انڈیا کو درپیش بڑا چیلنج، طالبان حکومت کو تسلیم کیا جائے یا نہیں؟

0
Image: BBC Urdu

نئی دہلی(بی بی سی )افغانستان میں تیزی سے بدلتے ہوئے حالات اور موجودہ صورتحال یہ واضح کر رہے ہیں کہ طالبان ایک طویل عرصے کے لیے اقتدار میں واپس آئے ہیں۔ ایسے میں سکیورٹی کے حوالے سے وسط اور جنوبی ایشیا کے ممالک کے خدشات بھی بڑھ گئے ہیں اور خاص طور پر انڈیا کے لیے یہ صورتحال کچھ بہت ہی چیلنجز سے بھرپور نظر آتی ہے۔ماہرین کا خیال ہے کہ انڈیا کے سامنے سب سے بڑا چیلنج یہ ہے کہ وہ طالبان کی حکمرانی کو باقاعدہ اور سرکاری سطح پر تسلیم کرے یا نہیں۔ بہرحال اس حوالے سے بھی رائے منقسم ہے۔
چند ماہرین کا خیال ہے کہ انڈیا کو فی الوقت کسی جلد بازی کا مظاہرہ نہیں کرنا چاہیے کیونکہ طالبان کے نظریے میں کوئی خاص تبدیلی نہیں آئی ہے، وہ پہلے بھی جمہوریت کے نفاذ کے خلاف تھے اور اب بھی جمہوریت کے خلاف ہیں۔
طالبان چاہتے ہیں کہ ملک اسلامی شریعت کے مطابق چلے۔ ایسے میں مولوی صاحبان ہی فیصلہ کریں گے کہ اس کے تحت لوگوں کے حقوق کیا ہوں گے، خاص طور پر خواتین اور اقلیتوں کے۔ جس طرح امریکہ کی قیادت میں نیٹو افواج افغانستان سے اچانک واپس چلی گئیں ہیں اور جس طرح ملک میں افراتفری پھیل گئی ہے اس سے بہت سے ممالک کو دھچکا پہنچا ہے۔اس تمام تر پیش رفت کے بیچ ایک نئی قطبی طاقت کا عروج بھی دیکھا جا سکتا ہے جس میں چین، روس اور پاکستان شامل ہیں۔
چونکہ امریکہ کے ساتھ ایران کے تعلقات اچھے نہیں ہیں اس لیے وہ بھی بظاہر طالبان کو تسلیم کرنے کے حق میں نظر آ رہا ہے۔ یہ بات بھی انڈیا کے لیے باعثِ تشویش ہو سکتی ہے۔انڈیا کی قومی سلامتی کے سابق نائب مشیر اروند گپتا کا خیال ہے کہ انڈیا کو صبر و تحمل سے کام لینا چاہیے جب تک کہ حالات واضح نہ ہو جائیں۔ ان کے مطابق انڈیا کو طالبان سے کچھ حاصل ہونے والا نہیں ہے۔
مسٹر گپتا کا کہنا تھا کہ ’طالبان کے اصل چہرے سے سب واقف ہیں۔ طالبان ابھی تک ایک ’اعلان کردہ شدت پسند گروپ‘ ہے۔ انتہا پسندی اور بنیاد پرستی چیلنجز رہیں گے کیونکہ یہ سوچ ختم نہیں ہونے والی۔ طالبان کے اقتدار میں آنے سے جہادی سوچ کو مزید تقویت ملے گی، جس کے نتائج پوری دنیا دیکھ چکی ہے۔‘اقتدار حاصل کرنے کے بعد طالبان نے کئی اعلانات کیے ہیں اور اپنا اعتدال پسند چہرہ دکھانے کی کوشش بھی کی ہے۔ لیکن اس کے ساتھ ہی افغانستان کے مختلف صوبوں میں طالبان جنگجوؤں کے مظالم کے واقعات کی رپورٹس بھی موصول ہو رہی ہیں۔اطلاعات کے مطابق طالبان جنگجو گھر گھر تلاشی لے رہے ہیں اور سابقہ حکومت کے ساتھ کام کرنے والے عہدیداروں اور سیاستدانوں کو بھی تلاش کر رہے ہیں۔جنھوں نے ماضی میں طالبان سے مقابلہ کیا تھا وہ اب براہ راست ان کے نشانے پر آ گئے ہیں جبکہ دوسری جانب طالبان دعویٰ کرتے آئے ہیں کہ وہ انتقامی کارروائی نہیں کریں گے۔ اطلاعات کے مطابق اس سلسلے میں طالبان کو للکارنے والی صوبہ بلخ کی گورنر سلیمہ مزاری کو بھی طالبان نے گرفتار کر لیا ہے۔
مسٹر گپتا کا کہنا ہے کہ ’ایسی صورتحال میں طالبان پر کیسے بھروسہ کیا جا سکتا ہے؟ جس طرح ان کے جنگجو لوگوں کو ايئرپورٹ تک بھی جانے نہیں دے رہے ہیں اور دہشت پھیلا رہے ہیں، وہ حکومت کیسے چلائیں گے؟‘ان کا کہنا ہے کہ چین اور پاکستان کے ساتھ انڈیا کے تعلقات کے تناظر میں اگر افغانستان میں ہونے والی پیش رفت کو دیکھا جائے تو یہ بہت تشویشناک ہے۔

طالبان
اس نئے قطبی غول میں ایران اور وسطی ایشیا کے کئی ممالک بھی شامل ہو سکتے ہیں، جس کی وجہ سے انڈیا کی تشویش میں اضافہ ہونا فطری امر ہے۔مسٹر گپتا کہتے ہیں ’طالبان دعویٰ کر سکتے ہیں کہ وہ افغانستان کی سرزمین کو کسی دوسرے ملک پر حملے کے لیے استعمال نہیں ہونے دیں گے، لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ چین اور پاکستان انڈیا کے خلاف اس کا بھرپور فائدہ اٹھانے کی کوشش کرتے رہیں گے۔‘انڈیا نے کبھی بھی طالبان کو تسلیم نہیں کیا ہے۔ اس سے پہلے بھی جب ان کی حکومت تھی تو انڈیا نے سفارتی زبان میں جسے ’انگیج‘ کرنا یعنی بات چيت کرنا کہتے ہیں، وہ بھی نہیں کیا۔ صرف ایک بار جب انڈین ایئرلائن کے ایک طیارے کو شدت پسند اغوا کر کے قندھار لے گئے تھے تو پہلی اور آخری بار انڈیا نے طالبان کمانڈروں کے ساتھ باضابطہ بات چیت کی تھی۔ اس کے بعد سے انڈیا نے ہمیشہ خود کو طالبان سے دور رکھا۔
امریکی افواج کے انخلا کے عمل سے پہلے بھی جب دوحہ میں طالبان رہنماؤں کے ساتھ مذاکرات ہوئے تو بھی انڈیا نے ان کے ساتھ ’انگیج‘ نہ کرنے کا فیصلہ کیا۔ انڈیا نے طالبان کے ساتھ پس پردہ مذاکرات کی تردید کی ہے۔مسٹر گپتا کا خیال ہے کہ طالبان کے آنے کے بعد جموں و کشمیر کے راستے انڈیا میں شدت پسندوں کی دراندازی کے واقعات بڑھ سکتے ہیں۔
دوسری جانب افغانستان کی وزارت خارجہ میں کئی سال تک کام کرنے والے گلشن سچدیوا کا کہنا ہے کہ طالبان کے ساتھ پاکستان کا ہونا انڈیا کے لیے ایک بڑا چیلنج رہے گا۔ سچدیو اس وقت نئی دہلی میں قائم جواہر لال نہرو یونیورسٹی کے ’سکول فار انٹرنیشنل سٹڈیز‘ میں پروفیسر ہیں۔پروفیسر گلشن سچدیوا نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’طالبان کون ہیں؟ جب یہ تحریک شروع ہوئی تو پاکستان کے مدارس میں پڑھنے والے طالب علموں کو اس میں بھیجا گیا۔ انھیں مسلح کیا گیا۔ یہ ابتدا تھی۔ لیکن ان کی جڑیں اب بھی موجود ہیں اور یہ نہ صرف انڈیا کے لیے بلکہ پوری دنیا کے لیے یکساں طور پر باعث تشویش ہے۔‘
مسٹر سچدیوا کا کہنا ہے کہ سنہ 2001 میں جب امریکی افواج نے طالبان کے ٹھکانوں پر حملہ کیا اور پھر افغانستان میں جمہوری حکومت نے باگ ڈور سنبھال لی تو ایسا لگا کہ طالبان دوبارہ کبھی مضبوط نہیں ہو سکیں گے۔ان کا خیال ہے کہ افغانستان میں جو کچھ ہو رہا ہے اس میں امریکہ، اشرف غنی کی قیادت اور طالبان سب شامل نظر آتے ہیں۔وہ کہتے ہیں ’اگر ایسا نہیں ہے تو پھر حکومت نے بغیر مزاحمت کے طالبان کے سامنے گھٹنے کیوں ٹیک دیے؟ یہ ایک بڑا سوال رہے گا کیونکہ امریکہ بھی کہتا رہا ہے کہ طالبان کو کابل تک پہنچنے میں تین ماہ سے زیادہ کا وقت لگ سکتا ہے لیکن یہ تین چار دنوں میں ہی ہو گیا۔‘
مسٹر سچدیوا کا یہ بھی کہنا ہے کہ ’طالبان کے سابقہ دور حکومت اور اس حکومت کے درمیان فرق صرف یہ ہے کہ اسے پہلے تسلیم نہیں کیا گیا تھا۔ لیکن اس بار روس اور چین جیسے دنیا کے دو طاقتور ممالک اسے تسلیم کر رہے ہیں۔ یورپ کے ممالک بھی ایسا ہی کریں گے کیونکہ اس سے انھیں کوئی فرق نہیں پڑتا۔ اسی سبب اس بار انڈیا کے لیے اپنی سلامتی اور خودمختاری کے پیش نظر طالبان کے ساتھ ’ڈیل‘ کرنا بہت اہم ہو جائے گا۔‘
اس لیے مسٹر سچدیو کا کہنا ہے کہ انڈیا کو تاخیر نہیں کرنی چاہیے کیونکہ انڈیا طالبان کے ساتھ ’مشغول‘ ہونے میں جتنا زیادہ وقت لے گا پاکستان اس سے براہ راست فائدہ اٹھانے کی کوشش کرے گا۔سٹریٹجک حلقوں میں بھی یہ بحث جاری ہے کہ کیا انڈیا کو جلد افغانستان میں اپنا سفارت خانہ دوبارہ کھولنا چاہیے۔سٹریٹجک امور کے ماہر اور سینیئر صحافی ابھیجیت اییر مترا بھی اس خیال کے حامی ہیں کہ ایسا ہونا چاہیے۔
وہ کہتے ہیں ’نہ صرف سفیر کو واپس بھیجا جانا چاہیے بلکہ انڈیا کو اپنے تمام مشیروں کو بھی سفارت خانے میں تعینات کرنا چاہیے۔ روس، چین، ایران اور پاکستان کے سفارت خانے وہاں بند نہیں ہیں۔ بھارت کو طالبان کے ساتھ ’انگیج‘ ہونا چاہیے۔ ایسا کرنا انڈیا کے مفاد میں ایک اہم قدم ہو گا۔‘مسٹر مترا کا خیال ہے کہ انڈیا نے ماضئ میں اس حوالے سے جو بھی کیا وہ بالکل درست تھا لیکن اب بدلے ہوئے حالات میں انڈیا کو بھی اپنی پالیسی تبدیل کرنی چاہیے۔ ان کا کہنا ہے کہ سابق طالبان اور موجودہ طالبان میں اتنا فرق ہے کہ وہ اب ’گلوبلائزڈ‘ ہو چکے ہیں۔انھوں نے کہا کہ ’سابق طالبان مکمل طور پر پاکستان کے کنٹرول میں رہے۔ مگر اب طالبان کا پاکستان کے ساتھ رویہ پہلے جیسے رہے یہ ضروری نہیں ہے۔‘سٹریٹجک تجزیہ کار سنجیدگی کے ساتھ طالبان کی طرف سے دیے جانے والے اشاروں کو دیکھ رہے ہیں۔

