نئی دہلی( ایجنسی):سپریم کورٹ کو منگل کو بتایا گیا کہ اتر پردیش حکومت نے 2013 کے مظفر نگر فسادات سے متعلق 77 مقدمات بغیر کسی وجہ بتائے واپس لے لیے ہیں جن میں ایسے جرائم بھی ہیں جن کی بنیاد پرعمر قید کی سزا ہوسکتی ہے۔ چیف جسٹس این وی رمن،جسٹس ڈی وائی چندرچوڑ اور جسٹس سوریا کانت کا ایک بینچ ایڈوکیٹ اشونی اپادھیائے کی جانب سے دائر درخواست کی سماعت کرنے والا ہے جس میں منتخب نمائندوں کے خلاف درج مقدمات کو جلد نمٹانے کی درخواست کی گئی ہے۔
سینئر ایڈووکیٹ وجے ہنساریہ جنہیں اس معاملے میں ایک ایمیکس کیوری کے طور پر مقرر کیا گیا ہے، نے ایڈووکیٹ سنیہا کالیتا کے ذریعے دائرکی گئی اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ ریاستی حکومت نے بتایا کہ 2013 کے مظفر نگر کے سلسلے میں میرٹھ زون کے پانچ اضلاع میں 6،869 ملزمان کے خلاف 510 مقدمات ریکارڈ کیے گئے۔ ہنساریہ نے کہا 510 مقدمات میں سے 175 میں چارج شیٹ دائر کی گئیں، 165 مقدمات میں حتمی رپورٹیں پیش کی گئیں۔ 175 کو خارج کر دیا گیا۔
اس کے بعد ریاستی حکومت نے CRPC کے سیکشن 321 کے تحت 77 مقدمات واپس لے لیے۔ سرکاری حکم میں CRPC کی دفعہ 321 کے تحت کیس واپس لینے کی کوئی وجہ نہیں بتائی گئی۔ ان کا کہنا ہے کہ انتظامیہ نے کافی غور و خوض کے بعد ان کیس کو واپس لینے کا فیصلہ کیا ہے۔
ہنساریہ نے کہا کہ CRPC کے سیکشن 321 کے تحت 2013 کے مظفر نگر فسادات سے متعلق ان 77 مقدمات کو واپس لینے پرہائی کورٹ CRPC کی دفعہ 401 کے تحت اس عدالت کے مقرر کردہ قانونی دائرے میں نظرثانی اختیارات کے استعمال کی جانچ کر سکتی ہے۔ اسی طرح کرناٹک حکومت نے 62،تمل ناڈو چار، تلنگانہ 14 اور کیرالہ 36 کیس بغیر کسی وجہ بتائے واپس لے لیے۔ ہنسایہ نے کہا کہ اس عدالت نے 10 اگست 2021 کو حکم دیا تھا کہ ایم پی/ایم ایل اے کے خلاف مقدمہ ہائی کورٹ کی اجازت کے بغیر واپس نہیں لیا جائے گا۔
کس معاملے میں یوگی حکومت نے لیے 77 مقدمات واپس؟
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS