شیویندر رانا
حق رائے دہی جمہوریت کا بنیادی عنصر ہے اس کا حقیقی مطلب تبھی ہے جب الیکشن منصفانہ ہو۔ گزشتہ دنوں سپریم کورٹ نے 8سیاسی پارٹیوں پر اس لیے جرمانہ لگایا کہ انہوں نے بہار اسمبلی الیکشن میں اپنے امیدواروں کے مجرمانہ ریکارڈ کو عام کرنے کے سپریم کورٹ کے حکم پر عمل نہیں کیا تھا۔ اس پر تلخ تبصرہ کرتے ہوئے سپریم کورٹ نے کہا کہ ’سیاسی نظام کے کریمنلائزیشن کا خطرہ بڑھتا جارہا ہے۔ اس کی درستگی کے لیے مجرمانہ پس منظر والے افراد کو قانون ساز بننے کی اجازت نہیں دی جانی چاہیے۔‘
اس مسئلہ پر ملک میں پارلیمنٹ سے سڑک تک سنجیدہ بحث ہونی چاہیے تھی، مگر اسے ایک عام فیصلہ کی طرح لیا گیا۔ ہمارے سیاسی لیڈر بنیادی ایشوز سے عوام کی توجہ ہٹانے اور غیرضروری مسئلوں پر بحث کا فن بخوبی جانتے ہیں۔ جرم اور الیکشن کا تعلق بڑا پرانا ہے۔ 70اور80کی دہائی میں جب ذات پات کی سیاست کا اثر بڑھنے لگا تب ذات پات کے سہارے ابھرنے کی کوشش کررہے لیڈروں نے اپنی مخصوص ذات کے مجرمین کا استعمال بوتھ لوٹنے، ووٹروں کو ڈرانے دھمکانے، اپوزیشن پارٹیوں کے امیدواروں کے قتل کرانے وغیرہ میں کیا۔ پھر یہ مجرم سیاسی پارٹیوں اور لیڈروں کی ضرورت بنتے گئے۔ ان مجرمین نے بھی اپنے سیاسی رشتوں کا استعمال کرکے اپنی متوازی حکومت قائم کرلی۔ پھر ان مجرمین کو احساس ہوا کہ جب وہ کسی کو الیکشن میں جیت دلا سکتے ہیں تو خود بھی جیت سکتے ہیں، اس سے ان کو قانونی تحفظ بھی مل جائے گا۔ پھر 90کی دہائی میں ان مجرموں نے خود لوک سبھا اور اسمبلی انتخابات میں تال ٹھونکنی شروع کردی۔ شروع میں انہیں علاقائی پارٹیوں کی زیادہ سرپرستی حاصل ہوئی۔ اس کے دو اسباب تھے۔ پہلا سوشلزم کے بالواسطہ اثر میں ذات پات کی سیاست کو تیزی سے عروج۔ ایسے میں مخصوص ذات کے مجرم ان پارٹیوں کی تشہیر میں خصوصی فائدہ اٹھانے والے ثابت ہوئے۔ جو کام تقاریر، وعدوں، پیسوں کی تقسیم، معروف شخص یا فلمی ستارے نہیں کرپاتے تھے، وہ آسانی سے بندوق کی طاقت پر ہوجاتا تھا۔ جب علاقائی پارٹیوں نے یہ طریقہ اپنایا تو قومی پارٹیوں نے بھی غیرسماجی عناصر کو جھاڑپونچھ کر اپنے یہاں بھرتی کرنا شروع کردیا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ دھڑلے سے ہر سیاسی پارٹی کی معرفت غنڈے اور ڈکیت ’معزز‘ بننے لگے۔
اب انتخابی اصلاح کی سمت میں کچھ اقدامات فوراً کیے جانے کی ضرورت ہے۔ انتخابی حلف نامے میں فرضی اطلاع پائے جانے پر امیدوار پر تاحیات پابندی عائد کرنے اور اس کی پارٹی پر بھی جرمانہ لگایا جانا چاہیے، کیوں کہ اس پارٹی کی اولین ذمہ داری تھی اسے امیدوار بنانے سے پہلے اس کے پس منظر کے بارے میں جاننا۔ چھٹاں، عوام کو ’رائٹ ٹو ری کال‘ کی سہولت مہیا کی جائے۔ کیوں کے اس کے بغیر معزز عوامی نمائندے سدھرنے والے نہیں ہیں۔
سب سے حیرت انگیز، جیل سے الیکشن لڑنے کا حق ہے۔ اگر سزایافتہ لوگ الیکشن لڑسکتے ہیںتو پھر ملک کے سارے قیدیوں کو ووٹ دینے کا حق دے دیا جانا چاہیے۔ آج تک کسی بھی پارٹی نے اس موضوع پر کوئی سنجیدہ غوروخوض نہیں کیا۔ بلکہ سپریم کورٹ کے فیصلہ کی آل پارٹی میٹنگ میں بائیں بازو اور دائیں بازو سبھی پارٹیوں نے ایک آواز میں مخالفت کی تھی۔ بات عدلیہ کے ذریعہ اپنے حقوق کی خلاف ورزی تک پہنچ گئی تھی۔ کوئی بھی ان مجرموں کو پارلیمنٹ اور اسمبلی جانے سے روکنے کے بنیادی ایشو پر بات کرنے کے لیے تیار نہیں تھا۔ ان مجرموں کی گرومنگ کرنے والی پارٹیوں کے پاس ایک آسان جواز ہوتا ہے کہ یہ مقدمے فرضی اور مخالفین کی سازش ہیں۔ اس طرح وقت کے ساتھ جمہوریت کے مندر میں مجرموں کی آمد بڑھتی گئی۔
اکثر مجرموں کو الیکشن لڑنے سے روکنے کے دعوے تو کیے جاتے ہیں لیکن حقیقت میں ایسا نہیں ہوپاتا۔ یہی وجہ ہے کہ 2004کی چودہویں لوک سبھا میں 128داغی امیدوار پارلیمنٹ پہنچنے میں کامیاب رہے۔ ان میں سے 58معزز ممبران پارلیمنٹ ایسے تھے، جن کے خلاف قتل، قتل کی کوشش یا عصمت دری جیسے سنگین مجرمانہ معاملات درج تھے۔ 2009کی پندرہویں لوک سبھا میں منتخب ہوکر آئے 162(29.83فیصد) ممبران پارلیمنٹ کے خلاف مجرمانہ معاملے درج تھے۔ اس لوک سبھا میں چودہویں لوک سبھا کے مقابلہ 26فیصد زیادہ مجرمانہ پس منظر والے ممبران پارلیمنٹ منتخب ہوکر آئے تھے۔ ان میں سے 76معززین کے خلاف سنگین نوعیت کے مجرمانہ معاملات درج تھے۔ 2014کی سولہویں لوک سبھا میں منتخب ہوکر آئے کل ممبران پارلیمنٹ میں سے 185(34فیصد) کے خلاف مجرمانہ معاملات درج تھے۔ ان میں سے 112کے خلاف سنگین نوعیت کے معاملات تھے۔ 2019کی سترہویں لوک سبھا میں منتخب ہوکر آئے کل ممبران پارلیمنٹ میں سے 233کے خلاف مجرمانہ معاملات درج ہیں۔ ان میں سے 159کے خلاف سنگین نوعیت کے معاملات ہیں۔ یعنی 2004کے مقابلہ 2019میں 82فیصد زائد ممبران پارلیمنٹ مجرمانہ پس منظر والے ہیں۔
ایسا نہیں ہے کہ سارے حقائق سے ہماری سیاسی پارٹیاں انجان ہیں۔ لیکن ان مسائل کا حل کسی لیڈر یا سیاسی پارٹی کی ترجیحات میں نہیں ہے۔ اب تک جو انتخابی اصلاحات ہوئی بھی ہیں، وہ سپریم کورٹ کی سرگرمی اور الیکشن کمیشن کی مستعدی کے سبب ممکن ہوپائی ہیں۔ مثلاً اکتوبر2018میں الیکشن کمیشن نے امیدواروں کے لیے لازمی کردیا تھا کہ وہ پورے الیکشن کے دوران کم سے کم تین مرتبہ ٹیلی ویژن اور اخبارات میں اپنے مجرمانہ ریکارڈس کا اشتہاردیں۔ ساتھ ہی کمیشن نے یہ بھی واضح کیا تھا کہ ان اشتہارات کا خرچ بھی امیدواروں کو برداشت کرنا ہوگا، کیوں کہ یہ ’انتخابی خرچ‘ کی فہرست میں آتا ہے۔ مگر ملک کی سیاسی پارٹیاں ان اصلاحات کو پلٹنے کا فن بھی بخوبی جانتی ہیں۔ مثلاً 2013میں سپریم کورٹ نے پٹنہ ہائی کورٹ کے اس حکم کو بحال رکھا، جس میں کہا گیا تھا کہ ایک شخص کو جیل یا پولیس حراست میں ہونے پر ووٹ دینے کا حق نہ ہو، وہ ووٹ دینے والا نہیں ہے۔ اس سے مجرموں کے الیکشن پر قدغن لگنے کے امکانات میں اضافہ ہوا۔ لیکن سیاسی پارٹیوں کو یہ پسند نہیں آیا اس لیے پارلیمنٹ یا اسمبلی انتخابات لڑنے کے لیے عوامی نمائندگی ایکٹ، 1951 میں نئے پرووژن کا اضافہ کیا گیا۔ اس میں پہلا پرووژن تھا کہ حراست میں ہونے کے سبب ووٹنگ سے روکے جانے پر بھی اگر اس شخص کا نام ووٹروں کی فہرست میں درج ہے تو اسے الیکشن لڑنے سے نہیں روکا جاسکتا۔ دوسرا پرووژن تھا کہ کسی ممبرپارلیمنٹ اور رکن قانون ساز اسمبلی کو تب ہی نااہل سمجھا جائے گا جب اسے اس ایکٹ کے تحت نااہل ٹھہرایا جائے، کسی دیگر بنیاد پر نہیں۔ ان آئینی دفعات کو ان مجرموں اور ان کی محافظ پارٹیوں نے اپنی ڈھال بنالیا ہے۔
اب انتخابی اصلاح کی سمت میں کچھ اقدامات فوراً کیے جانے کی ضرورت ہے۔ پہلا اسمبلی اور لوک سبھا کے امیدواروں کے لیے کم سے کم تعلیمی لیاقت بی اے مقرر ہونی چاہیے۔ دوسرا انہیں پنچایت اور بلدیاتی انتخابات کا تجربہ ہونا چاہیے۔ تیسرا اگر کوئی امیدوار یا ایم ایل اے-ممبرپارلیمنٹ کسی عدالت کے ذریعہ قصوروار قرار دیا جاتا ہے، تو اسے ٹکٹ دینے والی سیاسی پارٹیوں کو سزا دی جانی چاہیے۔ چوتھا الیکشن کو مکمل طور پر حکومت کے خرچ پر منعقد کرایا جانا چاہیے۔ 1998میں اندراجیت گپتا کمیٹی نے اسے مفادعامہ میں قانونی طور سے صحیح سمجھا تھا۔
پانچواں، انتخابی حلف نامے میں فرضی اطلاع پائے جانے پر امیدوار پر تاحیات پابندی عائد کرنے اور اس کی پارٹی پر بھی جرمانہ لگایا جانا چاہیے، کیوں کہ اس پارٹی کی اولین ذمہ داری تھی اسے امیدوار بنانے سے پہلے اس کے پس منظر کے بارے میں جاننا۔ چھٹاں، عوام کو ’رائٹ ٹو ری کال‘ کی سہولت مہیا کی جائے۔ کیوں کے اس کے بغیر معزز عوامی نمائندے سدھرنے والے نہیں ہیں۔ ساتواں، نوٹا کو مؤثر طور پر نافذ کیا جائے تاکہ سیاسی پارٹیاں امیدواروں کے انتخابی عمل میں اصلاح کریں۔ اس کے علاوہ ان اصلاحات میں عوام کی شراکت داری۔ آئین سازی کے وقت آئین ساز اسمبلی کے عمل کو رابطہ عامہ بنانے کے لیے عوام سے بھی مشورے طلب کیے گئے تھے، تو پھر آج ایسا کیا ہوگیا کہ 130کروڑ سے زائد آبادی کے مستقبل کا تعین 400-500’معزز’ ہی کریں گے۔
(بشکریہ:جن ستّا)