طالبان جنگجومثال کے طور پر خواتین کو برقع کی بجائے حجاب میں کام کرنے کی اجازت دینا، افغان سرزمین کو کسی ملک کے خلاف استعمال نہ ہونے دینے کی بات کہنا، سکھوں اور ہندوؤں کو گوردواروں میں سکیورٹی کی یقین دہانی کروانا، انڈیا پر زور دینا کہ وہ افغانستان میں شروع کیے گئے منصوبے مکمل کرے اور شیعہ برادری کے ساتھ بہتر تعلقات استوار کرنے کے اعلان کا باریک بینی سے مطالعہ کیا جا رہا ہے۔
جہاں تک افغانستان میں شرعی قانون کے نفاذ کا تعلق ہے تو ابھیجیت مترا کا کہنا ہے کہ کابل اور کچھ صوبائی شہروں کے علاوہ افغانستان میں کوئی قانون سختی سے نافذ ہی نہیں رہا۔
مترا کہتے ہیں کہ ‘صوبوں اور دور دراز علاقوں میں قبیلے یا گھر کے سربراہ نے جو کہہ دیا وہی قانون ہے۔ شریعت کے نفاذ کے ساتھ ایک ایسا نظام قائم ہو گا جس کے تحت مقدمات حل کیے جا سکیں گے۔ یہ نظام کابل کے لیے صحیح ہو نہ ہو لیکن افغانستان کے بڑے علاقوں میں اس بہانے سے کوئی قانون تو نافذ ہو گا۔‘انھوں نے کہا کہ یہ سچ ہے کہ پاکستان کی جانب سے تحفظ فراہم کیے جانے سے ہی طالبان مضبوط ہوئے ہیں۔ لیکن عام افغان کے جذبات پاکستان کے خلاف ہیں۔ انڈیا کو اس سے فائدہ اٹھانا چاہیے کیونکہ طالبان بھی بڑی آبادی کے جذبات کے خلاف جانے کے متحمل نہیں ہو سکتے۔

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS