میںتھی۔ مختلف نوعیت کے مسائل کے باوجود افغانستان کی معیشت اب 2 دہائیوں قبل کے مقابلے بہت بڑی اور زیادہ شہرپسند ہے۔ 2002 میںطالبان کی اقتدار سے بے دخلی کے بعد سے اب تک افغانستان کی مجموعی گھریلو پیداوار (جی ڈی پی) میں کئی گنا اضافہ ہوگیا ہے۔ بڑے بڑے شہروں میں ڈھانچہ جاتی پروجیکٹوں کے سبب عام افغان شہریوں کے پاس بھی اسمارٹ فون جیسی جدید ٹکنالوجی آ گئی ہے۔ مگر یہ معاشی ترقی آئی کیسے؟ یہ ایک اہم سوال ہے۔ اس کا پورا انحصار غیر ملکی امداد پر ہے۔ ملک کو بڑے پیمانے پر تجارتی خسارہ کا سامنا ہے کیونکہ اب بھی در حقیقت ملک کے 44 فیصد کام کاجی لوگ کم پیداواروالی کاشتکاری میں مصروف ہیں اور 60 فیصد گھرانے اپنی آمدنی کے لیے کاشتکاری پر منحصر ہیں۔ طالبان کے اقتدار سنبھالنے کے بعد بند ہونے والے بینک اب آہستہ آہستہ کھلنا شروع تو ہو گئے ہیں لیکن اب ہو یہ رہا ہے کہ لوگ اپنی کرنسی ’افغانی‘ میں رکھی ہوئی رقم کو امریکی ڈالروں میں تبدیل کرانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اس سے ’افغانی‘ کی قدر کم ہو رہی ہے اور روزمرہ استعمال کی اشیا کی قیمتوں میں اضافہ ہو رہا ہے۔ افغانستان کی معیشت میں ڈالر کی مسلسل آمد نے تاجروں کو یہ قوت دی تھی کہ وہ بیرون ملک اپنی خریداری ڈالروں میں کر سکیں کیونکہ ان کے بہت سے سپلائرس افغان کرنسی ’افغانی‘ کو بطور ادائیگی قبول کرنے کو تیار نہیں تھے لیکن اب امریکی ڈالر کی ترسیل رک جانے سے تجارت پر منفی اثرات مرتب ہونے کا خطرہ ہے۔ امریکہ اب بھی طالبان کو ایک دہشت گرد تنظیم گردانتا ہے اور ابھی تک غیر ملکی اثاثہ کنٹرول کے دفتر کی پابندیوں کی لسٹ میں شامل ہے۔ موجودہ امریکی پالیسی کے تحت طالبان کے ماتحت کسی بھی اقتصادی ادارہ کیلئے یہ نا ممکن ہے کہ وہ عالمی اقتصادی بازار میں کسی طرح کا کاروبار میں حصہ لے سکے۔
افغانستان میں پہلے سے ہی بھکمری کی حالت ہے۔ شدید خشک سالی نے اس پر گھی کا کام کیا ہے جس کی وجہ سے گیہوں کی فصل تباہ ہو گئی ہے۔ اقوام متحدہ کے ورلڈ فوڈ پروگرام کے اندازے کے مطابق موجودہ صورتحال میں 3 میں سے ایک افغان باشندہ کو شدید بھکمری کا شکار ہونے کا خطرہ لاحق ہے۔ 5 سال تک کے آدھے افغان بچے پہلے سے ہی تغذیہ کی کمی کا شکار ہیں۔ اقوام متحدہ کے حکام کا بہرحال یہ بھی کہنا ہے کہ طالبان نے انہیں ملک میں غذائی امداد کی تقسیم جاری رکھنے کی اجازت دینے کی یقین دہائی کرائی ہے۔ معاشی صورت حال میں بہتری کا تعلق نئی حکومت کی ہیئت واضح ہونے سے بھی ہے۔ طالبان سابق حکومت کے کچھ عہدیداروں سے ملاقاتیں کر رہے ہیں اور ایسی تجاویز بھی سامنے آئی ہیں جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ طالبان اقتدار میں شراکت داری کے نظام میں دلچسپی رکھتے ہیںتاکہ بین الاقوامی برادری ان کی حکومت کو تسلیم کر لے۔ بین الاقوامی سطح پر قبول کیے جانے کے بعد افغانستان میں امداد کی آمد دوبارہ شروع ہو سکتی ہے اور اسی طرح ویسٹرن یونین، منی گرام اور دیگر کمپنیاں وہاں اپنا کام دوبارہ شروع کر سکتی ہیں جس سے زر مبادلہ کی آمد شروع ہو سکتی ہے۔
بہرحال ابھی تک یہ واضح نہیں ہے کہ موجودہ معاشی چیلنجوں کا سامنا کرنے کے باوجود طالبان کو اس شعبہ میں غیر ملکی حکومتوں پر کتنا انحصار کرنا ہوگا۔ در حقیقت مغربی ممالک اس بات کا ابھی تک صحیح اندازہ لگانے میں ناکام ہیں کہ افغانستان کو چلانے کے لیے طالبان کو کتنی رقم کی ضرورت پڑ سکتی ہے۔ یہ شدت پسند گروپ اپنے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے ریکارڈ کے باوجود اتنا بدعنوان نہیں ہے جتنا کہ رخصت پذیر حکمراں تھے۔ یعنی جتنی بھی آمدنی ہوگی وہ ملک کو چلانے اور شہریوں کی ضرورتوں کو پورا کرنے میں خرچ کریں گے، اور توقع کی جا سکتی ہے کہ وہ (رقم) کسی بھی سرکاری افسر کے کھاتے میں نہیں جائے گی۔ جہاں تک ان کی آمدنی کے وسائل کا تعلق ہے، انہیں اپنے سابقہ دور حکومت کا تجربہ حاصل ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ ان حالات میں بھی پاکستان، چین اور ایران جیسی علاقائی طاقتوں کے ذریعہ افغانستان کے ساتھ تجارت جاری رکھے جانے کی توقع ہے۔ یہ ممالک ریونیو کے منافع بخش وسائل فراہم کر سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ طالبان نے اس بار اپنی پالیسیوں میں بڑے پیمانے پر تبدیلی لانے کی کوشش کی ہے۔ سقوط کابل سے لے کر آج تک ان کی جانب سے ایسی کوئی حرکت سامنے نہیں آئی ہے جس سے ان کے قول و فعل میں تضاد ظاہر ہو سکے۔ ممکن ہے کہ طالبان کی یہ دانستہ حکمت عملی ہو کہ جدید ٹکنالوجی کے اس دور میں وہ خود کو بین الاقوامی برادری سے الگ تھلگ نہ پڑنے دیں اور اس کے لیے انہیں خصوصاً نظریاتی طور پر دنیا کے سامنے اپنی تبدیل شدہ شبیہ پیش کرنی ہوگی اور اس پر پورے عزم کے ساتھ قائم بھی رہنا ہوگا۔ ملک کے مرکزی بینک ’دا افغانستان بینک‘ کے سابق گورنر اجمل احمدی کا یہ قول بہت ہی معنی خیز ہے کہ ’طالبان نے فوجی طور پر جیت تو حاصل کر لی ہے لیکن اب انہیں حکومت کرنی ہے۔ یہ اتنا آسان نہیں ہے۔‘
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS